فلسطینی ہونا موت کا سامنا کرنے کے مترادف/ فلسطین کی شناخت محمود درویش کی شاعری میں
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: مہر نیوز ایجنسی نے اس سلسلے کی اہم شخصیات کے سلسلہ وار تعارف کا اہتمام کیا ہے اور فلسطینی شاعر محمود درویش کے ایک مشہور ترین کلام “حکمۃ الغرباء و غربۃ الحکماء” (اجنبیوں کی حکمت اور حکیموں کی اجنبیت) اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔
بے شک فلسطین کو محمود درویش کے کلام کے آئینے میں دیکھ کر پہچاننا چاہئے۔ ان کی شاعری آزادی کی فریاد ہے اور بے سبب نہیں ہے کہ فلسطینیوں نے بھی اور دنیا کے حریت پسندوں نے بھی انہیں اپنا قومی شاعر قرار دیا ہے۔
شہید غسان کنفانی کی شہادت کے بعد درویش نے ایک طویل قصیدہ کہا جس کی کچھ بندوں کا ترجمہ کچھ یوں ہے:
“جب ہم کہتے فلسطین! ۔۔۔ تو کس چیز کی بات کر رہے ہوتے ہیں؟
کیا اس سے پہلے ہم نے اس کے بارے میں سوچا تھا؟
آج بہرحال ہم جانتے ہیں کہ
فلسطینی ہونا یعنی موت کے ساتھ اُنسیت
یعنی موت کے ساتھ تعامل
یعنی غسان کنفانی کے خون میں اپنا نام رجسٹر کرنا
تیرے بدن کے ٹکڑے، در و دیوار پر چپکے یہ گوشت کے جلے ہوئے ٹکڑے ہی نہیں ہیں
عکا، حیفا اور قدس و طریہ اور یافا ہیں
اور کتنا خوش نصیب ہے وہ بدن جس کے ٹکڑے شہر ہوں
تم کتنے شبیہ ہو وطن کے!
درویش ان بندوں میں سرزمین فلسطین اور اس کے مفکرین اور دانشوروں کے سلسلے میں چند اہم مفاہیم پر روشنی ڈالتے ہیں۔ سب سے پہلا مفہوم یہ ہے کہ فلسطین کیا ہے اور فلسطینی کیا ہے۔ فلسطینی ہونا یعنی موت کے ساتھ انسیت اور تعامل رکھنا۔ فلسطینی ہمیشہ موت کا سایہ اپنے سر پر منڈلاتا دیکھتا ہے۔ ایک فلسطینی – اگر اپنے وطن کے لئے فکرمند ہو تو – ہمیشہ دہشت گردی کے خطرے سے دوچار ہے اور دہشت گردی کے نتیجے میں ملنے والی موت انسانی بدن کے ٹکڑوں کو شہروں میں بدل دیتی ہے۔ ہرگاہ ایک روشن خیال اور مفکر مجاہد کا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے، تو غصب شدہ فلسطین اور ٹکڑوں میں بٹا فلسطین اسی وقت اپنے وجود اور اپنی تقسیم اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا احساس سب کو دلاتا ہے۔
فلسطین، برکت اور گفتگو؛ وعدہ شدہ سرزمین کے بارے میں یہودی نقطہ نظر کا تنقیدی جائزہ
سورہ اسراء کی پہلی آیت کچھ یوں ہے:
“سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِهِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَهُ لِنُرِیَهُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ؛ پاک ہے وہ خدا جو لے گیا اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے ایسی مسجد اقصیٰ تک جس کے گرد و پیش ہم نے برکت ہی برکت قرار دی ہے تا کہ ہم انہیں دکھائیں اپنی کچھ نشانیاں یقینا وہ سننے والا ہے، بڑا دیکھنے والا”۔
اللہ نے اس برکت کی طرف دوسری آیات میں بھی اشارہ کیا ہے۔ سورہ انبیاء کی آیت 81 میں ارشاد ہوتا ہے:
“وَلِسُلَیْمَانَ الرِّیحَ عَاصِفَةً تَجْرِی بِأَمْرِهِ إِلَی الْأَرْضِ الَّتِی بَارَکْنَا فِیهَا وَکُنَّا بِکُلِّ شَیْءٍ عَالِمِینَ؛ ہم نے تند وتیز ہوا کو سلیمان (علیہ السلام) کے لئے مسخّر کر دیا جو اس کے فرمان کے مطابق اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت قرار دی تھی، اور ہم ہر چیز سے باخبر تھے”۔
سورہ اعراف کی آیت 137 بھی ایسی ہی ہے لیکن سرزمین فلسطین کی برکتوں کو اجاگر کرنے والی اہم ترین آیت کریمہ سورہ انبیاء کی آیت 71 ہے جس کا ایک حصہ ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کی سرگذشت کے بارے میں ہے:
“وَنَجَّیْنَاهُ وَلُوطًا إِلَی الْأَرْضِ الَّتِی بَارَکْنَا فِیهَا لِلْعَالَمِینَ؛ اور ہم ابراہیم اور لوط کو بچا کر اس زمین کی طرف لے چلے جس میں ہم نے تمام جہانوں کے لئے برکت عطا کی ہے۔
