فلسطین کے غاصب پیشواؤں کا تعارف/ جیمز بالفور

یہودی ملک کے قیام کیلئے سب سے پہلے اس شخص نے یوگنڈاکا انتخاب کیا تھا ، لیکن یہودیوں نے اس تجویز کو رد کردیا ۔

فاران؛ جیمز بالفور برطانوی سیاست دان تھا جو 1874ء میں قدامت پسند پارٹی کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا۔ 1891ء میں وزیر خزانہ اور 1902ء تا 1905ء وزیر اعظم رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران میں 1916ء میں لائڈ جارج کی وزارت میں وزیر خارجہ مقرر ہوا۔ 1917ء میں ایک اعلان کے ذریعے (جسے بالفور) کہتے ہیں۔ اس نے یہودیوں کے اس نصب العین کی حمایت کی کہ فلسطین میں یہودیوں کی ایک آزاد اور قومی ریاست بنائی جائے۔ یہ اس خطرے سے بچنے کے لیے بھی تھا کہ کہیں یہودی بڑی تعداد میں برطانیہ نہ آ جائیں۔ 1920ء میں جمعیت الاقوام (لیگ آف نیشنز) کے پہلے اجلاس میں اور 1921ء میں واشنگٹن کانفرنس میں جس کا مقصد بحری افواج اور اسلحہ میں تحفیف کرنا تھا، برطانیہ کی نمائندگی کی۔ 1922ء میں عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی۔ بعد میں دار الامرمیں قدامت پسند پارٹی کا قائد بن گیا۔ کئی فلسفیانہ کتب بھی لکھیں۔

یہودی ملک کے قیام کیلئے سب سے پہلے اس شخص نے یوگنڈاکا انتخاب کیا تھا ، لیکن یہودیوں نے اس تجویز کو رد کردیا ۔
بالفور پکا یہودی تھا اور یہودی مملکت کو فلسطین میں فوری قائم کرنےکیلئے تحریری مسودہ بھی تیار کیا تھا جس کی عبارت کا مفہوم تھا :جیسا کہ دنیا کی چار بڑی حکومتیں اپنے کو یہودیوں کا طرفدار بتاتی ہیں ، ان پر واضح ہونا چاہئے کہ ہمیں فلسطینیوں کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں ہے ہم خواہ حق پر ہوں یا باطل پر، ہمارے مفاد مقدم رکھنا پڑیں گے ان بڑی حکومتوں کو ہماری آرزؤں ، تمناؤں کا خیال رکھنا چاہئے، ہم سات لاکھ فلسطین کےباشندوں پر ہر حال میں مقدم ہیں۔