غزہ، جنگ بندی مذاکرات کی تازہ ترین صورتحال

ایسے وقت جب غاصب صیہونی رژیم بدستور مذاکرات میں واپسی کے دعوے کر رہی ہے اور گذشتہ روز عبری ذرائع ابلاغ بھی اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ اسرائیل نے قیدیوں کے تبادلے سے متعلق اپنی نئی تجاویز ثالثی کرنے والے ممالک مصر اور قطر کے سپرد کر دی ہیں۔

فاران: ایسے وقت جب غاصب صیہونی رژیم بدستور مذاکرات میں واپسی کے دعوے کر رہی ہے اور گذشتہ روز عبری ذرائع ابلاغ بھی اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ اسرائیل نے قیدیوں کے تبادلے سے متعلق اپنی نئی تجاویز ثالثی کرنے والے ممالک مصر اور قطر کے سپرد کر دی ہیں، فلسطین میں اسلامی مزاحمتی تنظیم حماس کے رہنما غازی حمد نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ہم اپنے بنیادی شرائط سے کسی قیمت پر پیچھے نہیں ہٹیں گے اور کسی قسم کے معاہدے سے پہلے غزہ میں غاصب صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت اور بے گناہ فلسطینی شہریوں کا قتل عام پوری طرح رک جانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا: “اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ غاصب صیہونی فوج رفح کراسنگ سے بھی پیچھے ہٹ جائے اور مذاکرات کا نیا مرحلہ شروع ہونے سے پہلے رفح کراسنگ کی صورتحال نارمل ہو جانی چاہئے۔”

میدان جنگ میں شکست کے بعد اسرائیل نے مذاکرات کی باتیں شروع کر دی ہیں
حماس کے ایک اور رہنما، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، نے بھی العربی الجدید سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے: “ہمارا موقف مکمل طور پر واضح ہے اور ہم نے ماضی میں اپنی طرف سے بہت حد تک نرمی کا مظاہرہ بھی کیا ہے تاکہ ایسا معاہدہ حاصل ہو جائے جو فلسطینی عوام کے مفاد میں ہو۔ ثالثی کرنے والے ممالک ہماری ریڈ لائنز سے بخوبی آگاہ ہیں اور جانتے ہیں کہ اتنی قربانیاں دینے کے بعد ممکن نہیں ہم اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹ جائیں۔” حماس کے اس رہنما نے مزید کہا: “غاصب صیہونی رژیم نے میدان جنگ میں اسلامی مزاحمت کی جانب سے دباو کا شکار ہو جانے کے بعد دوبارہ مذاکرات کی باتیں شروع کر دی ہیں۔ آج اسرائیل ایک سیاسی اور فوجی دلدل میں پھنس چکا ہے اور اس سے باہر نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے جو فلسطینی قوم کے مطالبات ماننے پر مبنی ہے۔ فلسطینی قوم کے مطالبات مستقل جنگ بندی، غزہ کے محاصرے کو ختم کئے جانا، غزہ کی تعمیر نو اور اس کے بعد قیدیوں کے تبادلے کیلئے ایک جامع معاہدہ پر مشتمل ہے۔”

معاہدے کی نئی شرائط زمینی حقائق کی روشنی میں پیش کی جائیں گی
العربی الجدید نے آگاہ ذرائع کے بقول لکھا ہے: “اسلامی مزاحمت کا فیصلہ، جس کی اطلاع حماس کے ذریعے ثالثی کرنے والے ممالک کو دے دی گئی ہے یہ ہے کہ اسرائیلی یرغمالی، چاہے فوجی اور چاہے سویلین، اس وقت تک آزاد نہیں کئے جائیں گے نیز قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں بھی کوئی معاہدہ اس وقت انجام نہیں پائے گا جب تک مستقل جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ اسلامی مزاحمت کو صیہونی حکمرانوں پر بالکل اعتماد نہیں ہے۔” اس بارے میں ایک آگاہ ذریعے نے اعلان کیا: “گذشتہ مجوزہ منصوبے میں یہ کہا گیا تھا کہ معاہدے کے پہلے مرحلے میں کچھ تعداد میں یرغمالیوں کو آزاد کر دیا جائے اور اس کے بعد دیگر مراحل کی تکمیل کیلئے جنگ بندی کے بارے میں مذاکرات انجام پائیں۔ حماس نے بھی اس منصوبے کو قبول کر لیا تھا لیکن صیہونی حکام نے اسے نہیں مانا۔”

یوں غزہ میں حماس کے رہنما اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ وہ مجوزہ منصوبہ جسے اس سے پہلے حماس اور فلسطین میں اسلامی مزاحمت کے تمام گروہوں نے قبول کر لیا تھا اور اسرائیل نے اسے مسترد کر دیا تھا، اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کروانے کا بہترین موقع تھا جسے غاصب صیہونی رژیم نے گنوا دیا۔ لہذا آئندہ ہر قسم کے مذاکرات یا معاہدے کیلئے حماس نئی شرائط پیش کرے گی اور یہ شرائط میدان جنگ کی صورتحال پر منحصر ہوں گی۔ اسلامی مزاحمت کی پوزیشن کافی حد تک مضبوط ہے۔”

اسرائیل معاہدہ کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے
دوسری طرف مصر کے ایک آگاہ ذریعے نے غزہ میں جنگ بندی سے متعلق مذاکرات میں قاہرہ کی فعالیت کے بارے میں کہا: “مصر کے اب تک کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل قیدیوں کے تبادلے یا جنگ بندی انجام پانے کیلئے معاہدے کے حصول میں سنجیدگی نہیں رکھتا۔” اس آگاہ ذریعے نے العربی الجدید کو بتایا: “حال ہی میں حماس کی سربراہان سے بات چیت انجام پائی ہے جس میں کچھ بنیادی اصولوں پر اتفاق رائے پیدا ہوا ہے۔ ان میں سے اہم ترین رفح کراسنگ سے صیہونی فوج کی پسپائی ہے۔ مصر غزہ بحران کے حل کیلئے اپنی کوششیں بدستور جاری رکھے ہوئے ہے اور متعلقہ فریقوں سے رابطہ قائم کئے ہوئے ہے تاکہ فلسطینی قوم کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کیلئے معاہدہ انجام پا سکے۔”

گذشتہ رات صیہونی رژیم کے ٹی وی چینل 12 نے دعوی کیا تھا کہ تل ابیب نے قیدیوں کے تبادلے سے متعلق معاہدے کیلئے اپنی تجاویز میں غزہ میں طویل المیعاد جنگ بندی قبول کر لی ہے لیکن اسے معاہدے کے پہلے مرحلے کی تکمیل سے مشروط کیا ہے۔ لیکن حماس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جب بھی اسرائیل کی جانب سے تجاویز باقاعدہ طور پر پیش کی جائیں گی، حماس رہنما اس کا جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کریں گے کہ مذاکرات انجام پائیں یا نہیں۔ حماس کی اصلی شرائط مستقل جنگ بندی کے قیام، مہاجرین کی اپنے گھروں کو واپسی اور غزہ سے صیہونی جارح فوج کے مکمل انخلاء پر مشتمل ہیں۔ صرف ایسی صورت میں ہی قیدیوں کے تبادلے سے متعلق مذاکرات انجام پا سکتے ہیں۔