غزہ کے خلاف جنگ شروع ہونے پر صہیونی قیدیوں کے اہل خانہ کا اعتراض
فاران: صیہونی قیدیوں کے اہل خانہ نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حکومت کے نئے حملوں پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے تاکید کی کہ ان حملوں سے حماس تباہ نہیں ہوگی، بلکہ یہ قیدی مارے جائیں گے۔
فارس نیوز ایجنسی انٹرنیشنل گروپ کے مطابق غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حکومت کے بڑے پیمانے پر حملے شروع ہونے کے بعد اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ نے ایک بار پھر اپنے خاندان کے افراد کے تحفظ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے جنہیں مزاحمتی قوتوں نے قید کر رکھا ہے۔
ان خاندانوں نے ایک بیان جاری کیا جس میں اس بات پر زور دیا گیا: ’’ہم نے بھاری قیمت ادا کی ہے اور اس جنگ کے نتیجے میں مزید یرغمالیوں کی ہلاکتیں ہوں گی۔‘‘
اسرائیلیوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ وہ صہیونی قیدیوں کی واپسی اور رہائی کے لیے مذاکرات مکمل کرنا چاہتے ہیں، کہا: ہمارے 41 مغویوں کا قتل غزہ میں فوجی مداخلت کا براہ راست نتیجہ ہے۔
اسرائیلی حکومت نے آج صبح غزہ کی پٹی کے خلاف اپنی جنگ دوبارہ شروع کی۔ طبی ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں پر حکومت کے فضائی حملوں میں 419 افراد شہید اور 528 زخمی ہوئے ہیں۔
غزہ کی پٹی کے ہسپتالوں کے ڈائریکٹر نے اعلان کیا کہ درجنوں زخمی ایسے ہیں جن تک ابھی تک رسائی نہیں ہو سکی ہے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سیاسی حکام کے حکم کے مطابق؛ فوج اور شن بیٹ فورسز نے غزہ میں حماس کے ٹھکانوں پر زبردست حملہ کیا۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے غزہ پر جنگ دوبارہ شروع ہونے کی وجہ سے اپنے مقدمے کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی ہے۔
صہیونی قیدیوں کے اہل خانہ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ حماس کو فوجی کارروائیوں سے تباہ نہیں کیا جائے گا، کہا: اس آپریشن میں ہمارے دوست اور عزیز مرنے والے ہیں۔ ہم جنگ کو فوری طور پر روکنے اور اپنے عزیزوں کی واپسی کے لیے مذاکرات کا مطالبہ کرتے ہیں۔
صہیونی خاندانوں نے تاکید کی: یرغمالیوں میں سے 59 کو اب بھی بچایا جا سکتا ہے۔ ہمیں انہیں واپس لانے کے لیے سب کچھ کرنا چاہیے، اور معاہدے تک پہنچنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
تبصرہ کریں