غزہ میں امداد کے نام پر قتل عام، اسرائیل نے نہتے پیاسوں اور بھوکوں پر قیامت ڈھا دی

یورپی متوسطی مرصد برائے انسانی حقوق نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امداد کی تقسیم کے نام پر انسانیت سوز قتل عام کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے اب تک کا بدترین واقعہ قرار دیا ہے۔

فاران: یورپی متوسطی مرصد برائے انسانی حقوق نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امداد کی تقسیم کے نام پر انسانیت سوز قتل عام کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے اب تک کا بدترین واقعہ قرار دیا ہے۔ انسانی حقوق گروپ نے اقوامِ عالم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قابض اسرائیل کو اس غیر انسانی امدادی طریقہ کار کو فوراً بند کرنے پر مجبور کریں۔

اتوار کی صبح جنوبی رفح میں پیش آنے والے لرزہ خیز واقعے میں صہیونی فوج نے امداد کے منتظر بھوک سے نڈھال فلسطینیوں پر اندھا دھند فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں کم از کم 30 افراد شہید اور 200 سے زائد زخمی ہو گئے، جب کہ کئی لاپتہ ہو گئے۔ امدادی مرکز پر یہ حملہ امریکی سرپرستی میں قائم مقام پر کیا گیا، جس سے فلسطینیوں پر مظالم میں امریکہ کی شراکت کھل کر سامنے آ گئی۔

یورپی مرصد کے میدانی عملے کے مطابق یہ سانحہ اُس وقت پیش آیا جب ہزاروں فلسطینی تل السلطان کے علاقے میں اس مقام پر جمع ہوئے تھے جہاں قابض فوج نے خود ہی امداد کی تقسیم کا اعلان کر رکھا تھا۔ صبح چھ بجے کے انتظار کے بعد اسرائیلی فوج نے “کواڈ کاپٹر” ڈرونز سے ان پر گولیاں برسائیں، پھر ٹینکوں سے گولے داغے گئے، اور امریکی تنظیم کے سکیورٹی اہلکاروں نے پیچھے سے گیس کے شیل برسا دیے۔

عینی شاہدین کے مطابق قابض اسرائیل اور اس کی امریکی حلیف تنظیم امداد کے محض چند پیکٹ لاتی ہے، مگر ہزاروں کو دعوت دے کر انہیں ایسے مقام پر اکٹھا کرتی ہے جو موت کا میدان بن چکا ہے۔ وہاں پہنچنے والے بھوک سے بلکتے لوگ جب کم تعداد میں موجود امدادی پیکٹ دیکھتے ہیں تو ان میں افراتفری مچ جاتی ہے، جسے اسرائیلی فورسز کی فائرنگ مزید ہلاکت خیز بنا دیتی ہے۔

ایک عینی شاہد “م. ص” نے آبزر ویٹری کو بتایا کہ دو بجے رات سے رفح کے شمال مغرب میں “دوار العلم” کے قریب شہری جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ ڈرون کے ذریعے اعلان کیا گیا کہ چھ بجے سے پہلے کوئی گیٹ کی طرف نہ بڑھے، لیکن جب لوگوں نے امن کے ساتھ پیش قدمی کی تو ان پر گولیاں چلائی گئیں، پھر ٹینکوں سے بم برسائے گئے اور امریکی اہلکاروں نے گیس کے شیل پھینکے۔

ایک اور خاتون شہری “ف. ع” نے بتایا کہ قتل عام کے باوجود بھوک نے سینکڑوں کو واپس جانے پر مجبور کیا۔ جب چھ بجے ڈرون نے اعلان کیا کہ گیٹ کی طرف آئیں، تو عوام کا ہجوم امدادی مقام کی طرف لپکا۔ وہاں صرف آٹھ لکڑی کے تختے رکھے گئے تھے جن پر امدادی کارٹن رکھے تھےاور اتنی بڑی بھیڑ کے لیے یہ سراسر مذاق تھا۔ عوام میں دھکم پیل ہوئی، کسی کو کچھ نہ ملا، اور پھر کہا گیا کہ کل صبح دوبارہ آنا۔

اسی نوعیت کا ایک اور اندوہناک واقعہ آج صبح وسطی غزہ کے شمال میں بھی پیش آیا جہاں ایک اور امدادی مرکز پر قابض فوج نے حملہ کیا، جس میں ایک فلسطینی شہید اور 26 زخمی ہوئے۔

یورپی مرصد کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے امدادی مراکز کو ایسی جگہوں پر قائم کرنا، جہاں کوئی سکیورٹی ہو، نہ نظام اور نہ ہی مناسب مقدار میں امداد، سراسر بدنیتی پر مبنی منصوبہ ہے۔ یہ صرف امداد کی تقسیم نہیں بلکہ دانستہ بھوکے فلسطینیوں کو قتل کرنے کی حکمتِ عملی ہے جو گزشتہ تین ماہ سے جاری ہے۔

رپورٹ کے مطابق گذشتہ منگل سے اب تک صرف امدادی مراکز کے اطراف 41 فلسطینی شہید اور 300 زخمی ہو چکے ہیں، جب کہ درجنوں تاحال لاپتہ ہیں۔

یورومیڈ نے زور دے کر کہا کہ اسرائیلی افواج کو امداد کے انتظامی اختیارات دینا، بالکل ایسے ہے جیسے قاتل کو ہی مقتول کا کفیل بنا دیا جائے۔ جس ریاست نے بیس ماہ سے فلسطینی نسل کشی کا بازار گرم کر رکھا ہو، وہ انسانیت کی فلاح کیسے کر سکتی ہے؟

بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل کی بنائی گئی امدادی تقسیم کی خون آشام اسکیم کو فوری طور پر ختم کر کے اقوام متحدہ کی سابقہ غیر جانب دار اور انسانی اصولوں پر مبنی طریقہ کار کو بحال کیا جائے تاکہ 22 لاکھ سے زائد محصور فلسطینیوں کو محفوظ طریقے سے امداد پہنچائی جا سکے۔