“قولِ ثابت” ہمارے دور میں اسلامی انقلاب کا نظریہ ہے

آج درندہ صفت لوگ، انسانوں کو بے دردی سے مار رہے ہیں اور ان کے خلاف ایک بے حس اور خاموش انسانیت ہے جو ان درندوں سے بھی بدتر ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے ظلم دیکھتے ہیں لیکن ظلم کی مذمت نہیں کرتے۔
خطبات نماز جمعہ
حجۃ الاسلام و المسلمین سید جواد نقوی
پرنسپل جامعۃ العروۃ الوثقیٰ
بمقام مسجد بیت العتیق 
لاہور پاکستان
خطبہ 1: “قولِ ثابت” ہمارے دور میں اسلامی انقلاب کا نظریہ ہے
خطبہ 2: سید نصر اللہ کے لیے اظہار غم کا ایک طریقہ یہ ہے کہ 7 اکتوبر کو احتجاجی ریلیاں نکالیں
تقویٰ الہی کے زیر سایہ زندگی بسر کریں چونکہ تقویٰ کے دائرہ میں انسان محفوظ ہیں اور انسانی زندگی کا حفاظتی نظام تقویٰ قرار دیا ہے۔
انسانی زندگی کا ایک مرحلہ حیات طیبہ ہے اور اس کے لیے بھی اللہ نے نظام تقویٰ مقرر کیا ہے حیات طیبہ کے مقابلے میں حیات خبیثہ ہے جو تقویٰ الہی سے دوری کا نتیجہ ہے۔
حیات طیبہ وہ حیات ہے جو پاکیزہ، خالص اور ہر طرح کی میل کچیل سے دور ہے لیکن حیات خبیثہ میں آلودگی، ناپاکی اور خباثت ہوتی ہے جس میں کسی چیز کا کوئی اثر نہیں ہوتا نہ تعلیم کا نہ تربیت کا۔
حیات طیبہ کی مثال قرآن کریم نے یوں بیان کی ہے کہ اس کی مثال اس شجرہ طیبہ کی ہے جس کی اصل ثابت اور فرع آسمان میں ہے اور وہ ہر آن پھل دیتا ہے۔ لیکن حیات خبیثہ کی مثال اس شجرہ خبیثہ کی ہے جس کی نہ کوئی جڑ ہو نہ اس کے اندر استحکام ہوتا ہے اور نہ اس کا کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ جب نظام ہدایت سے انسان کا تعلق ختم ہو جائے وہ اس شجرہ خبیثہ کے مانند ہو جاتا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور سوائے ایندھن کے وہ کسی کام نہیں آتا۔
پھر ارشاد رب العزت ہوتا ہے:
اللہ تعالیٰ مومنوں کو دنیا اور آخرت دونوں میں “قول ثابت” کے ذریعے استحکام اور استحکام فراہم کرتا ہے۔ ہم نے اپنی روزمرہ زندگی میں اللہ کے نظام کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے، حالانکہ اللہ نے دنیا اور آخرت دونوں میں ہر چیز کے لیے ایک نظام قائم کر رکھا ہے۔ اور یہ نظام روزانہ کی بنیاد پر نہیں ہے۔ جس طریقے سے شہر میں مونسپلٹی کے اندر روزانہ نئے فیصلے لیے جاتے ہیں ایک کیا کرنا ہے پروردگار عالم کے یہاں ایسا نہیں ہے جب صبح ہو تو اللہ تعالیٰ یہ سوچنے کے بیٹھ جائے کہ کس کو کیا دیا جائے کس کو روزی دوں کس سے روزی چھینیوں کس کو زندگی کو کس سے زندگی چھینوں، کس کو عزت دوں کس سے عزت سلب کروں۔ بلکہ اللہ کا نظام ازلی اور ابدی ہے جس میں اسباب کو متعین اور ان کے اثرات اور نتائج پہلے سے مقرر کر دئیے ہیں  لہذا جب بھی کوئی ان اسباب کو اپنا لے تو ان کے وہی نتائج برآمد ہوں گے جو ہزار سال قبل تھے یا ہزار سال بعد ہوں گے۔ ایک بار نظام قائم ہونے کے بعد، فیصلے ایک بار کیے جاتے ہیں، اور باقی سب کچھ اس کے مطابق ہوتا ہے۔ اللہ کا نظام بہت سیدھا ہے۔ استحکام اور زوال کا ایک اصول ہے جس کا تعین اسباب اور عوامل سے ہوتا ہے۔ اس آیت کے مطابق استقامت “قول ثابت” سے آتی ہے۔ اگر آپ اللہ کے نظام پر عمل نہیں کریں گے تو آپ استحکام حاصل نہیں کر پائیں گے، جیسا کہ جسمانی صحت کو علاج کے لیے دوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ سے شفا حاصل کرنے کا عملی طریقہ یہ ہے کہ دوائیں استعمال کریں اور ڈاکٹروں سے مشورہ کریں۔ ڈاکٹر کے پاس جانے کا مطلب ہے کہ آپ اللہ کے نظام کی پیروی کر رہے ہیں اور اللہ پر ایمان کا ثبوت دے رہے ہیں۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ مومن کس طرح استحکام حاصل کر سکتے ہیں، ہم قرآن کریم کی طرف رجوع کرتے ہیں قرآن کریم نے مومنین استحاکم اور ثبات “قولِ ثابت” کے تصور میں قرار دیا ہے، قرآن کریم اور تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں جہاں پروردگار عالم نے مومنین کو ثبات اور استحاکم عطا کیا ہے۔ اور ساتھ ساتھ باایمان قوم کے زوال کو بھی بیان کیا ہے کہ کن وجوہات کی بنا پر مومنین زوال کا شکار ہوئے ہیں جس طرح ثبات کے لیے ایک نظام مقرر ہے اسی طرح زوال کے لیے بھی نظام معین ہے۔
ثبات کے لیے جو نظام بیان فرمایا ہے وہ قول ثابت ہے اور قول ثابت “کلمہ طیبہ” ہی کی دوسری تفسیر ہے۔ ضرب اللہ مثلا کلمۃ طیبۃ ۔۔۔۔
کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ ہے اور شجرہ طیبہ کی پہلی خصوصیت ہے کہ اس میں ثبات اور استحاکم پایا جاتا ہے کلمہ طیبہ سے مراد مضبوط قوانین، ٹھوس پالیسیاں ہیں جسے اگلی آیت میں ’قول ثابت‘ کا نام دیا ہے۔ یہی قول ثابت یعنی پائیدار نظریہ مومنوں کے لیے استحکام اور ترقی کی دلیل ہے۔ یعنی وہ نظام زندگی اور آئیڈیولوجی جس کی جڑیں مضبوط اور ثابت ہوں، اور وہ محکم دلائل پر قائم ہو خرافات اور افسانوں پر مبنی نہ ہو۔ پیغمبر اکرم (ص) نے سب سےبپہلی چیز جو توحیدی نظام کی صورت میں قوم کے ذریعے متعارف کروائی وہ ’قول ثابت‘ تھی یعنی ایک مستحکم اور مضبوط توحید نظام جسے لوگ پہلے تسلیم نہیں کرتے تھے۔
آیت مومنین سے خطاب کرتی ہے، انہیں ثابت قدمی اور دنیا اور آخرت دونوں کے لیے ایک مضبوط نظریاتی وژن کی یقین دہانی کراتی ہے۔ اپنی بڑی تعداد، وسیع زمینوں، اثاثوں اور آبادیوں کے باوجود، جدید مسلمانوں میں استحکام کا فقدان ہے اور انہیں رسوائی، الجھن اور زوال کا سامنا ہے۔ ان کی زندگی کے وژن میں استحکام کا فقدان ہے یہ ان کے ’قول ثابت‘ کو ترک کرنے کی وجہ سے ہے۔ اللہ ان لوگوں سے استقامت کا وعدہ کرتا ہے جو پختہ نظرئے پر قائم رہتے ہیں۔ آج کے “قولِ ثابت” کی ایک مثال اسلامی انقلاب ہے، جو ایک مضبوط اور مستحکم درخت (شجرہ طیبہ) کی نمائندگی کرتا ہے جس کی جڑیں قرآن و اہلبیت (ع) کی تعلیمات اور توحید اور عقل میں پیوست ہیں۔ امام خمینی (رہ) نے یہی قول ثابت ان لوگوں کے سامنے پیش کیا جو پہلے زوال اور انحطاط کا شکار تھےانہوں نے اسے قبول کیا اور نظام کے استحکام کو یقینی بنایا۔ ایک بات یاد رہے جب بھی اسلامی انقلاب کا تذکرہ ہوتا ہے تو فورا ایران سب کے ذہن میں آ جاتا ہے فارسی زبان بولنے والے ذہن میں آتے ہیں یا ایرانی کلچر و ثقافت کی طرف ہمارا تصور جاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے اگر چہ ایران اور ایرانی قوم اسلامی انقلاب سے وابستہ ہے اور اس سے مستفید ہوئی ہے لیکن ایران اور اسلامی انقلاب لازم و ملزوم نہیں ہیں۔ چونکہ جب اسلامی انقلاب نہیں تھا تب بھی یہ سب چیزیں تھیں۔ اور اگر آج بھی انقلاب نہ ہوتا تو بھی ایران ہوتا اور وہاں ایک حکومت اور کلچر ہوتا۔ انقلاب وہ نظریہ حیات ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے۔
قرآن کا انقلابی نظریہ انسانی زندگی میں استحکام لاتا ہے جو ایرانی، عرب اور پاکستانی سمیت کسی بھی کمیونٹی کے لیے ممکن ہے۔ اس نظریہ کو اختیار کرنے والے مومنوں کو استحکام ملے گا۔ اس انقلاب کو کمزور کرنے کے لیے دنیا بھر میں گزشتہ پینتالیس سالوں سے کوششوں کے باوجود یہ ثابت قدم رہا۔ صدام کی عالمی حمایت سے لے کر تخریب کاری کی متعدد کوششوں تک، “قول ثابت” جسے امام خمینی (رہ) نے پیش کیا، نے بہت سے بحرانوں کا سامنا کیا۔ پندرہ سال پہلے کی ایک تقریر میں، میں نے تیس سالوں کے انقلاب میں تیس بحرانوں پر بات کی تھی، جن میں سے ہر ایک بحران کسی بھی مملکت کو گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہم ابھی تک ہر سال نئے اندرونی یا بیرونی چیلنجوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
تمام طبقات ان بحرانوں میں شامل تھے۔ پہلا بحران “مرجع تقلید” کاظم شریعت مداری سے شروع ہوا جو سب سے پہلے انقلاب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے تھے۔ پھر پہلے صدر بنی صدر فریب میں آ کر اس انقلاب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے آگے بڑھے لیکن وہ سب ناکام ہوئے کیونکہ اللہ نے انقلاب کو مضبوطی عطا فرمائی تھی۔ آج انقلاب کس منزل پر ہے اس کا اندازہ آپ ان کوششوں سے لگائیں جو انقلاب کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پوری دنیا انقلاب کو تباہ کرنے میں ملوث ہے۔ ایران کے تمام ہمسایہ ممالک، عرب اقوام، مغربی ممالک اس کو ختم کرنے میں اس میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ روس، چین جیسے ممالک ایران کے دوست ہیں انقلاب کے نہیں۔ اس پاکیزہ درخت کو ختم کرنے میں تمام مذہبی اور غیرمذہبی لوگوں نے اپنا حصہ ڈالا لیکن وہ ایسا نہ کر سکے۔ یہ درخت اتنا مضبوط تھا کہ آسمان میں اس کی شاخیں نکل آئیں۔ اس “شجرہ طیبہ” کی شاخ “طوبیٰ” کی شاخ ہے اور وہ حزب اللہ ہے۔ اس شاخ کو کاٹنے کے لیے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کیا کوششیں اور آپریشن کیے گئے ہیں۔
1979 میں انقلاب آیا اور 1982 میں یہ شاخ طوبیٰ پھوٹ پڑی اور حزب اللہ وجود میں آئی۔ لوگ اس انقلاب کو ختم کرنے کے درپے تھے لیکن وہ اس شاخ کو توڑ بھی نہیں سکے۔ لیکن انہیں امتحانات سے گزرنا پڑا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایران میں کتنے شہید ہوئے ہیں۔ ایرانیوں نے اپنے شہداء کی باقیات کو محفوظ کر کے ایک خوبصورت کام کیا ہے اور ان شہداء کے لیے الگ قبرستان بنائے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کتنے شہیدوں نے اپنے خون سے اس پاکیزہ درخت کو سیراب کیا اور اسے دوام بخشا۔
دوسری قسم “شجرہ خبیثہ” ہے جس میں دنیا اور آخرت کی زندگی کا کوئی پختہ نظریہ نہیں ہے۔ ان کے پاس زندگی کا ایک بہت ہی کمزور نظریہ ہے، جس کے تحت وہ اس دنیا میں انتہائی لذت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اپنی مرضی سے ہر طرح کی عیش و نوش کرنا چاہتے ہیں اور پھر اس خیال خام میں ہیں کہ آخرت میں ہمارے “امام” ہمیں بچانے کے لیے آ جائیں گے۔ یہ ’قول باطل‘ ہو جو انسان کو نجات نہیں دے سکتا۔ آپ آج کے مسلمانوں کی زندگیاں دیکھ لیں کہ کتنی رسوائیاں ہیں۔ اور شجرہ طوبیٰ کی زندگی کا بھی اندازہ لگا لیں وہ کتنی عزت اور سربلندی سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔
سید نصر اللہ مزاحمت کی پہچان بن گئے اور شہید ہو گئے۔ شہید کے لیے جو انتظام کیا گیا وہ بنکر بلاسٹنگ میزائلوں کے ذریعے بیاسی ٹن بارودی مواد گرایا۔ یہ ایک شخص کو مارنے کے لیے کیا گیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ شخص کون ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر یہ ایک شخص شہید ہو جائے تو نظام نہیں چلے گا۔ پاکستان میں ہمارا غلیظ میڈیا “شجرہ خبیثہ” کی شاخیں ہیں جس کا کوئی پھل نہیں ہوتا۔ آپ نے دہشت گردوں اور مافیا کے ذریعے اپنے ملک کو تباہ کر دیا ہے۔ وہ شخص جو اسلامی انقلاب سے جڑا، اور شجرہ طیبہ سے یہ شاخ طوبیٰ پید ہوئی اور بہت مضبوط ہو گئی۔ میڈیا پر یہ لوگ تجزیہ کر رہے ہیں کہ اب حزب اللہ کا کیا بنے گا۔ وہ صرف دور سے دیکھتے ہیں اور شیطانی وہم و خیال میں مبتلا رہتے ہیں۔ سید نصر اللہ، سید عباس موسوی جب انقلاب شروع ہوا تو اس کا حصہ نہیں تھے۔ یہ اسلامی انقلاب کی خاصیت ہے کہ وہ شاخ طوبیٰ پیدا کر سکتا ہے۔ اگر ایک شاخ کاٹ دی جائے تو دوسری شاخ پیدا کر دے گا۔ نئی شاخ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔
سید نصر اللہ کی شہادت بہت بڑا المیہ ہے وہ منفرد خصوصیات کے حامل تھے، لیکن اس سے اسلامی انقلاب میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی۔ امام خمینی (رہ) کے دور میں انقلاب تباہ کرنے کی بہت سی کوششوں کے باوجود، انقلاب زندہ رہا اور تین دہائیوں تک ان کے ایک شاگرد کی قیادت میں مضبوط ہوا۔ ایسا نہیں ہے کہ نبی کریم (ص) دنیا سے جائیں تو سب کچھ شیطانوں کے ہاتھ میں آ جائے گا اللہ نے اس کا اہتمام کیا ہوا تھا اسی طرح امام راحل کے بعد بھی انقلاب کی حفاظت کے لیے اللہ نے بہترین اہتمام کیا۔ اسلام کا استحکام افراد پر نہیں بلکہ اس کے نظریے اور قول ثابت پر منحصر ہے۔ اگر نظریہ برقرار ہے، تو یہ اہم شخصیات کے جانے کے بعد بھی رہنما پیدا کرتا رہے گا۔ قرآن پوچھتا ہے کہ اگر کوئی نبی مر جائے یا مارا جائے تو کیا کرو گے راستہ چھوڑ دو گے یا اس پر قائم رہو گے؟ نظریے کی پیروی تسلسل کو یقینی بناتی ہے، جبکہ صرف شخصیات پر انحصار کرنے سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ شخصیات موجود ہوں لیکن نظریہ پاکستان کی طرح نہ ہو تو شخصیات کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ جنرل سلیمانی کے بعد نظریہ ختم نہیں ہوا۔ لہٰذا اگر شخصیتیں ختم ہو جائیں اور نظریہ باقی رہے تو اس سے شخصیات پیدا ہوں گی۔ قرآن سوال کرتا ہے کہ اگر نبی شہید ہو جائیں یا مر جائیں تو آپ کیا کریں گے؟ کیا تم راستہ چھوڑ دو گے؟ اگر آپ نے راستہ پکڑا ہے تو آپ راستے پر چلیں گے، لیکن اگر آپ نے صرف شخصیت کو تھام رکھا ہے تو شخصیت چھوڑ کر کہاں جائیں گے؟
آج امام زمانہ (ع) موجود ہیں لیکن شیعوں کا حال دیکھیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ امام موجود ہیں لیکن شیعوں کے پاس “قول ثابت” موجود نہیں ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اللہ انہیں “قول ثابت” کے ذریعے استحکام اور مضبوطی عطا کرے گا اور ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے۔ یہ شہادتیں اس عقیدے کا لازمی جزو ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لشکر بھیجتے تھے تو بتاتے تھے کہ اگر یہ شخص شہید ہو جائے تو اس کے بعد کمانڈر کون ہو گا اور اس کے بعد کون کمانڈر ہو گا۔ جنگ ہو تو شہادتوں کی امید رکھنا چاہیے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ سید نصراللہ کے انتقال سے ایک خلا ہمیشہ موجود رہے گا امام خمینی (رہ) کے خلاء کی طرح جسے کوئی نہ بھر سکا گرچہ رہبر معظم نے اپنی جگہ انقلاب کو چار چاند لگائے اور اسے بہت استحکام بخشا اور انقلاب کو جس چیز کی ضرورت تھی اسے پورا کردیا۔
اس شجرہ طیبہ کی جڑیں کربلا میں پیوست ہیں جہاں کچھ نہیں بچا تھا۔ یہاں تو ابھی بہت کچھ بچا ہے۔ اسرائیل نے زمینی حملہ کیا اور تین دنوں میں انہیں بہت بری طرح سے نقصان اٹھانا پڑا۔ آج یہ خبر بھی ہے کہ حزب اللہ نے ان کے درجنوں فوجیوں کو مار دیا ہے اور وہ حزب اللہ سے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نظام اپنی جگہ پر ہے اور شاخ طوبیٰ کا سربراہ شہید ہو گیا لیکن شجرہ طیبہ کا سربراہ تو ابھی باقی ہے۔ کربلا میں تو کچھ نہیں بچا تھا اور صرف “قول ثابت” رہ گیا تھا۔ حضرت زینب (س) نے “قولِ ثابت” کو شہید نہیں ہونے دیا اور اللہ نے شجرہ طیبہ کو استقامت اور استحکام عطا فرمایا۔ کربلا کے اس “قولِ ثابت” کا ثمر اسلامی انقلاب تھا۔ جو بھی قوم اس “قولِ ثابت” سے وابستہ ہو جائے گی اسے دنیا اور آخرت دونوں میں یکساں پھل ملے گا۔ اور آیت کہتی ہے کہ ظالم ہلاک ہو جائیں گے۔ یہ شہادتیں دنیا کو جگائیں گی۔ عرب دنیا اور ان کے رہنما “شجرہ خبیثہ” ہیں اور دیگر تمام اقوام بھی اسی خبیث درخت کی شاخیں ہیں جن سے ہمیں کسی نتائج کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ ان کا یہ درخت خشک ہو جائے گا۔ اللہ تبارک و تعالی مجاہدین حزب اللہ و حماس کو کامیابی عطا فرمائے اور سید نصر اللہ اور دیگر شہدا کا شمار شہدائے کربلا اور شہدائے اسلام میں کرے۔
