غزہ کے تمام راستے حماس پر منتہی

جنگ کے بعد غزہ کی صورتحال اب بھی غیر یقینی ہے، لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر تمام امکانات "حماس" پر ہی منتج ہوتے ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: جنگ کے بعد غزہ کی صورتحال اب بھی غیر یقینی ہے، لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر تمام امکانات “حماس” پر ہی منتج ہوتے ہیں۔
فارس پلس گروپ: غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان کے قریب، امریکی وزیر خارجہ “انتھونی بلینکن” نے کہا کہ امریکی حکام کا اندازہ ہے کہ جتنے لوگ حماس نے جنگ میں کھوئے، اتنے ہی نئے بھرتی کر لیے ہیں۔ اگرچہ بلینکن کی تقریباً آدھے گھنٹے یا اس سے زیادہ کی تقریر کے دوران یہ بیان زیادہ توجہ حاصل نہیں کر سکا، لیکن سیاسی امور کے ماہرین اور مبصرین کی نظر سے یہ پوشیدہ نہیں رہا۔ ان کا ماننا ہے کہ بلینکن کا یہ بیان تلابیب کے لیے ایک “ضمنی” اور “نرم” پیغام تھا، جس کا مطلب یہ تھا کہ اسرائیل کو حماس کو ایک “حقیقت” کے طور پر قبول کرنا ہوگا اور جنگ کے بعد غزہ میں حماس کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اب یہ یقین پیدا ہو چکا ہے کہ حتی کہ اسرائیل کے دوبارہ جنگ شروع کرنے کی صورت میں بھی غزہ پر حکومت کرنے والے حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی: یعنی کہ “حماس” فلسطینیوں کا سہارا ہے اور اسے کسی بھی صورت، چاہے جنگ ہو یا امن، غزہ سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
اسرائیل کے تحقیقی اور مطالعاتی مراکز، جو مختلف اداروں اور ایجنسیوں بشمول “موساد” کو سیکیورٹی خدمات فراہم کرتے ہیں، بلینکن کے بیانات پر تفصیلی تجزیہ اور تفسیر پیش کرتے ہیں۔ “مائیکل میلشتائن”، جو مرکز مطالعاتِ مشرق وسطی و افریقہ میں موشے دیان کے فلسطین مطالعاتی انجمن کے سربراہ ہیں، کہتے ہیں: “حماس نے اس معاہدے سے بہت سے فوائد حاصل کیے ہیں: جنگ کا خاتمہ اور اسرائیل کی غزہ سے پسپائی۔” انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کا غزہ میں جنگ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ اس کو ایک نہ ختم ہونے والی فرسایشی جنگ میں دھکیل دے گا، انہوں نے مزید کہا: “15 ماہ کی جنگ کے بعد بھی، حماس اب بھی تیار ہے کہ اسرائیل کو غزہ کے دلدل میں کھینچ لے۔”
غزہ کی پٹی پر حماس کی حکمرانی کے مستقبل کے بارے میں، شاید سیاسی میدان میں یہ تحریک غزہ پر حکومت سے دستبردار ہونے یا اس پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہو، لیکن اس کے عسکری ونگ کا مستقبل ایسا موضوع نہیں ہے جس پر کبھی بھی بحث و مذاکرہ ہو سکے۔ اس لحاظ سے، ہم غزہ کی پٹی میں حزب اللہ لبنان کی ایک تصویر کا سامنا کر رہے ہیں۔ جنگ کے آغاز سے، نیتن یاہو کی انتہاپسند دائیں بازو کی کابینہ نے جنگ کے بعد غزہ کے انتظام کے لیے مختلف منصوبے پیش کیے ہیں، مثلاً “بزلل اسموتریچ”، نیتن یاہو کے وزیر خزانہ، نے اسرائیل کی “شہری اور غیر فوجی موجودگی” کا منصوبہ پیش کیا۔ “یوآو گالانت”، نیتن یاہو کے برطرف کیے گئے وزیر جنگ، نے جنوری 2024 میں ایک منصوبہ پیش کیا جس کے تحت اسرائیلی فوج کو، جسے وہ “عملیاتی حقوق” کہتا ہے، مغربی کنارے کی طرح غزہ پر قبضہ کرنے اور وہاں اسرائیل کے وجود کو یقینی بنانے کی اجازت دی جاتی۔ گالانت نے اپنی تجویز پیش کرنے کے بعد کہا: “نہ حماس غزہ پر حکومت کرے گی، نہ اسرائیل فلسطینی شہریوں پر؛ بلکہ یہ غزہ کے لوگ ہوں گے جو فلسطینی ادارے تشکیل دے کر غزہ پر حکومت کریں گے۔” یہ وہ بیانات تھے جن پر کسی نے بھی اعتماد نہیں کیا۔ گالانت نے اپنے منصوبے میں فلسطینی اتھارٹی کو غزہ کے مستقبل کی حکومت سے باہر رکھا، حالانکہ امریکہ نے کئی بار غزہ کے مستقبل میں فلسطینی اتھارٹی کے کردار کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
غزہ میں حکومت کے مستقبل کے لیے دیگر متبادل کے طور پر فوجی حکومت یا ایسی حکومت کے قیام کا ذکر کیا گیا جس پر انسانی امداد کی تقسیم کے حوالے سے خارجی فریقین کی نگرانی ہو۔ نیتن یاہو، جو جنگ بندی سے قبل اسرائیلی فوج کی غزہ سے مکمل پسپائی کے مخالف تھے، ان تمام منصوبوں پر خاموش رہے اور غزہ میں حکومت کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کو مؤخر کر دیا۔ اسی تناظر میں، عبرانی زبان کے میڈیا نے غزہ میں حماس کی حکومت کی جگہ چند عرب ممالک کے عارضی اتحاد کی حکومت کے قیام کے خیال کا مذاق اڑایا اور ایسے منصوبے کی عمل آوری کو حماس پر مکمل فتح اور اس پر غلبے کے بعد تک موخر کر دیا۔ یہ شرط نیتن یاہو کے لیے کبھی پوری نہ ہو سکی، اور انہیں بالآخر حماس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور ہونا پڑا، اور نہ صرف اپنی شرائط سے دستبردار ہونا پڑا بلکہ حماس کی شرائط کو بھی قبول کرنا پڑا۔
دوحہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے باضابطہ اعلان کے قریب، امریکہ کے نئے صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، نے عہد کیا کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کے اتحادیوں کے ساتھ قریبی تعاون کریں گے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ غزہ دوبارہ حماس کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ نہ بنے۔ امریکی حکومت نے ابھی تک غزہ میں حکومت کے مستقبل یا نئے حکمرانوں کی سیاسی شناخت کے بارے میں اپنا موقف واضح نہیں کیا ہے، لیکن یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حماس کو حکومت سے دور رکھنے کا خیال پیش کیا جائے گا۔
ان تمام امکانات کے باوجود، اب تک جو بات غزہ میں حکومت کے مستقبل کے بارے میں کہی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ حماس سے بہتر کوئی متبادل نہیں ہے جو غزہ کو افراتفری سے بچا سکے۔
اب یہ سوال باقی ہے کہ جنگ کے بعد غزہ میں حکومت کس کی ہوگی… اور اس حکومت کی شکل اور اسکا ڈھانچہ کیسا ہوگا، لیکن اشاروں اشاروں میں سب نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حماس کے بغیر کسی بھی حکومت کا قیام، جو غزہ پر عوامی اور شہری حکومت کا تجربہ رکھتی ہے، غزہ میں انتشار کا باعث بنے گا، جس کے نتائج اور اثرات سب سے پہلے اسرائیل کو بھگتنا پڑیں گے، اور یہ وہ چیز ہے جو نیتن یاہو کے لئے کبھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