غیر مسلموں کے ساتھ نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا طرز سلوک
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: آج کی ایک دائرے کے اندر سکڑتی ہوئی دنیا میں جہاں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کے لوگ کسی نہ کسی وجہ سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ہم سب کے لئے بہت اہم ہے کہ ایک دوسرے سے ایسا انسانی تعلق رکھیں جس میں ایک دوسرے کے لئے فکر مندی ہو ، ایک دوسرے کے لئے دلوں میں جگہ ہو، ایسا نہ ہو کہ ایک ہی ملک میں رہنے والے محض اس لئے ایک دوسرے سے متصادم ہوں کہ دو الگ الگ مذاہب کے پیرو ہیں دو الگ الگ تصور کائنات کے ماننے والے ہیں ، اسلامی نظام حیات ہرگز یہ نہیں کہتا کہ مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت کی جائے یا کسی کی حق تلفی کی جائے، آج کے اس دور میں جہاں ہر طرف ذات نبی رحمت ص پر حملے ہو رہے ہیں ہم سب کے لئے لازم ہے اس عظیم ذات کے پیغام کو لوگوں تک پہنچایا جائے جسکا پیغام کسی ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کے لئے نہیں تھا بلکہ پوری بشریت کے لئے تھا اور ہے جس نے اپنی عملی زندگی میں صرف ان لوگوں کو فیض نہیں پہنچایا جو اسے مانتے تھے بلکہ ان سبھی کے ساتھ اچھے و خوشگوار تعلقات رکھے جنکے ساتھ یہ ذات ہم عصر تھی ۔ لیکن اسکے باوجود کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے غیر منصفانہ انداز میں اپنی رائے کا اظہار کیا تو ان کی تقلید بھی بغیر تحقیق و جستجو کے بہت سے لوگوں نے وہی راگ الاپنا شروع کر دیا جسکا کوئی تاریخی اعتبار نہیں جسکا جواب بارہا دیا جا چکا ہے مثلا انہیں میں منٹسکو ایک ہیں جو روح القوانین میں کہتے ہیں ” بشر کی ایک بدقسمتی یہ ہے کہ ہر فاتح مغلوب معاشرہ میں اپنے دین کو زبر دستی منواتا ہے ، دین اسلام بھی تلوار کے زور پر لوگوں کے سروں پر تھوپ دیا گیا ، اس لئے کہ اسلام کی بنیاد ہی زور زبردستی پر ہے اور یہی امربدقسمتی اور تشدد کا سبب بنا ہے ” [1]
البتہ اس طرح کے جھوٹے دعووں اور الزام تراشیوں میں صرف منٹسکیو اکیلے نہیں ہیں بلکہ اکثر مغربی مستشرقین کا یہی حال ہے ہم اس پیش نظر تحریر میں ہر قسم کے تعصب سے پرے قرآن کریم، روایات اور سیرت پیغمبر ص سے اخذ شدہ روشن دلایل اور شواہد کی روشنی میں یہ ثابت کریں گے کہ ” صلح آمیز زندگی اسلام کا ایک مسلمہ اصول ہے اور اسلام نے دیگر ادیان و مذاہب کے پیرو کاروں کے ساتھ نہایت اچھے اخلاق اور محبت کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا ہے اور خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روادارنہ طرز حیات اور نرم و لچک دار رویہ ہی کی بنیاد پر ہر ایک کے دل میں گھر کرنے میں کامیاب رہے اور یہ وہ بات ہے جسے خود دیگر انصاف پسند مورخین و دانشوروں نے ببانگ دہل بیان کیا ہے ۔ اسی لئے آج جب دنیا بھر میں اسلام کے خلاف مسلمانوں کے خلاف قرآن کے خلاف نبی رحمت ص کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے اور اسلامی پیغامات کی تضحیک کی جا رہی ہے رسول رحمت ص کو ایک ایسے نبی ص کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جس کی سوچ اپنی ذات اپنے قبیلہ تک محدود تھی تو ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ ہم نبی کی آفاقیت کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور یہ بتا سکیں کہ اسلام کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کا نبی رحمت سے کوئی تعلق نہیں ہے ،بلکہ ہمارے نبی نے تو ہمیں دنیا کے ساتھ رواداری و حسن سلوک اور دوسروں کے حقوق کے احترام کا سبق دیا ہے ۔ پیش نظر تحریر میں ہم اسی بات کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے کہ حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا غیر مسلموں کے ساتھ کیا طرز سلوک تھا ۔
رسول رحمت کی شان قرآنی
ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو من مانے انداز میں رسول کو اس طرح پیش کر رہے ہیں اور ایک طرف وہ قرآن ہے جو پیغمبر پر نازل ہوا تو کیا یہ بات صحیح ہے کہ ہم کسی دین کی مذہبی کتاب کو چھوڑ کر دوسروں کی باتوں کو قابل اعتنا سمجھیں ؟ یقینا یہ حماقت ہوگی کہ دوسروں کی باتوں پر توجہ کی جائے اور اس ذات پر نازل ہونے والی کتاب کو نظر انداز کر دیا جائے جس میں صاحب کتاب کے خصوصیات کو بیان کیا گیا ہے، بڑی عجیب بات ہوگی کہ ہم دوسروں کی نظر سے نبی رحمت کو دیکھیں اور حضور ص کی حیات و سیرت کیا تھی اس پر کوئی غور کرنے کو تیار نہ ہو.
جہاں تک ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قرآن نے رسول رحمت کے طور پر پیش کیا ہے وہ بھی ایسا رسول جس کی رحمت مسلمانوں اور غیر مسلموں سبھی کو شامل ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے ” ہم نے آپ کو دونوں جہاں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے [2] ”
گویا کہ آپ شدت غم و اندوہ سے اس لئے جان دے دیں گے کہ لوگ ایمان نہیں لا رہے ہیں [3]
خود آپ فرماتے ہیں مجھے رحمت پر بھیجا گیا ہے [4]
بقاء باہمی کے نظریے کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے ایک صلح آمیز زندگی جینا یہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ان بنیادی تعلیمات کے اصولوں میں ہے جنکے بغیر کوئی بھی شخص اپنے لئے پیرو رسول ہونے کا دعوی نہیں کر سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اپنے رسول کو جب پیش کیا ہے تو ایک نرم دل انسان کے طور پر پیش کیا ہے جو اپنے سماج کی اصلاح کرنا چاہتا ہے [5]۔
کون اس دن کو بھلا سکتا ہے جب وہ لوگ جن کے نس نس میں درندگی بھری تھی انہوں نے کہا [6]کہ آج تو انتقام کا دن ہے اس وقت پیغمبر نے کہا آج رحمت کا دن ہے [7] اور جب مشرکین کے پاس آپ پہنچتے ہیں تو سب کو آزاد کردینے کا حکم دیتے ہیں [8]
پیغمبر کا طرز کیا تھا یہ دیکھنا ہے تو اس وقت کو دیکھیں جب دنیا بھر سے وفود آ رہے ہیں اور دین کے بارے میں دیکھ بھال کر رہے ہیں جانچ پڑتال کر رہے ہیں بعض سے اپنے اختیار سے مسلمان ہو جاتے ہیں تو حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کا استقبال کرتے ہیں بعض اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں لیکن پیغمبر ص ان سے زور زبردستی نہیں کرتے اگر اقتدار کی چاہ ہوتی تو لوگوں کو مجبور کرتے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ توحید کی اہمیت کے باوجود ان لوگوں سے ہمیشہ متواضعانہ انداز میں گفتگو کی جو کھردرے و سخت لہجے میں صرف اپنی بات کہنے کے لئے آتے تھے حتی مدینہ میں آپ نے باقاعدہ ان لوگوں کے لئے گھر کا اہتمام کیا تھا جو آپ سے ملاقات کے لئے آتے تھے بعض باہر سے آنے والے لوگ اصحاب کے گھروں میں ٹہرتے اور بعض کو حضور اپنے یہاں ٹہراتے بعض کو خاص مہمان خانوں میں تاریخ شاہد ہے جب عیسائی آپ سے ملاقات کرنے آئے تو آُپ نے اپنی عبا بچھا کر ان کا استقبال کیا آپ نے رومی سلطنت کے بادشاہ کو خط لکھا تو ہرگز اپنی بات منوانے پر زورنہیں دیا بلکہ یہی درخواست کی کہ وہ خود فیصلہ کرے حق کیا ہے ۔
آپ سب کو اپنے فرزندوں کی طرح چاہتے تھے بس یہی نہیں چاہتے تھے کہ لوگ باطل پر رہیں اور ان کی نجات نہ ہو سکے۔
قیصر وکسری کو لکھے خطوط میں بھی آپ نے یہی انداز اختیار کیا ۔ جب نصارائے نجران آئے تو بھی آپ نے یہ نہیں کہا کہ تم غلط تمہاری عبادت غلط ، بلکہ انہیں اپنی عبادت کرنے کا موقع بھی دیا[9] ایسا نہیں ہے یہ طرز کوئی ایک دو بار یا کسی چند ایک وفود کے ساتھ حضور ص نے یہ رویہ اختیار کیا ہو بلکہ چالیس کے قریب ایسے وفود ہیں جنکا حضور نے بڑھ چڑھ کر استقبال کیا ہے [10] جبکہ انکے نظریات الگ تھے انکے افکار ا لگ تھے ۔
[1] ۔ منٹنسکیو، روح القوانین ، ترجمہ ، علی اکبر، مہتدی ، امیر کبیر، تہران ، ١٣٦٢،٦٧١)
[2] ۔: وَ ما أَرْسَلْناک إِلاّ رَحْمَهً لِلْعالَمِینَ
[3] ۔ لَعَلَّک باخِعٌ نَفْسَک أَلاّ یکونُوا مُؤْمِنِینَ
[4] ۔ إِنَّما بُعِثْتُ رَحمه ، دلشاد تهرانی، مصطفی، سیره نبوی ج 3، ص 75؛ از: الوفاء بأحوال المصطفی، ج 2، صص 421 و 439
[5] ۔ فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ
[6] ۔ الیَوم یَوم الْمَلْحَمَة، الیَوم تَستحلّ الْحرمة
[7] ۔ الیَوم یَوم المَرحمة»؛
[8] ۔ إذهَبُوا فأنتم الطلقاء، ابی جعفر محمدبن الجریر الطبری، تاریخ الطبری، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، بیروت: روائع التراث العربی، بیتا، ج 3، ص 56
ص: 72
[9] ۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مارسل بوازار، انسان دوستی در اسلام، ترجمه دکتر محمد حسن مهدوی اردبیلی و دکتر غلامحسین یوسفی، تهران: طوس، 1362، ص 179
[10] ۔ محمد ابو زهره، خاتم پیامبران، ترجمه حسین صابری، مشهد: آستان قدس رضوی، 1375، چاپ دوم، ج 3، صص 453- 542
۔۔۔۔۔۔۔۔جاری۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں