فلسطینی مزاحمت کو امام خمینی ؒنے زندہ کیا

امام خمینی ؒ کی فکر جہاں مزاحمتی تحریکوں کی طاقت کا باعث بن رہی ہے، وہاں عوامی بیداری میں بھی امام خمینی ؒ کی وہی فکر کارفرما ہے، جو انہوں نے ہمیشہ بیان کی اور اس پر عمل کیا۔ لہذا یہ کہنا درست ہے کہ امام خمینی ؒ ایک ایسی عظیم ہستی ہیں کہ جنہوں نے فلسطینی مزاحمت کو پیدا کیا، زندہ کیا اور جلا بخشی۔

فاران: ایران میں اسلامی انقلاب کے بانی اور صدی کے بزرگ ترین رہنماء آیت اللہ روح اللہ موسوی جن کو امام خمینی ؒ بھی کہا جاتا ہے۔ امام خمینی ؒ کی پینتسویں برسی کے ایام ہیں۔ اس مناسبت سے کہ فلسطین میں طوفان الاقصیٰ بھی جاری ہے، لہذا قارئین کے لئے امام خمینی ؒ اور فلسطین کی مزاحمت کے ساتھ مضبوط رشتہ سے متعلق چند نقاط بیان کرنا ضروری ہیں۔ فلسطین پر سنہ1948ء میں قبضہ ہوا اور سرزمین فلسطین پر امریکی و برطانوی استعمار سمیت یورپی ممالک کی خیانت کاریوں کے باعث صیہونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل قائم کر دی گئی۔ نکبہ بھی ہوگیا، یعنی بہت بڑی تباہی، فلسطینی بے گھر ہوئے، قتل ہوئے، اپنے وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور کئے گئے اور بھی بے پناہ مظالم ہیں جن کی ایک طویل داستان ہے۔

فلسطینی ہمیشہ سے فلسطین کی تقسیم پر خوش نہ تھے۔ اس موقع پر بھی فلسطینیوں نے جدوجہد کی۔ احتجاج کیا، لیکن عالمی استعمار کے سامنے سب بے سودھ رہا۔ عرب ممالک جو فلسطین کے پڑوسی تھے، جن میں شام، لبنان، اردن اور مصر شامل تھے یا اس کے علاوہ بھی جو عرب ممالک جیسا کہ لیبیا، عراق و دیگر یہاں اس زمانہ میں دنیا کی تقسیم بندی کا بڑا اثر تھا اور زیادہ تر ممالک کی حکومتیں کمیونسٹ سوشلسٹ بلاک کا حصہ تھیں۔ ہمسایہ ہونے کی حیثیت سے مصر اور دیگر عرب ممالک نے غاصب اسرائیل کے خلاف جنگیں بھی لڑیں۔ جمال عبد الناصر نے 1958ء میں اسرائیل کے لئے نہر سوئز کا راستہ بند کیا۔ سنہ1967ء اور سنہ 1973ء کی دو بڑی مشہور عرب اسرائیل جنگیں بھی ہوئیں، لیکن ان سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ مصر میں جمال عبد الناصر کو بھی قتل کر دیا گیا اور انور السادات نے جگہ سنبھال لی۔

دوسری طرف اردن بھی اسرائیل کے سامنے تسلیم ہوگیا۔ انور سادات کے آتے ہی سنہ1978ء میں کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ ہوا اور مصر بھی فلسطین کی حمایت سے دستبردار ہوگیا۔ اسی سال یعنی 1978ء میں ہی اسرائیل کی فوجیں لبنان میں بھی داخل ہوگئیں اور لبنان کے جنوب میں قبضہ جما لیا۔ دو جنگوں کے نتائج میں شام کی جولان کی پہاڑیوں پر بھی اسرائیل کی فوج قابض ہوگئی۔ اب تمام ہمسایوں نے فلسطین کی آزادی کے لئے جنگیں لڑیں، لیکن اپنے علاقوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان جنگوں کی ناکامیوں کی متعدد وجوہات ہیں، جن پر پھر کبھی تبصرہ کریں گے۔ قریبی ہمسایہ ناکام ہوگئے، اسرائیل کے عزائم روز بروز بڑھتے چلے گئے۔ ایسے حالات میں اب عرب دنیا کے دیگر حکمران بھی یہ توقع کر رہے تھے کہ لبنان پر قبضہ کے بعد اب اسرائیل باقاعدہ شام پر قبضہ کرے گا اور آگے ہی بڑھتا چلا جائے گا،یعنی عظیم تر اسرائیل کا صیہونی خواب مکمل ہونے جا رہا تھا۔

دوسری طرف فلسطینی قوم جو اپنے عرب بھائیوں کی امید پر تھی، ان کا حال دیکھنے کے بعد اس زمانہ میں مایوسی کے بادلوں میں چھپتی چلی گئی اور فلسطین کی آزادی اور قبلہ اول کی بازیابی کا خواب شاید کہانیوں میں چلا جاتا۔ ایسے ہی زمانہ اور حالات میں ایک غیر عرب ملک ایران جو کہ اس زمانہ میں امریکہ اور اسرائیل کا بڑا اتحادی تھا۔ سنہ1979ء میں حضرت امام خمینی ؒؒ کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی جدوجہد کامیاب ہوگئی اور ایران سے امریکی و اسرائیلی ایجنٹ حکومت یعنی شاہ ایران کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ یہ کامیابی صرف ایران کے عوام کے لئے نہیں تھی بلکہ یہ فلسطین سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں اور خاص طور پر ان مظلوم اقوام کے لئے تھی، جو استعماری اور سرمایہ دارانہ نظام کی چکی میں پس رہے تھے۔

اسلامی انقلاب کے ایام میں لگایا جانے والا لا شرقیہ اور لا غربیہ کا نعرہ بھی اسی لئے تھا، کیونکہ یہ دونوں نظام یعنی سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونسٹ سوشلسٹ نظام دونوں ہی اپنی لڑائی میں دوسروں کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ بہرحال جیسے ہی ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو امام خمینی ؒ نے سب سے پہلے فوری طور پر تہران میں قائم اسرائیلی سفارت خانہ کو ختم کرنے اور اسے فلسطینی سفارتخانہ بنانے کا اعلان کیا، جس پر فوری عمل کیا گیا۔ جہاں فلسطینی عوام کی امیدیں دم توڑ رہی تھیں، وہاں اس اقدام نے ان کے لئے امید کی نئی کرن پیدا کی۔ اسی طرح امام خمینی ؒ نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس سے منسوب کیا، جسے پوری دنیا میں پذیرائی حاصل ہوئی اور دنیا بھر کے متعدد ممالک میں فلسطین کی حمایت میں بیک وقت آواز اٹھنے لگی۔ یہ تو عوامی سطح کی حمایت تھی۔

انہی ایام میں لبنان میں موجود جوانوں نے جو کہ پہلے سے ہی لبنان پر اسرائیل کے قبضہ کے خلاف مزاحمت کا راستہ اختیار کئے ہوئے تھے، باقاعدہ طور پر حزب اللہ کا قیام عمل میں لے آئے۔ انہی ایام میں ہی حماس نامی فلسطینی مزاحمتی تنظیم قائم ہوئی۔ اس سے قبل جہاد اسلامی فلسطین کے شہید رہنما شہید فتحی شقاقی پہلے ہی اسلامی انقلاب سے متاثر تھے اور فلسطینی نوجوانوں کو تیار کر رہے تھے، اس جماعت نے بھی تقویت حاصل کی۔ خلاصہ یہ رہا کہ فلسطینی مزاحمت ایسے حالات میں زندہ ہوئی، جب تمام امیدیں دم توڑ چکی تھیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد فلسطین سے یاسر عرفات تشریف لائے تو انہوں نے بھی امام خمینی ؒ کے ساتھ ملاقات میں اپنے جذبات کا اظہار ایسے ہی الفاظ سے کیا کہ جیسے ان کو سرپرست اور ولی وارث مل گیا ہو۔

یہاں پر اگر یہ کہا جائے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی اور امام خمینی ؒ کی قیادت نے جہاں ایران کو آزاد کیا، وہاں ساتھ ساتھ فلسطین کی مزاحمت کو زندہ کیا اور ایسا زندہ کیا کہ اس کے بعد اسرائیل کو ہمیشہ ذلت اور رسوائی کا ہی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسرائیل کے تمام تر ناپاک عزائم خاک ہوتے جا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں طوفان الاقصیٰ آپریشن اور خطے میں فلسطین، لبنان، یمن، عراق، شام اور بحرین سمیت دیگر علاقوں میں اٹھنے والی مزاحمت امام خمینی ؒ کی فکر اور بصیرت کا ہی نتیجہ ہے۔ آج امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک سب مل کر بھی فلسطینیوں کو شکست دینے میں ناکام ہیں۔

امام خمینی ؒ کی فکر جہاں مزاحمتی تحریکوں کی طاقت کا باعث بن رہی ہے، وہاں عوامی بیداری میں بھی امام خمینی ؒ کی وہی فکر کارفرما ہے، جو انہوں نے ہمیشہ بیان کی اور اس پر عمل کیا۔ لہذا یہ کہنا درست ہے کہ امام خمینی ؒ ایک ایسی عظیم ہستی ہیں کہ جنہوں نے فلسطینی مزاحمت کو پیدا کیا، زندہ کیا، جلا بخشی اور توانا کیا، جو آج دنیا کے ظالم و جابر نظاموں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔ دشمن آج بھی امام خمینی ؒ کے افکار کے سامنے شکست خوردہ ہے۔