غزہ کے بارے میں امریکی عزائم

وہ قوتیں جو غزہ کے مستقبل کیلئے روڈمیپ واضح کرنے کی کوشش کر رہی ہیں انتہائی احمق اور نادان ہیں۔ ان کے پاس پرانی معلومات ہیں اور وہ غزہ کے عوام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے بے اطلاع ہیں۔ غزہ کی آبادی کا 80 فیصد حصہ ان فلسطینیوں پر مشتمل ہے جو مقبوضہ فلسطین کے دیگر حصوں سے ہجرت کر کے یہاں آئے ہیں۔ وہ اپنے گھر واپس جانے کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچتے۔

فاران: امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک نے غزہ جنگ کے بارے میں اپنی سفارتی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک غزہ کے بارے میں دو اہم مقاصد کیلئے تگ و دو میں مصروف ہیں اور حتی ان کے حکومتی اور تحقیقاتی ادارے بھی بھرپور فعالیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پہلا مقصد اسرائیل کی بقا کیلئے مناسب راہ تلاش کرنا اور دوسرا مقصد غزہ کے مستقبل کیلئے روڈمیپ واضح کرنا ہے۔ پہلے مقصد کے حصول کیلئے جو حکمت عملی اختیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ غزہ سے فلسطینی شہریوں کا مکمل انخلاء ہے۔ غزہ میں مقیم 15 لاکھ سے زائد فلسطینی شہریوں کو جلاوطن کر کے دنیا کے مختلف 65 ممالک منتقل کرنے کی سازش تیار کی جا رہی ہے۔ اسرائیل کے حامی ممالک اس طرح غزہ میں گنجان آبادی کم کر کے اسرائیل کی قومی سلامتی اور بقا یقینی بنانا چاہتے ہیں۔

امریکہ اور مغربی ممالک کی حالیہ سفارتی سرگرمیوں کا دوسرا اہم مقصد غزہ کے مستقبل کا روڈمیپ واضح کرنا ہے۔ وہ غزہ میں حماس کی طاقت ختم کر دینا چاہتے ہیں اور اس کے بعد ان کے سامنے تین منظرنامے ہیں۔ ایک فلسطین اتھارٹی کو غزہ میں اقتدار میں واپس لانا، دوسرا بین الاقوامی فورسز کی غزہ میں تعیناتی جیسا کہ 1967ء میں غزہ پر صیہونی قبضے سے پہلے تھا اور تیسرا غزہ کو مصر کی سرپرستی میں دے دینا۔ امریکہ اور مغربی ممالک پہلے مقصد کے حصول کیلئے غزہ میں مقیم فلسطینی شہریوں کو ہمسایہ ممالک، خلیجی ریاستوں خاص طور پر سعودی عرب یا مغربی ممالک جیسے کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ منتقل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خلیجی عرب ریاستیں فلسطینی مہاجرین کو قبول کرنے پر بالکل راضی نہیں ہیں جبکہ بعض خلیجی ریاستوں نے مصر، اردن اور عراق جیسے دیگر ممالک میں ان کی منتقلی پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔

جب شام میں تکفیری دہشت گردی کا آغاز ہوا تھا تو خلیجی ریاستوں نے دل کھول کر تکفیری دہشت گردوں کی مالی اور فوجی امداد کی تھی لیکن بدلے میں ایک شامی مہاجر کو بھی اپنے ملک میں آنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ فلسطینی مہاجرین کو منتقل کرنے کیلئے ایک بہت ہی عجیب پیشکش بھی سامنے آئی ہے جو عراق کا کرد نشین علاقہ ہے۔ کچھ ہی دن پہلے جب عراقی کرد نشین علاقے کے سربراہ نیچروان بارزانی نے فرانس کا دورہ کیا تو فرانسیسی حکام نے اسے ایسی پیشکش کی جسے سن کر وہ دنگ رہ گئے۔ فرانسیسی حکام نے انہیں 4 ہزار فلسطینی گھرانوں کو کرد نشین علاقے میں بسانے کے بدلے وسیع پیمانے پر مالی مراعات دینے کی پیشکش کی۔ البتہ نیچروان بارزانی نے اسے مسترد کر دیا۔

نیچروان کی جانب سے فرانسیسی حکام کی اس پیشکش کو مسترد کر دینے کی وجہ ایک تو کرد نشین خطے میں سکیورٹی خدشات ہیں جبکہ اس علاقے کی آبادی کی نسلی خصوصیات بھی اہم رکاوٹ ہیں۔ مزید برآں خود عراقی حکومت اور عوام بھی اس کے مخالف ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک نے مصر اور اردن کو بھی لاکھوں فلسطینی مہاجر اپنے ملک میں بسانے کے بدلے وسیع مالی معاونت اور مراعات کی پیشکش کی ہے۔ مصر اور اردن کو درپیش شدید مالی مشکلات کے پیش نظر اس بات کا خدشہ پایا جاتا ہے کہ وہ یہ پیشکش قبول کر لیں گے۔ یہ دونوں عرب ملک مقروض ہیں اور قرضے اور اس پر سود کی رقم ادا کرنے کیلئے انہیں پیسے کی شدید ضرورت ہے۔ مصر کو اس وقت 29 ارب ڈالر درکار ہیں جبکہ اردن پر بھی 50 ارب ڈالر کا قرضہ موجود ہے۔

غزہ جنگ کے بارے میں تین اہم نکات پر توجہ دینا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ غزہ کی جنگ ابھی جاری ہے اور دوسرے مہینے میں داخل ہو چکی ہے جبکہ اکثر رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جنگ مزید طول پکڑے گی اور غاصب صیہونی رژیم اپنے اہداف کے حصول میں ناکام رہے گی۔ دوسرا نکتہ یہ کہ حماس بدستور غزہ پر اپنا کنٹرول قائم رکھے ہوئے ہے۔ میدان جنگ میں حماس کو واضح برتری حاصل ہے جبکہ صیہونی فوج شدید جانی اور مالی نقصان برداشت کر رہی ہے۔ اب تک اس کے 200 سے زیادہ ٹینک، بکتر بند اور دیگر فوجی گاڑیاں تباہ ہو چکی ہیں۔ لہذا امریکہ اور مغربی ممالک شکار سے پہلے ہی ریچھ کی کھال پر لڑ رہے ہیں۔ تیسرا اہم نکتہ یہ کہ امریکہ کی نظر میں غزہ میں مقیم فلسطینی شہریوں کی مرضی اور رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔

غزہ کے عوام ہر گز فلسطین اتھارٹی کا اقتدار قبول نہیں کریں گے۔ خاص طور پر جب فلسطین اتھارٹی کی 60 ہزار سے زائد سکیورٹی فورسز مغربی کنارے میں غاصب صیہونی رژیم کا ساتھ دینے اور یہودی آبادکاروں کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ اسی طرح غزہ پر مصر کی سرپرستی قائم کرنا یا غزہ کو بین الاقوامی فورسز کے کنڑول میں دینا بھی محض وہم و خیال ہے۔ وہ قوتیں جو غزہ کے مستقبل کیلئے روڈمیپ واضح کرنے کی کوشش کر رہی ہیں انتہائی احمق اور نادان ہیں۔ ان کے پاس پرانی معلومات ہیں اور وہ غزہ کے عوام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے بے اطلاع ہیں۔ غزہ کی آبادی کا 80 فیصد حصہ ان فلسطینیوں پر مشتمل ہے جو مقبوضہ فلسطین کے دیگر حصوں سے ہجرت کر کے یہاں آئے ہیں۔ وہ اپنے گھر واپس جانے کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچتے۔