فلسطینیوں کی نسل کشی کے اثرات اور غزہ کی پٹی کی آبادیاتی ساخت کی تبدیلی 

صہیونی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی، خاص طور پر نوجوان نسل کو نشانہ بنانے کے باعث، غزہ کی پٹی میں آبادی کی ساخت میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں، جو آنے والے برسوں تک جاری رہیں گی۔

فاران: صہیونی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی، خاص طور پر نوجوان نسل کو نشانہ بنانے کے باعث، غزہ کی پٹی میں آبادی کی ساخت میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں، جو آنے والے برسوں تک جاری رہیں گی۔
فارس پلس گروپ: صہیونی ریاست کی جانب سے 17 ماہ کے دوران غزہ کی پٹی میں جاری جنگ اور قتل عام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ مظالم درحقیقت فلسطینیوں کی آبادیاتی ساخت اور ترکیب کو تبدیل کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ فلسطینی حکام اور تجزیہ کاروں کے مطابق، اسرائیلی فضائی حملے، شدید بمباری اور اندھا دھند گولہ باری کے نتیجے میں دسیوں ہزار نہتے شہری شہید ہو چکے ہیں، لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں، اور غزہ میں فلسطینیوں کی آبادی کی ساخت میں خوفناک اور بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، خاص طور پر کئی خاندانوں کے مکمل طور پر قتل عام کے بعد۔
اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ نے غزہ میں آبادی کی ترکیب کو کیسے متاثر کیا؟
اعداد و شمار کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل کی جنگ شروع ہونے سے قبل، غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی آبادی تقریباً 2.2 ملین تھی، جو 365 مربع کلومیٹر کے علاقے میں مقیم تھی۔ یہ آبادی مجموعی طور پر فلسطین میں رہنے والے تقریباً 5.3 ملین فلسطینیوں کا 40 فیصد تھی۔
غزہ کی پٹی میں رہنے والے 67 فیصد سے زائد فلسطینی دراصل مہاجرین ہیں، جو 1948 کی جنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی “تباہی کے دوران( جسے نکبت کہا جاتا ہے) اپنے گاؤں اور شہروں سے بے گھر ہو کر یہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
2023 کے وسط میں شائع شدہ اعداد و شمار کے مطابق، شمالی غزہ کے دو صوبوں، “جبالیا” اور “غزہ”، میں تقریباً 1.2 ملین فلسطینی آباد تھے، جبکہ “خان یونس”، “دیر البلح”، اور “رفح” کے صوبوں میں تقریباً ایک ملین فلسطینی رہائش پذیر تھے۔
جنگ کے بعد غزہ کی پٹی میں آبادی کی تقسیم
جنگ کے بعد کی آبادیاتی تقسیم سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی معاشرے کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ تقریباً 47 فیصد آبادی 17 سال سے کم عمر کے افراد پر مشتمل ہے (یونیسف کی تعریف کے مطابق بچے)، جبکہ 70 فیصد کی عمر 30 سال سے کم ہے۔ 65 سال یا اس سے زائد عمر کے بزرگ صرف 3 فیصد آبادی کا حصہ ہیں۔ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی اوسط عمر تقریباً 19.5 سال ہے، یعنی آدھی آبادی اس سے کم عمر کی ہے اور آدھی اس سے زیادہ عمر کی۔
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل کی جانب سے امریکہ کی مکمل حمایت سے شروع کی گئی نسل کشی کے بعد سے اب تک 50 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ یہ اعداد و شمار صرف ان لاشوں پر مبنی ہیں جو اسپتالوں تک پہنچائی جا سکی ہیں اور ریکارڈ میں شامل کی گئی ہیں، اس لیے حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، صیہونی حکومت نے فلسطینی خاندانوں کے خلاف 11,850 قتل عام اور اجتماعی قتل کی وارداتیں کی ہیں، جس کے نتیجے میں 2,165 خاندان مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں اور 5,064 خاندانوں کے 9,272 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
ماہرین اور حکام کو شدید تشویش ہے کہ اسرائیلی جنگ کے باعث پیدا ہونے والی آبادیاتی تبدیلیاں غزہ کی پٹی پر گہرے اثرات مرتب کریں گی۔ ان میں سب سے خطرناک اثر آبادیاتی توازن کی تباہی ہے، کیونکہ ہزاروں خاندانوں کو نشانہ بنا کر مکمل طور پر مٹا دیا گیا ہے۔
بیوہ خواتین اور یتیم بچوں کی تعداد میں اضافے کے باعث غزہ کی پٹی میں شدید سماجی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ فلسطینی خاندان اپنے کفیل کھو دینے کے بعد شدید سماجی اور معاشی مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ بحران وقت کے ساتھ مزید شدت اختیار کرے گا اور کئی سالوں تک فلسطینی خاندانوں کے لیے مشکلات کا باعث بنا رہے گا۔
اسرائیلی جنگ کے باعث غزہ میں آبادیاتی بحران
فلسطینی حکومت کے اطلاعاتی دفتر کے ڈائریکٹر اسماعیل ثوابته کے مطابق، اسرائیل کی جنگ کے آغاز سے اب تک دو ملین فلسطینی غزہ کی پٹی کے اندر ہی بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس بحران کا سب سے زیادہ اثر بچوں، خواتین اور بزرگوں پر پڑا ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 17,954 بچے اور 12,365 خواتین شہید ہو چکی ہیں۔ مزید برآں، 39,384 فلسطینی بچوں نے اپنے والدین میں سے کسی ایک یا دونوں کو کھو دیا ہے، جبکہ 14,323 فلسطینی خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔
اجتماعی قتل عام کے ساتھ ساتھ، 165,000 سے زائد رہائشی یونٹس مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو گئے ہیں۔ اس بڑے پیمانے پر بے گھر ہونے کی لہر نہ صرف آبادی کے استحکام کے رجحانات کو تبدیل کر رہی ہے بلکہ غربت اور بے روزگاری کی شرح میں بھی اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ ابتدائی تخمینوں کے مطابق، اس جنگ سے فلسطینیوں کو 41 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے، جس سے شدید معاشی دباؤ پیدا ہو گیا ہے۔
یہ صورتحال ایسے وقت میں ہے جب غزہ کی پٹی کا محاصرہ اپنے 18ویں سال میں داخل ہو چکا ہے۔ 2.4 ملین کی مجموعی آبادی میں سے تقریباً 1.5 ملین فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں، کیونکہ جنگ نے ان کے گھروں کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کر دیا ہے۔
ان حالات میں، اسرائیلی حکومت نے تمام امدادی اور انسانی ہمدردی کی راہداریوں کو بند کرکے غزہ میں مرحلہ وار بھوک پھیلانے کی پالیسی کو بھی نافذ کر دیا ہے، جس نے انسانی بحران کو مزید سنگین کر دیا ہے۔