خداوند متعال اس آیت میں حضرت ابراہیم اور حضرت لوط (علیہما السلام) کی نجات کی طرف اشارہ فرماتا ہے اور یہ کہ وہ اس سرزمین کی طرف چلے جائیں جس میں اس نے جہانوں والوں کے لئے برکت رکھی ہے۔ ابراہیم خلیل (علیہ السلام) ابو الانبیاء ہیں اور آنجناب کے ایک فرزند حضرت اسحاق (علیہ السلام) ہیں جو حضرت یعقوب [اسرائیل] (علیہ السلام) کے والد گرامی ہیں؛ اور قوم بنی اسرائیل یعقوب (علیہ السلام) کی نسل سے ہے اور اسی نسل میں دین یہود ظہور پذیر ہوتا ہے۔ نیز حضرت مریم (سلام اللہ علیہا) کا سلسلۂ نسب بھی حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے جا ملتا اور یوں ابتدائی عیسائی بھی حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کی ذریت سے ہیں۔ البتہ ہم جانتے ہیں کہ پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا سلسلۂ نسب حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے جا ملتا ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے فرزند ارجمند ہیں۔ لہٰذا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی موجودگی اور اس خطے کا سب کے لئے با برکت ہونا، ظاہر کرتا ہے کہ اس سرزمین کی فطرت ہی نا قابل تسخیر ہے اور اس پر کوئی بھی مسلط نہیں ہو سکتا۔
تورات کی روایات پر مبنی تاریخ میں ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے کنعانیوں کے شاخ یبوسی قوم پر غلبہ پایا، اورشلیم [یروشلم] کو فتح کیا اور اس کو اپنا دارالحکومت بنایا اور مقدس متون کے مطابق داؤد (علیہ السلام) کے فرزند سلیمان نبی (علیہ السلام) نے مقدس ہیکل (عبادت گاہ) کی بنیاد اسی شہر میں رکھی۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) مسلمانوں کے ہاں قابل احترام انبیائے الٰہی ہیں۔ مسلمانوں نے اس شہر کو خلیفہ ثانی کے زمانے میں فتح کیا۔ اسلامی عصر میں بھی اس شہر میں قبۃ الصخرہ سمیت کچھ عمارتیں اس شہر میں تعمیر کی گئیں۔
یہ سرزمین بعدازاں 14 صدیوں تک مسلمانوں کی سیاسی حاکمیت کا حصہ رہی اور ان تمام صدیوں کے دوران تمام ادیان و مذاہب کے پیرو پوری آسودگی اور امن کے ساتھ اس خطے میں مقیم رہے اور اس کے باوجود کہ یہاں کی حاکمیت مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی مگر یہاں کسی قوم کو دوسری قوم پر بالادستی حاصل نہ تھی؛ دوسرے لفظوں میں، یہ سرزمین ہمیشہ مکالماتی خصوصیت سے بہرہ ور اور گفتگو اور مکالمے کی سرزمین تھی۔
پھر اس سرزمین کی برکت تمام جہتی ہے۔ سورہ سبا کی آیت 18 میں اس سرزمین کی شان میں ارشاد ہوتا ہے:
“وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ سِيرُوا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّامًا آمِنِينَ؛ ہم نے ان کے درمیان اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکتیں رکھی تھیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی بستیاں رکھی تھیں اور ان میں مقررہ فاصلہ قرار دیا تھا، تم ان میں راتوں کو بھی دنوں کو بھی امن و امان کے ساتھ چلتے پھرتے رہو”۔
نیز یہ سرزمین پانی اور زراعت کی کثرت اور معتدل اب و ہوا کے لحاظ سے بھی مشہور رہی ہے اور ان ظاہری برکتوں کے علاوہ معنوی اور روحانی برکت بھی فلسطین کی خصوصیات میں شامل ہے۔ یہ سرزمین در حقیقت تمام الٰہی ادیان و مذاہب کا سرچـشمہ ہے اور یہ ایسی سرزمین ہے جو انسان کو غیر ارادی طور پر غور و تفکر پر مجبور کرتی ہے۔ شاید فلسطین کی یہی مکالماتی (conversational) خصوصیت ہی اس کی روحانی اور معنوی برکت ہے۔ ایسی سرزمین جو کچھ ہی عرصے کے لئے مغرب کی دو دست اندازیوں کے نتیجے میں متنازعہ بنی، ورنہ تو نہ ان تنازعات سے پہلے اور نہ ہی ان کے بعد، یہ سرزمین نزاع اور خونریزی سے محفوظ رہی تھی اور تیسری دست اندازی یہودیوں کی تھی جو 1948ع سے جاری ہے۔
