فاران: ریاض ہمیشہ اس بات کا مخالف رہا ہے کہ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے باہر کہیں اور بسایا جائے۔ سعودی عرب نے ہر بین الاقوامی موقع پر فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت پر زور دیا ہے اور اس بات کی حمایت کی ہے کہ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔
علاقائی نتائج
اگر سعودی عرب کسی بھی شکل میں اس تجویز کو تسلیم کر لیتا ہے، تو یہ فلسطینیوں اور سعودی عرب کے درمیان ایک بحران کو جنم دے گا۔ اس کے علاوہ، یہ اقدام ریاض کے عرب اور اسلامی دارالحکومتوں کے ساتھ تعلقات کو کمزور کر سکتا ہے، کیونکہ بہت سے عرب اور مسلم ممالک اس منصوبے کو اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش سمجھتے ہیں۔
سیکیورٹی اور اسٹریٹجک اثرات
اگر یہ تصور کیا جائے کہ سعودی عرب فلسطینیوں کو اپنے ہاں بسانے پر راضی ہو جاتا ہے، تو یہ محض ایک انسانی مسئلہ نہیں ہوگا، بلکہ سعودی عرب کے اندر آبادیاتی اور سیاسی توازن پر بھی اثر ڈالے گا۔ سعودی حکمران خاندان ایسے کسی بھی ممکنہ عدم استحکام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔
نامناسب وقت
اس وقت سعودی عرب واشنگٹن، بیجنگ اور ماسکو کے درمیان ایک متوازن سفارتی کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر سعودی عرب اسرائیل کی اس تجویز کو قبول کرنے یا اس پر غور کرنے کا اشارہ بھی دیتا ہے، تو یہ اس کے سفارتی توازن کو شدید نقصان پہنچائے گا اور اندرونی و بیرونی بحرانوں کے دروازے کھول دے گا۔
غزہ کے فلسطینیوں کی شام منتقلی
فلسطینیوں کو شام منتقل کرنے کا خیال، سعودی عرب کی نسبت زیادہ پیچیدہ ہے۔ شام کی صورتحال اب بھی مکمل طور پر مستحکم نہیں ہے، اور ملک کے کئی علاقے اب بھی حکومتی کنٹرول سے باہر ہیں۔
اگر فلسطینیوں کو شام منتقل کیا جاتا ہے، تو یہ ملک میں مزید انتشار اور عدم استحکام پیدا کرے گا، اور اس کے اثرات اسرائیل پر بھی مرتب ہوں گے، جو خود نتن یاہو کے مفادات کے خلاف ہے۔
یہ منصوبہ عملی کیوں نہیں ہو سکتا؟
1. جولانی حکومت کی مخالفت
جولانی حکومت کا فلسطینی مزاحمتی گروہوں سے سرد تعلق ہے، اور وہ شام کو ایک نئے تنازع میں دھکیلنے کے لیے تیار نہیں۔ شام پہلے ہی سنگین اقتصادی بحران اور مغربی پابندیوں کا شکار ہے، اور فلسطینیوں کی منتقلی ان مشکلات میں مزید اضافہ کرے گی۔
ایک ہی صورت میں جولانی کو اس منصوبے پر رضامند کیا جا سکتا ہے:
اگر ٹرمپ کی جانب سے شام کو بڑے پیمانے پر رعایتیں دینے کا اعلان ہو، جیسے پابندیوں کا خاتمہ، دہشت گردی کی فہرست سے اخراج، مالی امداد وغیرہ۔ تاہم، مغرب جولانی پر اعتماد نہیں کرتا، لہٰذا یہ امکانات بہت کمزور ہیں۔
2. علاقائی طاقتوں کی مخالفت
اگرچہ بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے اور ایران و روس کا شام میں اثر و رسوخ اب نہیں رہ گیا لیکن وہ شام کے جغرافیائی توازن کو بدلنے کی اجازت نہیں دیں گے، اور فلسطینی مسئلے کو اس طرح قربان نہیں ہونے دیں گے۔
ترکی کی شدید مخالفت:
ترکی، جس کا شمالی شام میں فوجی اثر و رسوخ ہے، اسرائیل کے اس منصوبے کے سخت خلاف ہے، کیونکہ یہ فلسطینیوں کی منتقلی کو خطے میں جغرافیائی اور سیاسی توازن کو بگاڑنے کی ایک کوشش سمجھتا ہے۔
علاقائی قوتوں کی مخالفت
ایران اور روس جیسی دونوں طاقتیں شام کے سیاسی و جغرافیائی توازن کو دوبارہ بدلنے کی اجازت نہیں دیں گی، اور فلسطینی مسئلے کو اس طرح قربان کرنے پر راضی نہیں ہوں گی۔
ترکی کی مخالفت:
