فلسطینی نوجوانوں کی مزاحمتی محاذ میں شمولیت کا طوفان
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: “یونی بن مناخیم” کا کہنا ہے: “غزہ میں جنگ کو ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے اور فلسطینی نعرہ لگا رہے ہیں، ‘ہم محمد ضیف کے سپاہی ہیں۔’ یہ 15 ماہ کی جنگ کے بعد غزہ کی صورتحال ہے۔”
فارس پلس گروپ: 16 ماہ تک جاری رہنے والی صہیونی ریاست کی جنگ انجام کار جنگ بندی تک پہنچ گئی، وہ جنگ جس میں دنیا نے بدترین انسانی جرائم کا مشاہدہ کیا۔ اگرچہ غزہ کے عوام نے عالمی طاقتوں، بشمول امریکہ، کی مدد سے ہونے والے صہیونی ریاست کے وحشیانہ اور جنونی حملوں کے خلاف پوری قوت اور عزم کے ساتھ مزاحمت کی اور 21ویں صدی کی اس وحشیانہ ترین جنگ سے فتح یاب ہو کر نکلے، لیکن اب ان کے دلوں میں غم و غصے کی ایسی آگ بھڑک اٹھی ہے جو کبھی نہیں بجھے گی، اور جلد ہی یہ غصہ اور نفرت صہیونیوں اور ان کی ریاست کے خلاف دوبارہ بھڑک کر سامنے آئیں گے۔
عبرانی زبان کے ذرائع، خاص طور پر اسرائیلی حکام، کے مطابق فلسطینیوں کی مزاحمتی فورسز میں شمولیت کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اور اسے جنگ کے ابتدائی دنوں یا اس سے پہلے کے حالات سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔
سابق امریکی وزیر خارجہ “انتھونی بلنکن” نے اپنی وزارت کے آخری دنوں میں ایک تقریر کے دوران اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: “شمالی غزہ میں حماس میں شامل ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد تقریباً اتنی ہی ہے جتنی اس تحریک نے جنگ کے دوران کھو دی تھی۔”
اسرائیلی میڈیا میں سامنے آنے والے اعداد و شمار:
غزہ میں حماس کی افرادی قوت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے
“یارون آبراہام”، جو کہ اسرائیلی چینل 12 کے سیاسی امور کے تجزیہ کار اور صحافی ہیں، انکی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، اگرچہ اسرائیلی فوج شمالی غزہ میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے لڑ رہی تھی اور بار بار یہ دعوے کر رہی تھی کہ اس نے حماس کے عسکری ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے، مگر اس تحریک میں نئی بھرتیوں کی شرح اب بھی قابلِ توجہ ہے۔
اسرائیلی پارلیمنٹ (کنسٹ) کی خارجہ و عسکری امور کی کمیٹی نے حال ہی میں غزہ میں موجود مزاحمتی جنگجوؤں کی تعداد پر مبنی ایک رپورٹ جاری کی، جس کے نتائج شاید صہیونیوں کی توقعات کے برعکس نکلیں۔
اس رپورٹ کے مطابق، اس وقت غزہ پٹی میں 20 سے 23 ہزار فلسطینی حماس کے جنگجو کے طور پر سرگرم ہیں۔ ان میں سے تقریباً 9 ہزار منظم جنگجو شمالی اور جنوبی بریگیڈز میں خدمات انجام دے رہے ہیں، جبکہ 7 سے 10 ہزار غیر منظم جنگجو بھی موجود ہیں۔
رپورٹ مزید بتاتی ہے کہ اس کے علاوہ تقریباً 4 ہزار جنگجو دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہوں، بشمول “اسلامی جہاد تحریک”، سے تعلق رکھتے ہیں۔
عبرانی میڈیا کے مطابق، یہ رپورٹ واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیلی فوج کا غزہ میں مزاحمت کو ختم کرنے کا فوجی آپریشن مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ حالانکہ اسرائیلی وزیر جنگ “اسرائیل کاتز” نے فوج اور آرمی چیف کو ایک ایسا منصوبہ تیار اور نافذ کرنے کا حکم دیا تھا جو غزہ میں مزاحمت کی مکمل تباہی اور شکست کی ضمانت دے۔
حماس اب بھی غزہ میں اقتدار سنبھالے ہوئے ہے:
یہ ایک حقیقت ہے جسے صہیونی حکام کبھی تسلیم نہیں کرنا چاہتے کہ پچھلے 15 ماہ کی جنگ کے دوران کئی اعلیٰ مزاحمتی کمانڈروں اور جنگجوؤں کی شہادت، مزاحمتی فورسز کے بعض کمانڈ سسٹمز کو پہنچنے والے نقصان، اور ان کے زیر کنٹرول علاقوں پر حملوں کے باوجود، مزاحمت اب بھی مضبوط ہے اور اپنی صلاحیتیں برقرار رکھے ہوئے ہے۔
