فاران تجزیاتی ویب سائٹ: غزہ میں تقریباً سولہ ماہ کی بمباری، صہیونیوں کے جرائم اور قتل عام کے بعد، ایک طرف، اور غزہ کے لوگوں کی ناقابل بیان اور قابل ستائش مزاحمت کے بعد، اب یہ بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ فلسطین اور مزاحمت کا مستقبل کیا ہوگا؟ جو مختصر جواب دیا جا سکتا ہے، وہ نہ تو خواہشات پر مبنی ہے اور نہ ہی آرزوؤں پر، بلکہ الہیٰ سنت، تاریخی تجربے اور موجودہ ناقابل تردید رجحانات کی بنیاد پر ہے کہ فلسطین اور مزاحمت کا مستقبل پہلے سے کہیں زیادہ روشن ہے۔
جنگ بندی کا معاہدہ، مندرجہ شرائط کے پیش نظر، غزہ کی جنگ کے پہلے چند مہینوں میں ہی طے پا سکتا تھا؛ لیکن ہر بار مذاکرات میں، یہ صہیونی تھے جو نئے شرائط پیش کرکے اور مزاحمت کے شرائط کو قبول نہ کرکے مذاکرات کو ناکام بنا دیتے تھے۔ صہیونیوں نے جنگ بندی اور معاہدے کی مختلف وجوہات کی بنا پر مخالفت کی؛ جن میں سے ایک یہ تھی کہ جنگ بندی کے لئے شرائط کو قبول کرنے کو، ایک بھاری، غلطی اور ناقابل مرمت شکست کو تسلیم کرنے اور حماس اور مزاحمت کے خطرے کو اعلیٰ سطح پر باقی رکھنے کے طور پر دیکھا گیا، ایسی غلطی جو کسی بھی وقت پھر سے عملی ہو سکتی ہے اور اسرائیل پر طوفان الاقصیٰ جیسے شدید حملے کر سکتی ہے۔جی ہاں، صہیونیوں نے اسی منطق کی بنیاد پر جنگ بندی کو قبول نہیں کیا اور غزہ کی جنگ طول پکڑ گئی۔ تقریباً سولہ ماہ کی جنگ کے دوران، صہیونی حکومت نے مغرب کی مکمل حمایت سے ہر ممکن جرم کا ارتکاب کیا تاکہ اپنی سوچ میں، حماس پر غلبہ پا کر، اپنی شکست کو فتح میں بدل دے اور حماس اور مزاحمت کو ختم کرکے مستقبل کے خطرات کو ختم کر دے؛ لیکن صہیونی حکومت کی توقعات اور اندازوں کے برعکس، مغرب اور خاص طور پر امریکہ کی طرف سے دیے گئے مختلف ہتھیاروں کے ساتھ جنگ کے دوران کیے گئے جرائم اور قتل عام، نہ تو جنگ کے اعلانیہ مقاصد جیسے قیدیوں کی آزادی، حماس کی تباہی، فلسطینی گروپوں اور حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنا، اور غزہ کو خالی کرنا نہ یہ مقاصد پورے ہو سکے نہ صہیونی ریاست کے ہاتھ کچھ لگ سکا بلکہ ایک طرف صہیونیوں کے مادی اور معنوی نقصانات کو بڑھا دیا اور دوسری طرف مزاحمت کو مزید فعال اور اس کے نظریے کو عالمی بنا دیا۔
صہیونی حکومت نے اب مجبوری سے حماس کی تمام شرائط کو قبول کرتے ہوئے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ غزہ کی جنگ میں مزاحمت کی کامیابیوں اور صہیونیوں کی شکستوں اور نقصانات کا تجزیہ کرتے ہوئے، فلسطین اور مزاحمت کے مستقبل کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اس تجزیے میں درج ذیل نکات پر توجہ دینا ضروری ہے: غزہ کی جنگ میں صہیونی حکومت کے جرائم، جو امریکہ اور کچھ دیگر مغربی ممالک کی مکمل حمایت کے ساتھ انجام پائے، ان جرائم نے عالمی رائے عامہ کے لیے صہیونیوں اور ان کے حمایتیوں کے ظالمانہ چہرے کو بے نقاب کر دیا۔ اب عوامی رائے، خاص طور پر مغرب میں، فلسطینیوں کو نہ صرف دہشت گرد نہیں سمجھتی بلکہ ایک مظلوم قوم کے طور پر جانتی ہے جس کی سرزمین پر قبضہ کیا گیا ہے اور انہیں اپنے وطن کی آزادی کے لیے لڑنے کا حق حاصل ہے۔ یہ فلسطینی مزاحمت اور اس کے حمایتیوں کے لیے ایک بے نظیر اور انتہائی قیمتی کامیابی ہے۔
غزہ کے عوام کی استقامت اور مزاحمت کی قوت معجزاتی طور پر دنیا کے سامنے آئی۔ اس جنگ میں فلسطینی عوام نے دنیا کو دکھا دیا کہ وہ اپنی مقبوضہ سرزمین کی آزادی کے لیے کسی بھی قسم کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مزاحمت کے حامیوں جیسے ایران، حزب اللہ لبنان، انصار اللہ یمن اور عراقی مسلح گروپوں نے جنگ کے دوران اس طرح عمل کیا کہ فلسطینیوں میں یہ یقین پیدا ہوا کہ قدس شریف کی آزادی اور صہیونی حکومت کے خاتمے کے لیے وہ اکیلے نہیں ہیں۔ اس جنگ میں نہ صرف مزاحمت کی شکست نہ ہونے کا نظریہ ثابت ہوا بلکہ مزاحمت کا نظریہ علاقے سے آگے بڑھ کر عالمی سطح پر پھیل گیا۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد صہیونی حکومت کی شکستیں مزید بڑھ گئیں، اور جنگ کے جاری رہنے سے یہ شکستیں گہری، وسیع تر اور ناقابلِ تلافی ہوتی گئیں۔ عالمی عدالتِ جرائم میں جنگی جرائم کے مقدمے کا کھلنا اور نیتن یاہو اور گالانٹ کے لیے گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونا، صہیونی مجرم اور بچوں کے قاتل کے خاتمے کے لیے ایک نیا باب کھولتا ہے، اور یہ فلسطینیوں اور مزاحمت کے لیے ایک سنہرا موقع فراہم کرتا ہے تاکہ صہیونیوں اور ان کے حامیوں پر ہر پہلے سے دباؤ بڑھایا جائے۔
صہیونیوں کا اقتصادی بحران، سرزمینوں سے سرمایہ کا فرار، اور آئندہ سرمایہ کاروں کی بے رغبتی انہیں آسانی سے نہیں چھوڑے گا۔ مروجہ ہجرت کی صورت حال میں اب نہ صرف اس سرزمین میں آباد ہونے یا ہجرت کرنے کا کوئی شوق نہیں، بلکہ مقبوضہ فلسطین میں آباد بہت سے یہودی اپنے ملک واپس جانے یا دوسری جگہوں پر ہجرت کرنے پر غور کریں گے۔ صہیونی حکومت کی داخلی سلامتی کبھی بھی طوفان الاقصیٰ آپریشن سے پہلے والی حالت میں واپس نہیں آئے گی، اور یہ ان کے لیے ایک تباہ کن مسئلہ ثابت ہو گا، یعنی ایک تدریجی موت جس سے بچا نہیں جا سکتا۔
غزہ کی جنگ میں اتنی بڑی مقدار میں جرائم اور تقریبا پچاس ہزار افراد کی شہادت نے حماس کے نظریہ کو فلسطینی عوام کے دلوں اور دماغوں میں راسخ کر دیا کہ صہیونی ریاست کا خاتمہ ہی ان کا مقصد ہے۔ ہاں، اس طرح کے رجحانات اور واقعات کے ساتھ، فلسطین اور مزاحمت کا مستقبل بہت روشن ہے، اور جیسا کہ اسلامی انقلاب کے حکیم رہنما نے بار بار کہا، صہیونی حکومت کا خاتمہ یقینی اور حتمی ہے۔ ان شاء اللہ۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں