غزہ کو ترکی میں ضم کرنے کی داؤد اوغلو کی مشکوک تجویز کا جائزہ

احمد داؤد اوغلو کی غزہ کو ترکی میں ضم کرنے کی مشکوک تجویز حماس کو ختم کرنے اور غزہ میں فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے امریکی اور اسرائیلی اقدامات کے مقاصد کے عین مطابق ہے۔
فاران: احمد داؤد اوغلو کی غزہ کو ترکی میں ضم کرنے کی مشکوک تجویز حماس کو ختم کرنے اور غزہ میں فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے امریکی اور اسرائیلی اقدامات کے مقاصد کے عین مطابق ہے۔
العالم کے مطابق، رپورٹ کے مطابق فلسطینی تجزیہ کار اور آن لائن اخبار رائے الیوم کے مدیر عبدالباری عطوان نے احمد داؤد اوغلو کی جانب سے غزہ کو ترکی میں ضم کرنے کی تجویز کے جواب میں لکھا ہے کہ حماس کو ختم کرنے اور فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کی امریکی اور اسرائیلی کوششوں کے دوران پیش کی گئی داؤد اوغلو کی تجویز ان کوششوں کے پوشیدہ مقاصد کے عین مطابق ہے۔
داؤد اوغلو کی ترکی کے توسیع پسندانہ منصوبوں کی حمایت اور “جدید عثمانی” نظریہ پیش کرنے کو مشکوک قرار دیتے ہوئے، عطوان نے اکہا: اس تجویز میں داؤد اوغلو کی چھ بنیادی غلطیوں کا خلاصہ اس طرح کیا جاسکتا ہے:
1. صرف غزہ پر توجہ مرکوز کرنا: مغربی کنارے اور یروشلم کو نظر انداز کرنا، جو ان علاقوں کو الگ کرنے کے امریکی منصوبوں سے مطابقت رکھتا ہے۔
2- مصر کی خودمختاری کو نظر انداز کرنا: یہ دعویٰ کرنا کہ سلطنت عثمانیہ غزہ پر آخری جائز حکومت تھی اور اس خطے پر مصری حکمرانی کے دور کو نظر انداز کرنا۔
3۔ عثمانی جواز کو غزہ تک محدود کرنا اور یروشلم اور مقبوضہ فلسطین کے دیگر علاقوں پر توجہ نہ دینا: اوغلو عثمانی جواز کو غزہ تک محدود کرتے ہیں اور مقبوضہ یروشلم، مسجد اقصیٰ اور تمام موجودہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو بھول جاتے ہیں۔
4۔ غزہ کو نیٹو کے تسلط میں رکھنا: غزہ کو ترکی میں ضم کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ نیٹو کے تسلط میں ہوگا۔
5۔ غزہ کے دفاع کے عزم کا فقدان: سوال یہ ہے کہ اگر غزہ کا الحاق کیا جاتا ہے تو کیا ترکی اور نیٹو غزہ کو اسرائیلی حملوں سے محفوظ رکھیں گے۔
6 – حماس کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھانا: سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا داؤد اوغلو حماس کی حکومت کو غیر قانونی سمجھتے ہیں اور اس لئے اس کی جگہ ترک حکومت لانے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔
آخر میں فلسطینی تجزیہ کار نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ان کے آباؤ اجداد بھی عثمانی رعایا تھے، ترکی سے سوال کیا کہ کیوں ترکی وہ پہلا ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور اس نے فلسطین کی بالکل بھی مدد کیوں نہیں کی؟
انہوں نے زور دے کر کہا کہ وہ فلسطین کو ترکی میں ضم کرنے کی حمایت صرف اسی صورت میں کریں گے جب ترکی یروشلم اور فلسطین کے دیگر مقدس مقامات کو آزاد کرانے کے لیے فوجی کارروائی کرے۔