ماتی کوچاوی کون ہے؟
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ماتی کوچاوی (1)، 1962ع میں پیدا ہؤا ہے وہ ای جی انٹرنیشنل کمپنی (2) کا بانی ہے اور خلیج فارس کے علاقے میں جاسوسی کے آلات کا باپ سمجھا جاتا ہے۔ وہ اسرائیل کا کاروباری اور تاجر ہے جو چھ مہینے مقبوضہ فلسطین میں ہوتا ہے اور چھ مہینے نیویارک میں۔ وہ دنیا بھر میں سائبر سیکورٹی کے سرخیلوں میں شمار ہوتا ہے۔ اسرائیلی فوج کے انٹیلی جنس کے شعبے کا یہ سابق افسر حیفا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہؤا ہے۔ وہ اس میدان کا سرخیل اس لئے ہے کہ اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے گیارہ ستمبر 2001ع کے بعد کے دنوں میں امریکی سیکیورٹی انٹیلی جنس کے شعبے میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد، اس ملک میں سیکیورٹی اور سائبر انٹیلی جنس سے متعلق پہلی کمپنیوں کی بنیاد رکھی۔
عالمی سطح پر جدید سیکورٹی-انٹیلی جنس نظام کی تشکیل کے سالوں کے دوران ماتی کوچاوی نے اپنی توجہ ایسے شعبے پر مرکوز کرلی جس نے 11 ستمبر کے واقعے کے بعد تیزی سے فروغ پایا اور آج یہ شعبہ بڑی اور چھوٹی طاقتوں کے مقابلے کا میدان بن چکا ہے: سائبر اسپیس۔
کوچاوی کی سرگرمیوں اور کارکردگی کی کیفیت کے جائزے سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے ایک واضح اور پہلے سے منصوبہ بند راستہ طے کیا ہے اور اب وہ اس مقام پر ہے جس کے بارے میں وہ شروع سے سوچ رہا تھا۔ “نئے عالمی نظام (New World Order)” کے نظریئے کے نفاذ کے ابتدائی سالوں میں، سائبر کے شعبے میں – وہ بھی سیکورٹی کے میدان میں – داخل ہوکر سائبر سیکورٹی کی ایک نئی تعریف فراہم کی۔ گوکہ یہ شعبہ ابتدائی سالوں میں اپنے ابتدائی دور سے گذر رہا تھا اور ابھی اس سے بہت مختلف تھا جسے آج ہم “سائبر سیکیورٹی” کے نام سے جانتے ہیں، لیکن کوچاوی بخوبی جانتا تھا کہ اس میدان کو کیوں اور کیسے شکل دینا ہے۔ کوچاوی حالیہ دو عشروں کے دوران جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے بہت مشہور رہا اور اشیاء کے انٹرنیٹ (Internet of Things [IoT]) مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) اور ذہین شہروں (Smart cities) کے لئے ضروری حکمت عملیوں کے سرکردہ افراد میں شمار ہوتے رہے ہیں۔ سال 2007ع میں اس نے ای جی اینٹرنیشنل کی بنیاد رکھی اور بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری افراد اور اداروں کے ساتھ معاہدے منعقد کئے کیونکہ وہ [بظاہر] سائبر اسپیس کی وجہ سے درپیش پیچیدہ چیلنجوں اور خطرات کا اندازہ لگانے میں ان کی مدد اور ان سے نمٹنے اور ضرورت کے وقت ضروری انتظام و انصرام کے لئے تیار کرنا چاہتا تھا۔ یہ خدمات بنیادی ڈھانچے کی صنعتوں کی وسیع حدود کے اندر فراہم کی جاتی ہیں؛ بشمول شہری انتظام، صحت اور علاج معالجے کی دیکھ بھال کا انتظام، سائبر اسپیس، اور غذائی تحفظ وغیرہ۔ (3) دوسری طرف سے کوچاوی متحدہ عرب امارات میں ریشہ دوانی کرنے والا پہلا اسرائیلی ہے اور امارات کی طرف سے غاصب ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے غدارانہ اقدام سے بہت پہلے سائبر اور فزیکل سیکورٹی کے شعبوں میں بڑے بڑے معاہدے منعقد کئے۔
کوچاوی نے ذرائع ابلاغ کے سلسلے میں بھی سرگرمی دکھائی ہے۔ سنہ 2013ع میں اس نے نیویارک میں ووکاٹو (4) کمپنی کی بنیاد رکھی۔ ووکاٹو ویڈیو مواد پر مبنی اخباری ویب گاہ ہے جو “ویب کی گہرائی” (5) سے ڈیٹا مائننگ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتی ہے، ایسا مواد جو انٹرنیٹ میں سادہ تلاش کے ذریعے قابل دسترس نہیں ہے، بشمول ویب کمیونٹی کا مواد، ڈیٹا بیسز، دستاویزات، عام دستاویزات، سوشل نیٹ ورکس، چیٹ رومز، آن لائن اسٹورز وغیرہ۔ اور یوں رپورٹ کا موضوع تلاش کیا جاتا ہے اور ہیں اور ان کی بنیاد پر تازہ مواد (First hand content) تیار کیا جاتا ہے۔
