غزہ میں جنگ بندی کی امریکی کوشش کے پس پردہ حقائق

یہ جنگ اس وقت تک نہیں رکے گی جب تک غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی نسل کشی نہیں رک جاتی۔ یہ حالات امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن کے آٹھویں دورہ مقبوضہ فلسطین کی بڑی وجہ ہیں جو عرب ممالک خاص طور پر مصر اور قطر کی ثالثی میں غزہ میں جنگ بندی کی امید پر انجام پایا ہے۔

فاران: منگل 11 جون 2024ء کے دن مقبوضہ فلسطین کی بندرگاہ حیفا میں خطے کی گھنٹیاں بجنے لگیں جس کی وجہ حزب اللہ لبنان کے دو خودکش ڈرون طیارے تھے۔ یہودی آبادکار پناہ گاہوں کی جانب دوڑنے لگے۔ اسرائیل کیلئے یہ بہت ہی خطرناک تبدیلی ہے جو اس محاذ پر بھرپور جنگ شروع ہونے کا مقدمہ بن سکتی ہے۔ کیونکہ اب شمال (الجلیل) سے لے کر مرکز اور جنوب (غزہ) تک مقبوضہ فلسطین کا پورا علاقہ محفوظ نہیں رہا اور غاصب صیہونی رژیم کیلئے اس کے سنگین نتائج برداشت کرنا ممکن نہیں رہا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ حزب اللہ لبنان کے دو خودکش ڈرون طیاروں کا حیفا بندرگاہ تک اندر گھس آنا، شمالی محاذ پر تین بڑی تبدیلیوں کے ہمراہ انجام پایا ہے:
1)۔ حزب اللہ لبنان کا فضائی دفاع دو دن پہلے اسرائیل کے ایک جدید ترین ڈرون طیارے “ہرمس 900” کو مار گرانے میں کامیاب ہوا ہے۔

2)۔ اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان نے کل منگل کے دن گولان ہائٹس میں واقع اسرائیلی فوجی ٹھکانوں اور کسرمین یہودی بستی پر 50 سے زیادہ میزائل داغے ہیں جن کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر آگ لگ گئی ہے۔
3)۔ حزب اللہ لبنان کی فضائی دفاعی یونٹ نے اعلان کیا ہے کہ اس کے پاس ایسے جدید میزائل موجود ہیں جو اسرائیلی جنگی طیاروں ایف 16 اور ایف 15 کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور انہیں لبنان کی فضائی حدود میں داخل ہونے سے روک سکتے ہیں۔
اس محاذ پر تناو کی شدت میں اضافے کے ساتھ ساتھ یمن میں انصاراللہ کی مزاحمتی سرگرمیوں میں بھی تیزی آ گئی ہے۔ انصاراللہ یمن نے تین سمندروں (بحیرہ عرب، بحیرہ احمر اور بحیرہ روم) کے علاوہ بحر ہند میں بھی امریکی اور اسرائیلی بحری جہازوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

مذکورہ بالا حقائق وہ موجودہ حالات ہیں جنہوں نے امریکہ کو غزہ میں جنگ بندی کیلئے دیوانہ وار کوششیں انجام دینے پر مجبور کر دیا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اس جنگ بندی کے نتیجے میں اسرائیلی فوج اپنی پوری توجہ حزب اللہ لبنان پر مرکوز کر دے اور لبنان پر وسیع فوجی جارحیت کا آغاز کر دے۔ حیفا کی جانب ڈرون طیارے بھیجنا اور ڈرون طیاروں کو ان ایئر ڈیفنس میزائل سسٹمز سے عبور کر جانا جنہیں جدید ترین ظاہر کیا جاتا ہے، اسرائیل کے فوجی اور سیاسی سربراہان کیلئے ایک دھمکی آمیز پیغام ہے اور اس حقیقت کی تصدیق ہے کہ مقبوضہ فلسطین کا یہ شہر اور دیگر شہر اسلامی مزاحمت کی زد میں ہیں اور اگر جنگ میں کسی قسم کا پھیلاو آتا ہے یا لبنان پر جارحیت انجام پاتی ہے یا غزہ میں نسل کشی کی جنگ جاری رہتی ہے تو اس کا مطلب ان شہروں کی مکمل نابودی اور ویرانی ہو گا۔

اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان نے اب تک گائیڈڈ اور بھاری میزائلوں کا استعمال کیا ہے جو اس کے پاس بڑی تعداد میں موجود ہیں اور خود اسرائیلی ذرائع کے بقول ان کی تعداد 2 لاکھ سے زیادہ ہے۔ شاید بنجمن نیتن یاہو نے جو اب تک لبنان کو پتھر کے زمانے میں واپس بھیجنے کی دھمکی پر عمل نہیں کیا اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ حزب اللہ لبنان کی جوابی کاروائی کی وسعت اور شدت سے آگاہ ہے اور جانتا ہے کہ اس کے نتیجے میں اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ وہ تھکا دینے والی جنگ جس کا آغاز حزب اللہ لبنان نے غزہ جنگ کے آغاز سے مقبوضہ فلسطین کے شمالی محاذ کر کیا ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر آتش سوزی کے واقعات اور تباہی کے علاوہ صیہونی حکام اور آبادکاروں کے حوصلے بھی پست ہوئے ہیں، اب تک مقبوضہ الجلیل سے 2 لاکھ یہودی آبادکاروں کی جبری جلاوطنی کا باعث بنی ہے۔

یہ جنگ اس وقت تک نہیں رکے گی جب تک غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی نسل کشی نہیں رک جاتی۔ یہ حالات امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن کے آٹھویں دورہ مقبوضہ فلسطین کی بڑی وجہ ہیں جو عرب ممالک خاص طور پر مصر اور قطر کی ثالثی میں غزہ میں جنگ بندی کی امید پر انجام پایا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد منظور کر لی ہے اور امریکہ نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ یہ قرارداد عملی طور پر ہر گز لاگو نہیں ہو گی اور دیگر دسیوں قراردادوں کی مانند اقوام متحدہ کے آرکائیو میں پڑی رہے گی۔ اس دعوے کیلئے بہت سی دلیلیں پائی جاتی ہیں جن میں سے اہم ترین دلیل یہ ہے کہ اگرچہ فلسطین کی اسلامی مزاحمت نے اس کا خیر مقدم کیا ہے لیکن وہ کبھی بھی ایسی قرادادوں کے دھوکے میں نہیں آئے گی اور امریکہ کی جانب سے دوحہ اور قاہرہ میں جاری مذاکرات کی حمایت پر یقین نہیں کرے گی۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے ثالثی کرنے والے عرب ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ حماس پر دباو ڈالیں تاکہ اسرائیل کی پیش کردہ شرائط مان لے اور اگر نہ مانے تو قطر سے حماس کے نمائندوں کو نکال دیا جائے۔ چند دن پہلے صیہونی فوج نے النصیرات مہاجر کیمپ پر جو حملہ کیا اور اس میں 300 سے زائد فلسطینیوں کو شہید اور 700 سے زائد کو زخمی کر دیا، اس نے مذاکرات کو شدید متاثر کیا ہے۔ حیفا پر ڈرون طیاروں کا حملہ، گولان ہائٹس پر دسیوں راکٹ داغے جانا، غزہ میں حماس کے ہاتھوں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت اور صیہونی حکمرانوں میں شدید اندرونی اختلافات، ان تمام حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کا خاتمہ بہت قریب ہے۔ دوسری طرف اسلامی مزاحمت کی حتمی فتح بھی قریب ہے۔ فی الحال جس چیز کی ضرورت ہے وہ صبر، استقامت اور امریکہ اور ثالثی کرنے والے ممالک پر عدام اعتماد ہے۔