خطبہ 2
آج درندہ صفت لوگ، انسانوں کو بے دردی سے مار رہے ہیں اور ان کے خلاف ایک بے حس اور خاموش انسانیت ہے جو ان درندوں سے بھی بدتر ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے ظلم دیکھتے ہیں لیکن ظلم کی مذمت نہیں کرتے۔ غزہ میں اس ظلم کو ایک سال بیت چکا ہے اور 7 اکتوبر کو ایک سال مکمل ہو گا۔ اس سال کے دوران اللہ نے طیب اور خبیث کو الگ کر دیا۔ خبیثیں میں درندے بھی ہیں اور خاموش اور لاتعلق لوگ بھی۔ طیبین میں مجاہدین اور ان کی حمایت کرنے والے، ان کی آواز اٹھانے والے، ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والے، ان کے لیے دعا کرنے والے، ظالموں پر لعنت بھیجنے والے اور ہر قسم کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔ یہ جدائی آ گئی ہے ہمیں ان میں ملاوٹ نہیں کرنی چاہیے۔ آج جو خاموش ہیں ہمیں ان کو الگ کرنا چاہیے۔ جب ہم خبیثین کے درمیان ہوں تو ہمیں اپنے آپ کو پاک رکھنا چاہیے۔ ہم نے جامعہ ام الکتاب میں سال بھر ان ظالموں کے لیے روزانہ آواز اٹھائی ہے۔ اب وہ دن آ گیا ہے جب سب کو ان مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہیے جو غزہ سے لبنان تک پھیل چکے ہیں۔ اور اس کے ساتھ سید نصراللہ کا درد و غم بھی اپنی جگہ ہے۔
اس دکھ و درد کے اظہار کا ایک طریقہ 7 اکتوبر کو اپنے گھروں سے نکل کر سڑک پر آنا ہے پورے پاکستان میں جہاں بھی ہوں اکھٹے ہوں۔ سید نصراللہ کے ساتھ بیعت کا دن ہے۔ رہبر انقلاب بھی شدت سے عزادار ہیں انہوں نے بہت سی شہادتیں دیکھی ہیں لیکن اس شہادت نے ان کے دل پر گہرا درد چھوڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری عزاداری امام حسین کی عزاداری ہے۔ میرا ماتم امام حسین (ع) کا ہے جس سے کربلا کی ہر شہادت سے ان کے عزم کو مزید تقویت ملے گی۔ شہید مطہری کہتے ہیں کہ جب امام حسین (ع) نے شب عاشورہ میں کچھ اشعار پڑھے۔ حضرت زینب (س) نے پوچھا یہ اشعار بتاتے ہیں کہ ہم کل جدا ہو جائیں گے۔ امام نے فرمایا ہاں ایسا ہی ہے۔ خاتون (س) رو پڑیں اور بیہوش ہو گئیں۔ پھر امام حسین (ع) نے کچھ نصیحت کی۔ شہید مطہری کا کہنا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ امام نے بی بی سے کیا کہا لیکن اس خاتون نے بعد میں اپنے بھائی کا سر قلم ہوتے دیکھا لیکن بے ہوش نہیں ہوئی۔ پھر جلے ہوئے خیموں کے ساتھ عاشورہ کی شام کا وقت آگیا لیکن پھر بھی بیہوش نہ ہوئی۔ پھر وہ مرحلہ آیا جہاں آپ نے اپنے بھائی کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے دیکھے لیکن پھر بھی بے ہوش نہ ہوئیں۔ آج ہمارا بھی وہی امتحان ہے۔ یہ شہادتیں اس راہ کی پیشگی شرط ہیں اور ہمیں انہیں صبر و تحمل سے برداشت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو 7 اکتوبر کو ان مظلوموں سے اظہار یکجہتی اور اظہار ہمدردی کے لیے نکلنا ہوگا۔