ووکاٹو کمپنی ڈیٹا اکٹھا کرنے اس کا تجزیہ کرنے والا سافٹ ویئر استعمال کرتی ہے جو عام طور پر حکومتوں کے زیر استعمال ہے اور ایسی ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتی ہے جو جاسوسی کے لئے بھی قابل استعمال ہیں۔ ووکاٹو کمپنی درحقیقت صحافت کے لئے ایک نیا طریقہ اختیار کرتی ہے اور، ایک طرح سے، ابلاغی سرکاری جاسوسی روشوں کو بروئے کار لا کر، ابلاغی مواد تیار کرتی ہے۔ (6)
کوچاوی نے ڈارک نیٹ (7) کے عنوان سے ایک ٹی وی ڈاکومینٹری سلسلہ تیار کیا ہے جو ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے پوشیدہ اور تاریک پہلوؤں کا جائزہ لیتی ہے؛ جیسے سائبر اسپیس پر یرغمال بنانا، (cyber hostage-taking) حیاتیاتی ہیکنگ، ڈیجیٹل وارفیئر، آن لائن کلٹس، فحش نگاری کی لت، اور آن لائن جنسی سرگرمیاں۔ (8)
کوچاوی نے اپنی بیٹی مایا کوچاوی (9) کے ساتھ مل کر سنہ 2019ع میں “ایوا کی داستان” کا تاریخی منصوبہ شروع کیا جو کہ ایوا ہیمین (10) کی مبینہ ذاتی یادداشتوں کی ڈائری کی بنیاد پر ایک تعاملی دستاویزی فلم (Interactive documentary) ہے۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ایوا ہیمین ایک 13 سالہ ہنگرین تھی جو مبینہ ہالوکاسٹ کے دوران ماری گئی تھی۔ اس دستاویزی فلم کا نام ” کیا ہوتا اگر ہولوکاسٹ میں کسی لڑکی کے پاس انسٹاگرام ہوتا” (11) یہ دستاویزی فلم ایک انسٹاگرام پیج کے سانچے میں “ایوا کی داستانیں” (12) کے نام سے نشر کی گئی۔ اس فلم میں اسی مبینہ ڈائری کی بنیاد پر کچھ تصویریں مختصر سے ویڈیو کلپس پر مشتمل ہے۔ انسٹاگرام پر یہ مواد 2 مئی 2019ع کو ہالوکاسٹ کی برسی کے موقع پر نشر کیا گیا۔ ایوا کی داستانیں نامی انسٹاگرام اکاؤنٹ کو اب تک اکیس لاکھ افراد نے فالو کیا ہے اور اس کو 30 کروڑ بار دیکھا گیا ہے۔ (13)
نیز کوچاوی نے “کوچ اے آئی (14) کے عنوان سے ایک اسٹارٹ اپ کی بنیاد رکھی ہے اور اسی راستے سے کھیلوں کے شعبے میں بھی داخل ہؤا ہے۔ اس اسٹارٹ اپ نے پرفیکٹ پلے (15) کو ڈیزائن کرکے پیش کیا ہے جو کمپیوٹر کی پیشین گوئی اور افزودہ حقیقت (Augmented reality) کی مدد سے کھلاڑیوں کی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے۔ (16) بطور مثال صارفین کو پیشہ ور کھلاڑیوں کی طرح فٹ بال کھلاڑیوں کی طرح مشق کرنے کا امکان فراہم کرتا ہے۔ (17) اس ایپلیکیشن کو چیلسی فٹ بال کلب نے سنہ 2020ع میں استعمال کیا۔ (18)
من حیث المجموع کہا جا سکتا ہے کہ کوخاوی – سائبر سیکورٹی کے آلات اور حکمت عملیوں کے شعبے میں دو اثرگذار کمپنیوں کی بنیاد رکھ کر – اشیاء کے انٹرنیٹ کے میدان کے ابتدائی بازیگروں کے زمرے میں بھی قرار پایا۔ کیونکہ آلات اور حکمت عملیوں کی ڈیزائننگ میں اس کی روش سائبر اسپیس اور حقیقی دنیا کے درمیان مؤثر رابطہ قائم کرتی تھی۔ بایں معنی کہ اس کی کمپنیوں کے بنے ہوئے آلات اور حکمت عملیاں ایک سینسر (Sensor) نیٹ ورک اور ڈیٹا اکٹھا کرنے والے آلات کے ذریعے سے کام کرتی تھیں جو ڈیٹا کی بڑی مقدار کی تیاری کا باعث بنتی ہیں اور پھر پروسیسنگ-تجزیاتی پلیٹ فارم میں سیکورٹی معلومات میں بدل جاتے ہیں اور وہ معلومات مختلف مقاصد کے حصول کو عملی شکل دیتی ہیں۔
ذیل میں، ہم اس عمل اور ان کمپنیوں اور سرگرمیوں کو بیان کریں گے جنہیں کوچاوی نے اس روش سے قائم کیا اور – خاص طور پر متحدہ عرب امارات میں – سائبر سیکیورٹی کا گاڈ فادر بن گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[…] تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ حفاظتی سلوشنز کی 4D کمپنی (19) (جس کو اگلی سطور […]