ترکی، جو شمالی شام میں فوجی موجودگی رکھتا ہے، اور شام میں سب سے بااثر علاقائی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے، فلسطینیوں کی شام منتقلی کے سخت خلاف ہے۔ ترکی کو اس اقدام سے خطے میں جغرافیائی و سیاسی توازن کے بگڑنے کا شدید خدشہ ہے۔
اسرائیل کے اندرونی اور بین الاقوامی ردعمل
یہ منصوبہ اسرائیل کے اندر بھی متفقہ حمایت حاصل نہیں کر سکا، اور سیاسی و سیکیورٹی حلقوں میں واضح تقسیم موجود ہے۔
انتہا پسند دائیں بازو کی حمایت:
“بیزلیل اسموریچ” اور “ایتمار بن گویر” جیسے انتہا پسند رہنما، اور ٹرمپ کے قریبی اسرائیلی سیاستدان اس منصوبے کو فلسطینی وجود ختم کرنے کا “بہترین حل” قرار دیتے ہیں۔
اسرائیلی سیکیورٹی اور فوجی حکام کی مخالفت:
ان کے مطابق یہ منصوبہ اسرائیل کو غیرمعمولی سفارتی بحران میں مبتلا کر دے گا، اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو شدید نقصان پہنچائے گا۔
میانہ رو دائیں بازو کے خدشات:
بعض میانہ رو اسرائیلی سیاستدانوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ منصوبہ اسرائیل پر بین الاقوامی پابندیوں اور سیاسی تنہائی کو جنم دے سکتا ہے۔
بین الاقوامی ردعمل:
دنیا کے بیشتر ممالک اس منصوبے کے خلاف ہیں۔ بین الاقوامی قوانین اور معاہدے کسی بھی اجتماعی جبری بے دخلی کو جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف جرم قرار دیتے ہیں۔
فلسطینیوں کا ردعمل
فلسطینی عوام نے واضح طور پر اس منصوبے کو مسترد کر دیا ہے، چاہے وہ غزہ میں بدترین تباہی اور بنیادی سہولیات کے فقدان کے باوجود ہو۔ فلسطینی اسے “نکبتِ دوم” (دوسری تباہی) کی ایک نئی شکل سمجھتے ہیں۔ اردن اور شام میں فلسطینیوں کے تلخ تجربات، عالمی برادری کی بے حسی، اور عدم ضمانتوں کے باعث، فلسطینی اپنی سرزمین چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔
کیا فلسطینیوں کی جبری بے دخلی اسرائیل کی سرکاری پالیسی بن چکی ہے؟
نیتن یاہو کے لیے فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کرنا کوئی اتفاقی منصوبہ نہیں، بلکہ یہ اس کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے تاکہ سیاسی بحران سے نکل سکے۔
داخلی مخالفت:
یہاں تک کہ کچھ اسرائیلی سیکیورٹی رہنما بھی اس منصوبے کو غیرحقیقی قرار دیتے ہیں، اور خبردار کر رہے ہیں کہ یہ سفارتی تباہی کا باعث بنے گا۔
نتن یاہو پر دباؤ:
اقتدار بچانے کی کوشش، امریکی دباؤ، اور انتہا پسند دائیں بازو کی خواہشات نتن یاہو کو مزید انتہا پسند فیصلے لینے پر مجبور کر رہی ہیں۔
توجہ ہٹانے کی چال:
وہ بین الاقوامی میڈیا کی توجہ غزہ میں اپنی فوجی شکست سے ہٹانا چاہتا ہے، اور “نکبت” (تباہی) کے ایک نئے ماڈل کو سفارتی لبادے میں پیش کر رہا ہے، مگر مقصد وہی پرانا ہے: فلسطینیوں کی جبری بے دخلی اور ایک نیا زمینی حقائق تخلیق کرنا۔
کیا یہ منصوبہ کامیاب ہوگا؟
پچھلی تمام جبری بے دخلی کی کوششیں ناکام ہوئیں، اور یہ نئی کوشش بھی فلسطینیوں اور عرب ممالک کی سخت مزاحمت کی وجہ سے ناکامی کا شکار ہو سکتی ہے۔ نتن یاہو اگر یہ سمجھتا ہے کہ دنیا آہستہ آہستہ فلسطین کو بھول جائے گی، تو عرب اور مسلم دنیا میں عوامی ردعمل ثابت کر رہا ہے کہ وہ غلطی پر ہے۔ فلسطین آج بھی زندہ ہے، اور اسرائیل جتنی بھی کوشش کر لے، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتی۔
اب سوال یہ ہے کہ:
کیا یہ منصوبہ کامیاب ہوگا؟
اور نتن یاہو اور ٹرمپ اپنی مہم جوئی میں کتنا آگے جائیں گے؟
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں