فلسطینی قیدیوں کی صہیونی جیلوں کے جہنم سے آپ بیتی

صیہونی رژیم کی قید سے رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں نے جیل میں تشدد، جنسی زیادتی، کھانے پینے اور علاج سے محرومی کی تلخ داستانیں بیان کی ہیں۔

فاران: صیہونی رژیم کی قید سے رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں نے جیل میں تشدد، جنسی زیادتی، کھانے پینے اور علاج سے محرومی کی تلخ داستانیں بیان کی ہیں۔
فارس نیوز ایجنسی، سیاسی گروپ: “میں جہنم سے نکل آیا ہوں اور اب جنت میں ہوں۔ ہم جہنم سے باہر آئے؛ وہ ہمیں جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے تھے، ہمیں مارتے تھے، اور ہم پر آنسو گیس پھینکتے تھے۔ نہ کھانے کو کچھ تھا، نہ دوا، اور نہ ہی کوئی محبت بھرا لفظ۔” یہ دردناک داستان ایک حالیہ آزاد ہونے والے فلسطینی قیدی کی ہے جو جنگ بندی کے معاہدے کے بعد سامنے آئی۔ اس معاہدے کے تحت پہلے مرحلے میں چند فلسطینی قیدیوں کو صیہونی جیلوں کے کچھ قیدیوں کے بدلے آزاد کیا گیا۔
ناقابل تصور تشدد کی شکار فلسطینی خاتون قیدی، جو حالیہ دنوں میں اسرائیلی جیل سے آزاد ہوئی، نے جیل کے حالات کو اس طرح بیان کیا: “جنگ کے دوران جیل ایک ناقابل تصور جہنم بن چکی تھی۔ میں ہمیشہ سیل کی چھوٹی کھڑکیوں سے آسمان کو دیکھتی تھی اور خواہش کرتی تھی کہ ایک دن بغیر ان سلاخوں کے، آسمان کو دیکھ سکوں۔ جب میں آزاد ہوئی اور پہلی بار آسمان اور پہاڑوں کو دیکھا، تو مجھے ایسا لگا جیسے میں دوبارہ زندہ ہوگئی ہوں۔”

اسرائیلی جیلوں کی خوفناک صورتحال پر متعدد رپورٹیں

بین الاقوامی رپورٹس نے اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی ناگفتہ بہ حالت کو اجاگر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل قیدیوں کو اذیت دینے کے لیے مصنوعی ڈوبنے، برقی جھٹکوں اور نیند سے محرومی جیسے طریقے استعمال کرتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق جولائی کے آخر تک تقریباً 9400 “سیکورٹی قیدی” اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، جن میں سے بہت سے بنیادی انسانی حقوق، جیسے وکیل تک رسائی، سے محروم ہیں۔ اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم “بتسلیم” نے بھی ایک رپورٹ میں، جس کا عنوان “جہنم میں خوش آمدید!” ہے، فلسطینی قیدیوں کے لیے اسرائیلی جیلوں کی صورتحال کو اذیت کے مترادف قرار دیا ہے۔ یہ رپورٹ فلسطینی قیدیوں کی گواہیوں پر مبنی ہے اور اس میں شدید انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بشمول تشدد، جنسی زیادتی، اور تشدد کے دوران قتل، کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ مجموعی طور پر، رپورٹیں اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے حوالے سے سنگین صورتحال اور انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔


بے آواز سسکیاں:
فلسطینی خواتین قیدیوں کی داستانیں
یہ رپورٹیں ظاہر کرتی ہیں کہ فلسطینی خواتین قیدی جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ ذلت اور غیر انسانی حالات کا بھی سامنا کرتی ہیں۔ ایک حالیہ آزاد ہونے والی خاتون قیدی کہتی ہے، “میں پانچ ماہ قید میں رہی۔ کوئی علاج موجود نہیں تھا۔ یہاں تک کہ شدید بیماریوں اور فالج کی علامات کے باوجود نہ کوئی دوا تھی اور نہ ہی دیکھ بھال۔ لیکن ہم خواتین مضبوط ہیں اور ہم نے ان تمام مشکلات کا سامنا کیا۔”
موت اور ذلت کے کیمپ
عبدالعزیز عطونہ، ایک آزاد شدہ قیدی، جیل میں برداشت کی جانے والی ذلت اور بے رحمیوں کے بارے میں کہتے ہیں، “ہمیں مارا جاتا تھا، گالیاں دی جاتی تھیں، اور ہم پر آنسو گیس پھینکی جاتی تھی۔ یہ جیلیں قیدیوں کے رکھے جانے کی جگہ نہیں تھیں بلکہ موت اور ذلت کے کیمپ تھے۔”
مزاحمت کے سامنے بربریت :
جیلوں میں جسمانی اور ذہنی تشدد کے خلاف مزاحمت کا جذبہ فلسطینی قیدیوں کی نمایاں خصوصیت ہے۔ ایک آزاد شدہ خاتون کہتی ہے، “جیل میں زندگی مشکل تھی، لیکن ہم نے کبھی اپنا ایمان نہیں کھویا۔ حتی کہ تاریک ترین لمحات میں بھی، آزادی کی امید نے ہمیں زندہ رکھا۔”
مزاحمت کے اخلاقیات اور قابضوں کی وحشتگری:
بہت سے ماہرین اور گواہوں کے مطابق، فلسطینی مزاحمت کے گروپوں کا اسرائیلی قیدیوں کے ساتھ برتاؤ انسانیت کی تصویر پیش کرتا ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ پہلی تبادلہ کے مرحلے میں آزاد ہونے والی اسرائیلی خواتین کے چہرے پر مسکراہٹیں، القسام کے انسانی رویے کی عکاسی کرتی تھیں۔ فلسطینی تجزیہ کار عبدالباری عطوان اس تضاد کو یوں بیان کرتے ہیں، “اسرائیلی قیدی جسمانی اور ذہنی طور پر بہترین حالت میں تھے، جب کہ فلسطینی قیدی شدید ترین تشدد اور بے رحمی کا سامنا کر رہے تھے۔”


انصاف کی پکار کہی جانے والی یہ گواہیاں ہمیں متضاد طرز عمل دکھا رہی ہیں اور دونوں فریقوں کے مابین رویوں میں واضح تضاد عالمی برادری کو ایک واضح پیغام دیتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ انسانی حقوق کے ادارے دوہری پالیسیوں کو چھوڑ کر ان جرائم کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔ ایک آزاد شدہ قیدی کہتا ہے، “الحمدللہ کہ ہم آزاد ہو گئے۔ لیکن یہ جہنم ہمیشہ کے لیے ختم ہونا چاہیے۔ ہم اب بھی کھڑے ہیں اور مزاحمت کر رہے ہیں۔”