اسرائیلی فوج کے سابق چیف آف اسٹاف “گرشون ہاکوہن” فلسطینیوں کی حماس میں شمولیت کے بارے میں کہتے ہیں: “یہ غلط ہے کہ حماس کو صرف ایک نیم فوجی تنظیم سمجھا جائے جو غزہ پر حکمرانی کر رہی ہے۔”
وہ مزید وضاحت کرتے ہیں: “حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی عوام حماس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ حماس محض ایک مسلح تنظیم نہیں بلکہ ایک عوامی، قومی اور مذہبی تحریک ہے، جس کے ساتھ لوگ دل و جان سے وابستہ ہیں۔ جو لوگ اس میں شامل ہوتے ہیں، وہ محض روزگار یا معاشی فوائد کے لیے نہیں، بلکہ اپنے مضبوط ایمان اور عقیدے کے ساتھ اس میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اور اسی جذبے کے ساتھ لڑتے ہیں۔”
اسرائیلی ماہر: “ہم حماس کو تباہ کرنے میں ناکام رہے”
صہیونی صحافی اور عسکری امور کے ماہر “آمیخای شیلو” اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
“ہم نے غزہ میں حماس کو تباہ نہیں کیا؛ ہم نے مغربی کنارے میں حماس کو تباہ نہیں کیا؛ ہم نے شام میں حماس کو ختم نہیں کیا؛ ہم نے لبنان میں حزب اللہ کو تباہ نہیں کیا؛ ہم نے یمن میں انصار اللہ کو ختم نہیں کیا؛ ہم نے ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ نہیں کیا؛ ہم مغربی کنارے میں مزاحمتی جنگجوؤں سے اسلحہ چھیننے میں ناکام رہے، اور یہ ہماری ایک بڑی شکست ہے۔ آگاہ رہیں، جو تباہی آنے والی ہے، وہ پہلے سے کہیں زیادہ سنگین اور شدید ہوگی۔”
صہیونی ریاست نے فلسطینیوں کے خلاف غزہ میں وحشیانہ جنگی جرائم کا ارتکاب کیا، لیکن وہ فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ بلکہ اس کے برعکس، اس نے فلسطینی عوام میں ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کر دیا، جس کے نتیجے میں مزید فلسطینی مزاحمت میں شامل ہو کر صہیونی قابضین کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہو گئے۔
حالیہ مہینوں میں صہیونی فوج نے خود اعتراف کیا کہ غزہ کے کئی علاقے، جو پہلے ان کے عسکری قبضے میں تھے، فلسطینی مزاحمتی جنگجوؤں نے دوبارہ حاصل کر لیے ہیں۔ یہ واضح کرتا ہے کہ وہ تمام تجزیے اور اندازے، جو مزاحمتی گروہوں بالخصوص حماس کے خاتمے کے بارے میں کیے جا رہے تھے، وہ مکمل طور پر غلط ثابت ہوئے ہیں۔
نتانیاهو کا اعتراف: “حماس کا خاتمہ ناممکن ہے”
غزہ کی پٹی میں 16 ماہ تک جاری رہنے والی جنگ، جس میں فلسطینیوں کو شدید جانی و مالی نقصان پہنچایا گیا، کے بعد بالآخر نتانیاهو اور صہیونی حکام نے اعتراف کر لیا کہ “حماس کا خاتمہ ایک ناقابلِ حصول ہدف ہے۔”
پندرہ ماہ تک فلسطینی مزاحمت اور نوجوانوں کی بے مثال استقامت نے نتانیاهو کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے جنگ بندی پر راضی ہو اور حماس کی شرائط تسلیم کرے۔ اگرچہ فلسطینی عوام نے بالآخر صہیونی ریاست کو اپنے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا، لیکن آج ان کے دلوں میں جو غم، غصہ اور نفرت ہے، وہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔
صہیونی حکومت نے خود تسلیم کیا کہ جنگ کے شدید ترین لمحات میں بھی فلسطینیوں نے مزاحمت سے دستبرداری اختیار نہیں کی اور اسے تنہا نہیں چھوڑا۔ اب صہیونی ماہرین اور تجزیہ کاروں کے لیے سب سے بڑا خوفناک سوال یہ ہے کہ:
“حماس کی فتح، جنگ بندی کے قیام، اور اسرائیل پر اپنی شرائط مسلط کرنے کے بعد، فلسطینیوں میں اس کی مقبولیت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمیں ایک نئی نسل کے فلسطینی مزاحمت ک،اروں کے سامنے آنے میں کتنا وقت لگے گا، جو اسرائیل کے خلاف لڑنے اور اس سے بدلہ لینے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ پرعزم ہوں گے؟”
تبصرہ کریں