فلسطینی قوم کے ساتھ ایک خیانت اور
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
اس سے پہلے شام پر یلغار کرنے والے دہشت گرد شام کا تیل چرا کر ترکی کو فی بیرل 10 ڈالر بیچتے تھے اور جناب اردوگان اسی چوری کے تیل کو یورپیوں کے ہاتھوں بیچتے رہے اور اب قابض یہودی ریاست بحیرہ روم میں فلسطینیوں کے گیس کے ذخائر سے گیس نکال کر پائپ لائن کے ذریعے یورپ پہنچانے کے درپے ہیں جس کے لئے غاصب ریاست نے ترکی کو مناسب سمجھا ہے اور ہرزوگ کے دورہ ترکی میں زیر بحث آنے والے مسائل میں سے ایک یہی منصوبہ تھا۔ صہیونی ریاست برسوں سے اس منصوبے پر کام کررہی تھی اور اب جبکہ یوکرین کے واقعے کے بعد یورپ روس سے درآمدہ اپنی ضرورت کی 40 فیصد گیس سے اپنی وابستگی کم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تو اس منصوبے پر ایک بار پھر کام شروع ہؤا ہے۔ [پھر چوری کا مال جو اسرائیلی ریاست فلسطینیوں سے چرا رہی ہے اور اردوگان اس کی فروخت کا وسیلہ ہونگے]۔
اردوگان یورپ کی ضروریات پوری کرنے میں کردار ادا کرکے یورپ اور امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہیں گے اور ساتھ ہی ترکی کو خود بھی گیس کی ضرورت ہے کیونکہ وہ اس سے پہلے اپنی توقعات کردوں کے ہاتھوں چوری ہونے والی عراق کی گیس سے توقع باندھے ہوئے تھے جس کی درآمد عراق کی وفاقی عدالت کے فیصلے کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکی۔ عدالت نے کردستان کی مقامی حکومت کی طرف سے تیل اور گیس کی برآمدات کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
امریکہ اور یورپ آج روسی گیس کے لئے متبادل تلاش کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں قطر ہی نہیں بلکہ وینزویلا جیسے ممالک سے بھی مذاکرات کر چکے ہیں جن پر مغرب نے پابندیاں لگا رکھی تھیں۔ تاہم دوسری طرف سے بالکل واضح ہے کہ روس کی طرف سے تیل اور گیس کی فروخت پر پابندی لگنے کے امکان کی وجہ سے ایندھن کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے؛ چنانچہ مغربی ممالک دوسرے ممالک کے ساتھ گیس کے معاملے میں بات چیت کی افواہیں اڑا کر درحقیقت ایندھن کی قیمتوں میں اضافے اور اندرون ملک عوامی دباؤ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیونکہ فلسطینی ساحلوں سے نکلنے والی گیس یا حتی کہ وینزوویلا اور قطر سے برآمد ہونے والی گیس روسی گیس کا متبادل نہیں بن سکتی اور پھر اس طرح کے کسی بھی منصوبے کے لئے بہت زیادہ وقت درکار ہے۔ ہاں مگر ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ ترکی اپنی ضرورت کی گیس ایران سے درآمد کرتا ہے اور یہودی ریاست ایران کے ساتھ اپنی دیرینہ دشمنی کی بنا پر ترکی کو گیس فراہم کرکے ایران سے آنے والی گیس کی درآمد کا خاتمہ کروانا چاہتی ہے اور ساتھ ساتھ ایران اور ترکی کی پرامن سرحدوں کو بدامنی سے دوچار کرنا چاہتی ہے جس کے لئے وہ ترکی کے ساتھ گہرے روابط قائم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔
غاصب اسرائیلی ریاست عراق کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے بھی ترکی سے فائدہ اٹھانا چاہے گی۔ عراق کے ساتھ تعلقات کے لئے ماحول کی فراہمی کے لئے اس سے پہلے کئی خفیہ بیٹھکیں بھی ہوئی ہیں اور عراق میں سرگرم عمل متعدد امریکی کمپنیوں میں اسرائیلی کارکنوں کو بھرتی کیا گیا ہے، بعض عراقی اہلکاروں کے ساتھ اسرائیلیوں کی ملاقاتوں کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ علاوہ ازیں شمالی عراق کے صوبے کردستان کے دارالحکومت اربیل میں امریکی اور اسرائیلی اڈے بھی قائم ہوئے ہیں، خلیج فارس کی عرب ریاستوں میں بھی صہیونی اپنا رسوخ بڑھا رہے ہیں؛ ادھر ایران کی نئی حکومت نے بھی پڑوسی ممالک کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر تعاون کا اعلان کیا ہے چنانجہ غاصب اسرائیلی ریاست ایران کو علاقے میں تنہا کرنے کی ناکام کوششیں کر رہی ہيں۔
البتہ ابتدائی طور پر اربیل میں صہیونی اڈوں پر ایران کے بیلسٹک میزائلوں کے حملوں نے صہیونی منصوبوں پر کاری ضرب لگائی ہے اور یوکرین میں روس کی خصوصی کاروائی کے بعد اسرائیل اور مغرب کی طرف رجحان میں کافی کمی آئی ہے؛ کیونکہ عالمی صورت حال تیزی سے بدلنے لگی ہے اور مغرب کی بالادستی کو روس نے چیلنج کیا ہے اور اس صورت حال میں صرف سادہ لوح حکمران اسرائیل کے دامن میں پناہ لینے کے لئے کوشش کرسکتے ہیں اور اس کے ساتھ تعلقات کو اپنی نجات کا وسیلہ سمجھ سکتے ہیں۔
اردوگان یہودی ریاست کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سفارتی تعلقات استوار کرکے اپنی اقتصادی بدحالی کی بہتری کی امید رکھے ہوئے ہیں لیکن وہ شاید نہیں جانتے کہ وہ اندرونی سطح پر بھی اور علاقائی سطح پر بھی ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار ہورہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اندرونی سیاسی اور معاشی مسائل اور اپنے گرد و نواح کے ممالک کے ساتھ جنگی صورت حال سے دوچار اور حماس اور حزب اللہ سے شکست کھانے والی غاصب اسرائیل کے ساتھ تعلقات سے کسی ملک کو بھی کوئی خاص فائدہ نہيں ملتا سوا اس کے، کہ اس تعلق سے امریکہ اور یورپ کی ہمدردیاں حاصل کرنا مقصود ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں مغرب کے ساتھ معاشی اور سیاسی روابط قائم کرنا ممکن ہوجاتا ہے اور سلامتی کے حوالے سے بھی تعاون کا راستہ کھل جاتا ہے! لیکن امریکہ اور یورپ بھی فی الحال بحرانوں سے دوچار ہیں اور وہ بھی ترکی کی مدد کو نہیں آسکتے کیونکہ وہ نیٹو کے سانچے میں ترکی سے روس کے خلاف اقدامات کے حوالے سے کچھ توقعات رکھتے ہیں جنہیں ترکی برآوردہ نہیں کرسکتا اور اگر اس ہنگامی صورت حال میں جناب اردوگان مغرب کی مدد نہ کریں تو اسرائیل کی خوشامد بھی کچھ کام نہ آئے گی۔
انقرا یوکرین کی جنگ میں ثالثانہ کردار ادار کرنے کا خواہاں ہے لیکن عملی طور پر غیرجانبدار نہیں ہے، وہ یوکرین کو ہتھیار فراہم کرتا ہے، غاصب اسرائیل سے گیس یورپ تک پہنچا کر روس کو بائی پاس کرنا چاہتا ہے، چنانچہ جناب اردوگان روس کے ہاں قابل اعتماد ثالث بننے کی صلاحیت بھی کھو چکے ہیں اور یورپ کو بھی فوری طور پر کوئی ریلیف پہنچانے سے عاجز ہیں، چنانچہ اسرائیلی گیس منصوبے کا مستقبل بھی چنداں روشن نہیں ہے۔
صہیونی ریاست کا ثقافتی وار
صدر اردوگان نے ہرزوگ کو ترکی بلا کر اسلامی دنیا کے ایک اہم رکن ملک میں بیٹھ کر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی صہیونی کوششوں کو جاری رکھا اور دروغ گوئی اور جعلی پن کی یہودی خصلت کو بروئے کار لاتے ہوئے کہا: “دو ملکوں کے عوام ابراہیم (ع) کے فرزند ہیں اور ابراہیم (ع) اللہ کے مؤمنوں کے باپ ہیں اور ہمیں مشترکہ مستقبل کے لئے تمام تر اختلافات کا خاتمہ کرنے کے لئے کوشاں رہنا چاہئے”۔ یہ وہ الفاظ مکارانہ الفاظ ہیں جو “معاہدہ ابراہیم” کے ضمن میں بھی آئے ہیں جس کی رو سے تعلقات کی بحالی کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ اور 70 سال سے عربوں اور مسلمانوں کا خون بہانے والی صہیونی ریاست آج اپنے ستر سالہ جرائم چھپانے کے لئے امن اور پرامن بقائے باہمی کے نعرے لگا کر اقوام عالم کی سوچ اپنے ساتھ ملانے کے لئے کوشاں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رپورٹ: فائزہ سادات یوسفی:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ یہ تو اخوان کا حال ہے ادھر سیکولر عربوں کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی وہابی حکومت بھی اور خلیج فارس کی چھوٹی ریاستوں کے حکمران بھی اردوگان ہی کی کشتی میں سوار تل ابیب کے آگے کرنش کررہے ہیں؛ جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اخوانی، وہابی اور سیکولر نسخے عزت و آبرو پر مبنی حکمرانی میں ناکام ہوچکے ہیں اور عزت و عظمت کا واحد کامیاب نسخہ مقاومت (=مزاحمت) ہے۔
تبصرہ کریں