غزہ کے بعد؛ صہیونی ریاست کا مغربی کنارے سے انتقام

غزہ کی پٹی میں نسل کشی کے بعد، اسرائیلی حکومت اب فلسطین کے مغربی کنارے کے لوگوں سے انکی زمینوں پر مزید قبضے اور جبر و تشددکے ذریعے انتقام لے رہی ہے۔

فاران: غزہ کی پٹی میں نسل کشی کے بعد، اسرائیلی حکومت اب فلسطین کے مغربی کنارے کے لوگوں سے انکی زمینوں پر مزید قبضے اور جبر و تشددکے ذریعے انتقام لے رہی ہے۔
فارس نیوز ایجنسی کے بین الاقوامی گروپ کے مطابق، غزہ کی پٹی میں خلاف جنگ کے رکنے کے ساتھ ہی، اسرائیلی فوج نے کابینہ اور سیکیورٹی ایجنسی [شاباک] کے احکامات کے تحت فلسطین کے مغربی کنارے کا رخ کیا ہے اور مختلف علاقوں میں محاصرہ سخت کر کے وہاں کے عوام کو سزا دے رہی ہے اور انتقام لے رہی ہے۔ گزشتہ 15 مہینوں (7 اکتوبر 2023 سے) میں مغربی کنارے میں تقریباً 900 افراد شہید ہو چکے ہیں، اور اب جب کہ اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی سے فارغ ہو چکی ہے، مغربی کنارے کے کئی اہم شہروں، بشمول جنین، کی طرف لشکر کشی کر رہی ہے۔
غزہ میں جنگ بندی کے پہلے مرحلے کا منصوبہ 42 دن تک جاری رہنا ہے، اور اس دوران دوسرے اور تیسرے مرحلے کے لیے مصری، قطری اور امریکی ثالثوں کے ذریعے مشاورت کی جائے گی، لیکن مغربی کنارے کی خراب صورتحال کے بارے میں کوئی بات نہیں کر رہا ہے۔ اب، اسرائیل، جو جنگ بندی کے معاہدے کے تحت مجبور ہے کہ مغربی کنارے سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کو رہا کرے، فلسطین کےمغربی کنارے میں اپنی کچلنے اور تشدد کی سیاست کو مزید سخت کرنے کے لیے تیار ہے، کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ آزاد ہونے والے قیدی مغربی کنارے میں امید اور جوش و خروش کا سبب بنیں۔
اسی لیے، اسرائیلی فوج نے چیک پوسٹوں کی تعداد اور نگرانی کو مزید سخت کر دیا ہے۔ مثلاً عطارہ چیک پوسٹ، جو شمالی اور وسطی مغربی کنارے کے درمیان ایک اہم گزرگاہ ہے، اس پر فلسطینیوں کو گھنٹوں کنٹرول اور تلاشی کے لیے قطار میں کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ یوسف العاروری، ایک فلسطینی شہری نے اناطولی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ جب کوئی سیکیورٹی خطرہ نہیں ہے تو یہ تمام گرفتاریاں اور تلاشی کیوں ؟ ، سوائے اس کے کہ اسرائیل غزہ کے بعد مغربی کنارے کے لوگوں کو ذلیل اور ان سے انتقام لے رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ پریشانیاں معمول بن چکی ہیں اور اب بڑھ گئی ہیں، کیونکہ مغربی کنارے میں آباد کاری بڑھ گئی ہے اور اسرائیل فلسطین کو مٹانے کے درپے ہے۔
فی الحال، اسرائیل جنین اور جنین کیمپ پر حملہ کر رہا ہے۔ ان قیدیوں میں سے ایک جو رہا ہونے والوں میں سے ہیں زکریا الزبیدی ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مغربی کنارے کے لیے ایک خود ایک تحریک ہیں۔ اسی سلسلے میں، اسرائیلی ٹی وی چینل 14 نے ایک نامعلوم سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ “ہم [اسرائیل] یہودا اور سامریہ [مغربی کنارے] میں ایک وسیع آپریشن کے دہانے پر ہیں۔ یہ آپریشن کئی ماہ تک جاری رہ سکتا ہے۔ انجام کار یہ کیمپ دہشت گردی کا مرکز نہیں بنیں گے۔ جو کچھ ہم نے غزہ میں کیا، وہ یہاں [مغربی کنارے] میں بھی کریں گے۔”اسی سلسلے میں، اسرائیل کاتز، جو کہ اسرائیلی حکومت کے نئے وزیر دفاع ہیں، نے کہا، “جنین پناہ گزین کیمپ میں دیوار آہنی آپریشن، یہودا اور سامریہ میں اسرائیلی فوج کے لیے سیکورٹی کے تصور کو بدل دے گا۔” اس نے ایران کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، “ہم ایرانی آکٹوپس کے بازوؤں اور سنی انتہا پسند اسلام کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ آبادکاروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں۔”
ان بیان بازیوں کے برخلاف اسرائیل اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے جتنی جدوجہد کر رہا ہے، اتنا ہی وہ عدم تحفظ کے دلدل میں دھنس رہا ہے کیونکہ اس کی تمام کوششیں خونریزی اور قتل و غارت کے ساتھ ہیں۔ فلسطینی جو روزانہ اپنی وطن اور زندگی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں، خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ جس طرح غزہ کے لوگ، 15 ماہ کی بمباری اور 50,000 سے زیادہ شہید دینے کے باوجود، اپنی زمین پر رہنے اور مزاحمت پر اصرار کر رہے ہیں، یقیناً مغربی کنارے کے لوگ بھی اسرائیلی فوجی حملوں اور آبادکاری کا مقابلہ کریں گے، اور اسرائیل کے پاس پرامن دن نہیں ہوں گے۔
کیا عوامی رائے عامہ مغربی کنارے کے لوگوں کو اپنے دفاع کا حق نہیں دیتی؟
سات اکتوبر کے بعد سے، اسرائیلی فوج اور مسلح آبادکاروں نے مغربی کنارے کے لوگوں پر حملے تیز کر دیے ہیں۔ فلسطینی حکام کے مطابق، ان 15 مہینوں میں کم از کم 870 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، 6,700 زخمی ہوئے ہیں، اور 14,300 کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان اعداد و شمار کا مطلب ہے کہ 20,000 سے زیادہ خاندان براہ راست اسرائیلی ظلم کا شکار ہوئے ہیں، اور ہزاروں فلسطینیوں کے روزانہ کے مصائب، چیک پوائنٹس پر مشکلات، بے روزگار، تعلیم کے مواقع کی بندش، اور دیگر پہلوؤں کو بھی شامل کرنا ضروری ہے۔
اسرائیل کی موجودہ اور سابقہ پالیسیوں کے نتیجے میں مغربی کنارہ ایک ٹائم بم بن رہا ہے۔ غزہ پٹی کی سالوں کی ناکہ بندی، جس کے صرف سات راستے دنیا سے رابطے کے لیے ہیں، اور ان میں سے چھ اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں، نے 7 اکتوبر 2023 کو “طوفان الاقصی” جیسا دھماکہ پیدا کیا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی کنارے کے خلاف جاری اسی پالیسی کے ساتھ، جس کو اردن کے فلسطینیوں کی حمایت حاصل ہے، اسرائیل کے خلاف ایک اور “طوفان الاقصی” کو جنم دے سکتی ہے اگر اسرائیل کی سیکیورٹی اور فوجی ادارے (شاباک اور فوج) مغربی کنارے کے لوگوں کو اذیت دینا بند نہ کریں۔