غزہ کی آبادیاتی ساخت میں تبدیلی کے اثرات

فلسطینیوں کی نسل کشی نے غزہ کے آبادیاتی منظرنامے کو مکمل طور پر بدل دیا ہے۔ آج کا غزہ، جنگ سے پہلے کے غزہ سے بالکل مختلف ہے۔
غزہ میونسپلٹی کے ترجمان، حسنی مہنا کے مطابق، اس جنگ نے بعض علاقوں میں آبادی کی کثافت کو دوگنا کر دیا ہے، جبکہ کچھ علاقے مکمل طور پر غیر آباد ہو چکے ہیں۔ یہ عدم توازن طویل مدتی سماجی اور معاشی بحران کا باعث بنے گا، جس کے اثرات کئی نسلوں تک محسوس کیے جائیں گے۔

غزہ میں جنگ کے نتیجے میں ماحولیاتی اور صحت عامہ کا بحران
حسنی مہنا نے مزید کہا: “جنگ کے دوران غزہ کی پٹی میں بےگھر ہونے والے افراد کی تعداد میں غیرمعمولی اضافے نے بنیادی خدمات، خاص طور پر پانی اور نکاسیٔ آب کے نظام پر شدید دباؤ ڈال دیا ہے، جس کے نتیجے میں 360,000 ٹن کچرا سڑکوں اور گلیوں میں جمع ہو چکا ہے۔”
غزہ میونسپل کارپوریشن یا بلدیہ کے ترجمان نے خبردار کیا کہ اس قدر بڑی مقدار میں کچرے کا جمع ہونا نہ صرف ماحولیاتی تباہی ہے، بلکہ فلسطینی عوام کی صحت کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے، کیونکہ یہ مختلف بیماریوں اور وباؤں کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتا ہے۔
اس کے علاوہ، سڑکوں، پانی، نکاسیٔ آب، بجلی اور مواصلاتی نیٹ ورکس کی وسیع پیمانے پر تباہی اور صحت و ماحولیاتی نظام کے مکمل انہدام نے پورے غزہ، خاص طور پر مہاجر کیمپوں اور پناہ گزین مراکز میں، شدید صحت عامہ کے بحران، بیماریوں کے پھیلاؤ اور قدرتی آفات کو جنم دیا ہے۔
یہ تباہی نہ صرف 80 فیصد سے زائد عمارتوں، بنیادی خدمات کی سہولیات اور بنیادی ڈھانچے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے بلکہ فلسطینیوں کی روزمرہ زندگی کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ فلسطینی عوام اب زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہو چکے ہیں، تاکہ انہیں غزہ چھوڑنے پر مجبور کیا جا سکے۔

آبادیاتی تبدیلی اور فلسطینی شناخت کی تباہی

غزہ میونسپل کارہوریشن کے ترجمان نے زور دیتے ہوئے کہا: “یہ آبادیاتی تبدیلی صرف ایک عددی تبدیلی نہیں، بلکہ فلسطینی معاشرے کی شناخت کی تبدیلی اور اس کے سماجی ڈھانچے کی تباہی ہے۔”
فلسطین اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، توقع ہے کہ غزہ میں آبادی کی تقسیم، عمر اور جنس کی بنیاد پر، براہ راست اسرائیلی فوج کے مخصوص عمر کے گروپوں، خاص طور پر نوجوانوں اور بچوں کو نشانہ بنانے کے نتیجے میں متاثر ہوگی۔ اس کا نتیجہ غزہ کے آبادیاتی ہرم میں بنیادی سطح پر نمایاں تبدیلی کی صورت میں نکلے گا، جس سے غزہ کی آبادی کا وہ متوازن اور یکساں ڈھانچہ جو جنگ سے پہلے موجود تھا، مکمل طور پر بکھر جائے گا۔
اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں فلسطینی آبادیاتی ڈھانچے پر اثرات

اگر اسرائیلی بمباری کو عمر کے لحاظ سے غیر مخصوص تصور کیا جائے، تو بھی خاندانوں کو نشانہ بنانے اور ہزاروں فلسطینی خاندانوں کے مکمل خاتمے سے ہر عمر کے گروہ میں تقریباً 2.7 فیصد کی آبادیاتی تبدیلی واقع ہوگی۔
30 سال سے کم عمر کے نوجوانوں کو اسرائیلی حملوں سے سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے، کیونکہ یہ گروہ غزہ کی پٹی کی کل آبادی کا تقریباً 70 فیصد پر مشتمل ہے۔
یہ بھی متوقع ہے کہ اسرائیلی حملے، درمیانی اور طویل مدتی اثرات مرتب کریں گے، جو فلسطینیوں کی عمری تقسیم کو متاثر کریں گے۔ خاص طور پر، شرح پیدائش میں نمایاں کمی ہو سکتی ہے، کیونکہ آبادیاتی ہرم کا بنیادی حصہ، جو نوجوان نسل پر مشتمل ہے، سب سے زیادہ نشانہ بنا ہے۔

فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کی اسرائیلی حکمت عملی

مصطفیٰ ابراہیم، جو ایک مصنف اور سیاسی تجزیہ کار ہیں، کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جنگ کا اصل مقصد غزہ میں طویل مدتی آبادیاتی تبدیلیاں لا کر فلسطینیوں کو آوارہ کرنا اور بالآخر انہیں غزہ کی پٹی سے نکالنا ہے۔
ان کے مطابق، اسرائیل فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کر کے اور ان کی آبادی کو کم کر کے غزہ کی پٹی میں بنیادی تبدیلیاں لانا چاہتا ہے، حالانکہ یہ اقدام بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور بین الاقوامی معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

عرب لیگ کا فلسطین کے حوالے سے خصوصی اجلاس

4 مارچ 2025 کو عرب لیگ کے غیر معمولی اجلاس میں فلسطین کے بارے میں ایک منصوبہ منظور کیا گیا، جس کا مقصد فلسطینیوں کو بے دخل کیے بغیر غزہ کی پٹی کی تعمیر نو کرنا تھا۔
یہ منصوبہ پانچ سال میں مکمل ہونا تھا اور اس پر تقریباً 53 ارب ڈالر لاگت آتی۔ تاہم، اس کی کامیابی کا انحصار بین الاقوامی سیاسی حالات اور اسرائیلی پالیسیوں پر ہوگا
اسرائیل اور امریکہ کا عرب لیگ کے منصوبے کو مسترد کرنا

اسرائیلی حکومت اور امریکہ نے عرب لیگ کے اس منصوبے کو مسترد کر دیا، جس کے تحت فلسطینیوں کو بے دخل کیے بغیر غزہ کی تعمیر نو کا منصوبہ پیش کیا گیا تھا۔ اس کے برعکس، انہوں نے وہ منصوبہ تجویز کیا جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیش کیا تھا، جس کا مقصد فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کر کے مصر، اردن یا ممکنہ طور پر افریقی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور کرنا تھا۔
یہ تجویز عرب ممالک اور علاقائی و بین الاقوامی تنظیموں کی شدید مخالفت کا سامنا کر چکی ہے۔

فلسطینیوں کی جبری ہجرت کے اسرائیلی عزائم

مصطفیٰ ابراہیم کے مطابق، اسرائیل کا مقصد جنگ کے ذریعے فلسطینیوں کو زبردستی ہجرت پر مجبور کرنا، ان کی تعداد کم کرنا اور نوار غزہ کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ یہ محض ایک عارضی نقل مکانی نہیں، بلکہ غزہ پٹی کی آبادیاتی تبدیلی کے ذریعے اسرائیل کے مخصوص سیاسی اہداف کو پورا کرنے کی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔

اسرائیل کی آبادیاتی تشویش اور فلسطینیوں کی تعداد میں اضافہ

اسرائیل فلسطینیوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی سے شدید پریشان ہے، کیونکہ اس وقت اسرائیلی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فلسطینیوں کی تعداد 7 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔
فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی آبادیاتی ساخت ہمیشہ اسرائیل کے لیے ایک بڑا چیلنج رہی ہے، اور اسرائیل طویل عرصے سے فلسطینی آبادی کو کنٹرول کرنے اور پھر اس میں کمی لانے کے لیے مختلف اقدامات کرتا آیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسرائیل 1948 جیسے پرانے منصوبوں کو دوبارہ لاگو کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کو بے دخل کر کے ان کی زمینوں پر قبضہ کیا جا سکے۔
اسرائیلی کابینہ کا فلسطینیوں کی بے دخلی کے لیے حکومتی ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ
غزہ میں جنگ کے عروج کے دوران، اسرائیلی سیکیورٹی کابینہ نے ٹرمپ کے منصوبے کی بنیاد پر ایک حکومتی ادارے کے قیام کی منظوری دے دی ہے، جس کا مقصد فلسطینیوں کو نوار غزہ سے زبردستی بے دخل کرنا ہے۔
یہ فیصلہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی جبری ہجرت کو ایک سرکاری پالیسی کے طور پر نافذ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
۔غزہ چھوڑنے والے فلسطینیوں کی اصل تعداد
اگرچہ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ 250,000 سے زائد فلسطینیوں نے جنگ کے دوران غزہ چھوڑا، لیکن غزہ میں فلسطینی سیکیورٹی ذرائع اس کی تردید کرتے ہیں۔
ان کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 سے اب تک تقریباً 90,000 سے 100,000 فلسطینی مختلف وجوہات، بشمول بیماری اور شدید زخمی ہونے کے باعث رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ سے باہر گئے، جن میں سے زیادہ تر مصر روانہ ہوئے اور اب واپسی کے خواہاں ہیں۔

آبادیاتی تبدیلی کی اسرائیلی پالیسی

فلسطینی حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نقل مکانی کو عارضی قرار دینا محض ایک فریب ہے، کیونکہ یہ دراصل ایک منظم منصوبہ ہے جس کا مقصد غزہ کی آبادیاتی ساخت کو مستقل طور پر تبدیل کرنا ہے۔
غزہ کی بلدیہ کے مطابق، اسرائیل فلسطینیوں کو غزہ چھوڑنے پر مجبور کرنے کے لیے ان کی روزمرہ زندگی کو ناقابل برداشت بنا رہا ہے۔
یہ پالیسی درج ذیل طریقوں سے نافذ کی جا رہی ہے:

زندگی کی بنیادی سہولیات کا خاتمہ

شہری انفراسٹرکچر کی تباہی

مسلسل بمباری اور خوف و ہراس پھیلانا

اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کو “رضاکارانہ” یا جبری ہجرت پر مجبور کر رہی ہے تاکہ وہ اپنے لیے کوئی اور ٹھکانہ تلاش کریں۔

زندگی کو ناقابل برداشت بنانے کی پالیسی

اسماعیل الثوابتے، جو غزہ میں فلسطینی حکومت کے ایک سینئر عہدیدار ہیں، کہتے ہیں:

“اسرائیل نے اسپتالوں اور پانی و نکاسی آب کے نظام کو تباہ کر کے غزہ میں وبائی امراض اور پانی کی آلودگی کو بڑھا دیا ہے۔ یہ نہ صرف فلسطینیوں کے لیے زندگی دشوار بنا رہا ہے بلکہ ان کے مستقبل کو بھی شدید خطرے میں ڈال رہا ہے۔”

فلسطینی حکام تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی بحالی، بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون اور پناہ گاہوں کے قیام کے لیے کام کر رہے ہیں۔ تاہم، الثوابتے نے اعتراف کیا کہ

“یہ تمام کوششیں غزہ میں جاری تباہ کن صورتحال کو مکمل طور پر حل کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ لیکن یہ وہی تھوڑی سی کوششیں ہیں جو ہم کر سکتے ہیں تاکہ جو بچایا جا سکتا ہے، اسے بچایا جا سکے۔”

اسرائیلی انتہا پسند نظریہ اور جبری ہجرت

ایاد القرا، جو کہ ایک فلسطینی سیاسی تجزیہ کار ہیں، کا کہنا ہے کہ

“اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کا نظریہ فلسطینیوں کی جبری ہجرت پر مبنی ہے، اور موجودہ پالیسیوں کا مقصد اسی نظریے کو عملی جامہ پہنانا ہے۔”

انہوں نے مزید وضاحت کی کہ

“اسرائیل غزہ کی مزاحمت کو ایک اسٹریٹجک خطرہ سمجھتا ہے، خاص طور پر 7 اکتوبر کے حملے کے بعد۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کی نقل مکانی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے تاکہ غزہ میں فلسطینی مزاحمت کو کمزور کیا جا سکے۔”