یہودی ہمیشہ سے فلسطین کو جنگ اور خونریزی کے ذریعے اپنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ یہودیوں کے موجودہ مقدس متون [موجودہ تورات اور جعلی کتاب “تلمود” وغیرہ] کے مطابق “جب یہودی اس سرزمین میں داخل ہوئے تو انھوں نے وہاں عربوں، کنعانیوں، اور فونیقیوں (Phoenicians) اور دوسری اقوام کے کچھ قبائل کو دیکھا اور انہیں ان کا خانہ و کاشانہ ترک کرنے پر مجبور کیا”۔ فلسطینیوں کے ساتھ یہودیوں کا برتاؤ جاننے کے لئے تورات ہی کافی ہے۔ تورات میں مذکور ہے کہ “یہودی جب فلسطین میں داخل ہوئے تو یہاں کے لوگوں [عربوں، فینیقیوں اور کنعانیوں] کو نکال باہر کیا، ان کے بچوں کو قتل کیا، ان کی عورتوں کو کنیز بنایا اور مختلف مکاریوں اور چالبازیوں کے ذریعے ان پر مسلط ہوئے”۔
عہدین کی مقدس کتاب – جس کا فارسی ترجمہ فاضل خان ہمدانی، ولیم گلین (William Glen) ہنری مارٹین (Henry Martyn) نے انجام دیا ہے – ایران میں دستیاب ہے۔ اس کتاب سے رجوع کرکے داؤد نبی (علیہ السلام) اور فلسطین کے مقامیوں اور یبوسیوں کے درمیان جنگ کی روداد کا مطالعہ کیا جائے تو آپ ان جنگوں میں مقامی باشندوں کے خلاف یہودیوں کے حد سے زیادہ تشدد کے سوا کچھ نہیں پاتے جس کا تعلق قطعی طور پر اللہ کے نبی حضرت داؤد (علیہ السلام) سے نہیں ہے اور بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ بعد کے زمانوں میں تورات کی تحریف کے دوران، یہودی عزائم کے مطابق، کچھ متون کا اس کتاب میں اضافہ کیا گیا ہے جن میں سے ایک یہ متن بھی ہے جس سے درحقیقت آج تک کے زمانوں کے لئے یہودیوں کے عزائم بھی ظاہر ہوتے ہیں اور یہ بھی کہ جنگوں میں کسی اخلاقی قاعدے کے تابع نہیں ہونگے۔
حکمۃ الغرباء و غربۃ الحکماء (اجنبیوں کی حکمت اور حکیموں کی اجنبیت)
جدید زمانے میں مغربیوں کی سازشوں اور اس مقدس سرزمین پر یہودیوں کے تسلط کے بعد “دوسروں” (The others =The Non-Jews) کو مشقت اور گھٹن سے دوچار ہونا پڑا کیونکہ وطن میں رہنے کی شرط یہ تھی کہ پوری طرح “یہودی فلسطین” کو تسلیم کیا جائے۔ اس تصور کو دنیا بھر کے مسلم اور غیر مسلم مفکرین اور حریت پسندوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ فلسطینی دانشوروں اور مفکرین نے، اپنے عقائد اور فکری منظوموں سے قطع نظر فلسطین کی عبری سازی (یعنی یہودیانے) کے مفروضے کا مقابلہ کیا۔ گوکہ ان مفکرین میں سے کئی ایسے تھے جو فلسطین کی آزادی کے لئے مسلحانہ جدوجہد میں مصروف تھے تاہم ان کے قلمی جہاد نے جعلی اسرائیلی ریاست اور اس کے متعلقین کو بہت زیادہ ستایا ہے اور ارض مقدس کے لئے یہودیوں کی جعلی تاریخ سازی کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے رہے ہیں۔ اسی بنا پر ان دانشوروں کو ہر وقت عارضی غاصب ریاست کے دہشت گردانہ حملوں کے خطرے سے دوچار رہے ہیں۔ اور انہیں ہمیشہ جلاوطنی اور وطن سے دور رہنے پر مجبور رہے ہیں۔ محمود درویش نے اس خصوصیات کو بہت لطیف انداز سے اپنی شاعری میں بیان کیا ہے:
نہ ابھی تک اس سفر کا آغاز ہؤا ہے
نہ یہ راستے ختم ہونے کو ہے
حکیموں کی غربت [اجنبیت] تک ابھی کچھ راستہ باقی ہے اور [حکیم اپنے وطن میں اجنبی ہونگے]
اجنبیوں کی حکمت ابھی کچھ وقت باقی ہے [غاصب حکیم بنیں گے]
ایک ہے آشنا ہے میرا ان پھولوں میں سے “شقائق نعمان” (Anemone)
تو آگے آ
جداری [دیواری] نقاشیوں (Murals) تک
میری شاعری کی سرزمین سبز ہے بلند و بالا ہے
اللہ کے کلمات ہیں وقت فجر
اور میں دور ہوں
دور…
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں