متحدہ عرب امارات کی اسرائیل “کی تیسری آنکھ” میں سرمایہ کاری
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: متحدہ عرب امارات کی ایک اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنی میں سرمایہ کاری ابوظبی اور تل ابیب کے تعلقات میں ایک نئے مرحلے کے آغاز کی نشاندہی کرتی ہے۔
فارس پلس گروپ: اسرائیلی دفاعی ٹیکنالوجی کمپنی “تھرڈ آئی سسٹمز” (Third Eye Systems) نے اعلان کیا ہے کہ اس نے اپنے 30 فیصد شیئرز متحدہ عرب امارات کی سرکاری دفاعی کمپنی “ایج” (EDGE) کو 10 ملین ڈالر میں فروخت کر دیے ہیں۔
یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں جنگ بندی کے چند روز بعد ہی متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے فوجی تعلقات کی ایک اور تصدیق ہوئی ہے۔
تھرڈ آئی سسٹمز ایسی ٹیکنالوجی تیار کرتی ہے جو ڈرونز اور بغیر پائلٹ کے فضائی گاڑیوں کی شناخت کر سکتی ہے اور یہ اسرائیلی فوج اور نیٹو کے بعض رکن ممالک کو یہ ٹیکنالوجی فراہم کرتی ہے۔
اس کے علاوہ، اماراتی کمپنی ایج (EDGE) نے پیر، 27 جنوری 2025 کو اعلان کیا کہ وہ ایک مشترکہ اسرائیلی منصوبے میں 12 ملین ڈالر کی اضافی سرمایہ کاری کرے گی، جس میں “تھرڈ آئی سسٹمز” کا 43 فیصد شیئر ہے اور یہ کمپنی اس منصوبے میں سب سے بڑی حصہ دار ہے۔ اماراتی کمپنی ایج کے مطابق، اس منصوبے میں ایک تیسرا فریق 6 فیصد سرمایہ کاری کر رہا ہے، مگر اس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔
اس معاہدے پر دستخط کے بعد، “تھرڈ آئی سسٹمز” نے ایک بیان میں کہا کہ یہ سرمایہ کاری کمپیوٹر ویژن ڈیٹا کے تجزیہ کے نظام کی ترقی اور تجارتی سطح پر استعمال کو بڑھائے گی۔ ایج کی سرمایہ کاری کو “تھرڈ آئی سسٹمز” نے ایک اسٹریٹجک شراکت داری کے طور پر بیان کیا ہے، جو ایک عالمی سطح پر زبردست دفاعی اور ٹیکنالوجی کے گروپ کے ساتھ کی جا رہی ہے۔
“تھرڈ آئی سسٹمز” کے سی ای او، لیور سیگال نے ایج کے ساتھ اس شراکت داری کو ایک اہم لمحہ قرار دیتے ہوئے کہا: “یہ تعاون ہماری کمپنی کی ترقی میں تیزی لائے گا اور اس کی ٹیکنالوجی کی صلاحیتوں کو بڑھائے گا؛ اس سے ہمیں جدید انداز میں نئی کامیابیاں حاصل کرنے اور عالمی مارکیٹوں میں اپنے آپ کو مزید پھیلانے کا موقع ملے گا۔”
دوسری طرف، “رودریگو ٹورس”، جو اماراتی کمپنی EDGE کے صدر ہیں، نے اس معاہدے پر دستخط کے بعد کہا کہ یہ معاہدہ دونوں فریقوں کے لیے فائدہ مند ہے اور بلا شبہ نئے سسٹمز کی ترقی کو تیز کرے گا۔ Third Eye Systems کی رسمی ویب سائٹ پر یہ کمپنی خود کو ایک تحقیقی اور ترقیاتی کمپنی کے طور پر متعارف کراتی ہے جس کی بنیادی سرگرمی اشیاء کی شناخت کی ٹیکنالوجی پر مرکوز ہے۔ کمپنی کے شیئرز کی قیمت میں گزشتہ 15 ماہ میں، یعنی 7 اکتوبر 2023 کے بعد جب سے اسرائیل کی غزہ کی پٹی میں جنگ شروع ہوئی اور اسرائیل کی فوج کو ہتھیاروں کی فراہمی کے لیے نئے معاہدے کیے گئے، نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ لندن اسٹاک ایکسچینج کے ڈیٹا کے مطابق، Third Eye Systems کے شیئرز کی قیمت غزہ کی جنگ کے آغاز کے بعد 51 فیصد بڑھ کر 333.8 شیکل (92.29 ڈالر) تک پہنچ گئی ہے۔ EDGE گروپ، جو 35 سے زیادہ کمپنیوں پر مشتمل ہے، امارات کا سب سے بڑا اسلحہ ساز اور دنیا کے اہم ترین گائیڈیڈ ایمونیشن سپلائرز میں سے ایک ہے اور یہ اماراتی حکومت کے زیر ملکیت ہے۔ اس کمپنی نے 2021 میں اسرائیلی ایرو اسپیس انڈسٹریز کے ساتھ بغیر پائلٹ جہازوں کی ترقی میں اپنے تعاون کا اعلان کیا تھا، جو مشنوں میں شامل ہیں جیسے سب میرینز کی شناخت۔
کمپنی Third Eye Systems نہ پہلی ہے اور نہ آخری۔
گزشتہ سال مئی میں، اسرائیل کے غزہ پٹی میں نسل کشی کی جنگ کے عروج کے دوران، اسرائیلی وزارت جنگ نے “البیت سسٹمز” کمپنی کے ساتھ نئے ہتھیاروں کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کا اعلان کیا، جو کہ امارات کے ساتھ وسیع تعلقات رکھتی ہے۔ البیت سسٹمز اسرائیل کی سب سے اہم کمپنیوں میں سے ایک ہے جو اسلحہ سازی اور جدید ٹیکنالوجیز کے شعبے میں سرگرم ہے اور دنیا بھر میں حملہ آور اور فوجی نظاموں کی ترقی اور درآمد میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ کمپنی خاص طور پر فوجی مقاصد کے لیے ڈرونز اور بغیر پائلٹ طیاروں کی ترقی اور پیداوار میں سرکردہ ہے، ساتھ ہی یہ آپٹیکل، الیکٹرو آپٹیکل سسٹمز اور فضائی دفاعی نظاموں میں بھی مہارت رکھتی ہے۔ البیت سسٹمز کئی سالوں سے اسرائیلی فوج کے ساتھ متعدد معاہدوں پر دستخط کر رہی ہے، جن میں سے ایک اہم معاہدہ مغربی کنارے میں دیوارِ حائل پر نصب نگرانی اور الرٹ سسٹمز کی فراہمی ہے تاکہ فلسطینیوں کی نقل و حرکت کو کنٹرول کیا جا سکے۔ اسرائیل اور امارات، بحرین، مراکش، اور سوڈان کے درمیان معمول پر آنے والے معاہدوں نے البیت سسٹمز کے لیے ان ممالک کے بازاروں میں قدم رکھنے کا موقع فراہم کیا اور ان میں اپنی فوجی فروخت کو بڑھانے کا موقع دیا۔
صرف نظر از فروخت اور اسکے بازاروں اس کمپنی نے ان ممالک کے ساتھ تعاون بھی شروع کیا، جن میں 2021 میں امارات نے اس کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے اور اس کے نئے دفتر “البیت سسٹمز امارات” (Elbit Systems Emirates – ESE) کو کھولنے کا اعلان کیا، جس کا مقصد اماراتی مسلح افواج کے ساتھ کمپنی کے طویل المدتی تعاون کو فروغ دینا تھا۔ البیت سسٹمز کے بین الاقوامی مارکیٹنگ اور کاروباری ترقی کے ایگزیکٹو نائب صدر “ران کریل” نے اس کمپنی کے لیے عربی بازاروں میں، بشمول امارات میں داخلے کو بہت اہمیت دی، لیکن انہوں نے زور دیا کہ ان ممالک میں، بشمول امارات، مارکیٹ میں داخل ہونے سے زیادہ اہم چیز ان ممالک کی طرف سے البیت میں سرمایہ کاری ہے۔ البیت سسٹمز نے 2023 میں ابوظبی میں ہونے والی بین الاقوامی دفاعی نمائش IDEX میں بطور پہلی اسرائیلی کمپنی شرکت کی۔ اس کے علاوہ، اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنی “رافائل” کے ساتھ امارات کے بہت قریب تعاون اور سرمایہ کاری کو بھی ذکر کرنا ضروری ہے، جو البیت سسٹمز کی طرح اسرائیلی فوج کے ساتھ متعدد معاہدوں میں ملوث ہے اور غزہ کی جنگ کے دوران اسرائیلی فوج کے ہتھیاروں کا ایک اہم حصہ فراہم کیا ہے۔
امارات اور اسرائیل کے اقتصادی تعلقات
اگرچہ اسرائیل اور امارات کے اقتصادی اور تجارتی تعلقات ابراہیمی معاہدے کے دستخط کے بعد بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں اور مختلف جہتوں میں پھیل چکے ہیں، لیکن اس سے پہلے بھی ایسے تعلقات موجود تھے۔ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ ابراہیمی معاہدے کے دستخط سے پہلے، خلیج فارس کے عرب ممالک بشمول امارات کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات سالانہ تقریباً ایک ارب ڈالر کے تھے، جو زیادہ تر ان ممالک کی یورپی دفاتر میں موجود کمپنیوں کے ذریعے کیے جاتے تھے۔ امارات اور اسرائیل کے تجارتی تعلقات 2021 کے آخر میں، یعنی ایک سال بعد ابراہیمی معاہدے کے دستخط کے، صرف سیاحت اور سرمایہ کاری کے شعبوں کو چھوڑ کر ایک ارب ڈالر سے زائد پہنچ گئے۔ امارات نے اسرائیل کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کے حوالے سے اپنے منصوبوں کا اعلان کیا، ابو ظبی نے کہا کہ وہ آئندہ ایک دہائی میں اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات اور اقتصادی تعلقات کو ایک ہزار ارب ڈالر تک بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسرائیل کی جدید ٹیکنالوجیز امارات کے لیے بہت اہم ہیں، حالانکہ ابو ظبی نے کہا کہ وہ ان ٹیکنالوجیز کو زرعی، موسمیاتی اور صحت کے شعبوں میں استعمال کرے گا، لیکن ان کا سب سے اہم استعمال مالیاتی اور خاص طور پر سیکیورٹی کے شعبوں میں ہو گا۔
عادی تعلقات کے معمول پر آنے کے چند ماہ بعد امارات نے اسرائیلی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور اس رژیم کے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا۔ ان میں سے ایک سب سے بڑا معاہدہ ایلات میں ایک بندرگاہ کی تعمیر اور سرخ سمندر سے بحیرہ روم تک تیل اور گیس کی پائپ لائن کی منصوبہ بندی تھی، جسے ماحولیاتی وجوہات اور ماحولیاتی کارکنوں کے احتجاج کی بنا پر ابھی روک دیا گیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ابو ظبی اپنے علاقائی سرمایہ کاری منصوبوں کے پردے میں خاص طور پر اسرائیل کے ساتھ اپنی ترقی پسند پالیسیوں کو آگے بڑھا رہا ہے۔ یہ اسرائیلی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے ایک موقع تھا کہ وہ امارات کے بازار میں قدم رکھیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق اسرائیلی کمپنیاں جیسے “فِنٹیک رپیڈ” (Fintech Rapyd) نے امارات میں دفاتر کھولے۔ اسی طرح، “اور کراوڈ” (Our Crowd) نامی سرمایہ کاری کمپنی نے اعلان کیا کہ اس نے ابوظبی کے بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنا دفتر کھولا ہے اور اماراتی اور علاقائی اسٹارٹ اپ کمپنیوں کے ساتھ اپنے تعاون کو بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسرائیلی کمپنیوں کی امارات میں موجودگی کے بدلے، “ابوظبی انویسٹمنٹ آفس” نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیلی کمپنیوں کو جو امارات کے مالیاتی اور تجارتی مراکز میں سرمایہ کاری کریں، تقریباً 500 ملین ڈالر کی بلاعوض مدد فراہم کرے گا۔ 2022 میں، عادی تعلقات کے معاہدے کے ایک سال بعد، امارات اور اسرائیل کے درمیان تجارت 3.3 ارب ڈالر تک پہنچ گئی، اور 2023 میں یہ 2.95 ارب ڈالر تک پہنچ گئی، جس کا بیشتر حصہ “ہیرا” کی تجارت پر مشتمل ہے۔
امارات کی اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں پر ہونے والے جرائم میں شرکت
جبکہ اسرائیل کی غزہ پٹی میں نسل کشی کی جنگ کا آغاز دنیا بھر میں شدید تنقید کا شکار ہوا اور کئی ممالک نے کم از کم رسمی طور پر اپنے تعلقات کو اسرائیلی حکومت کے ساتھ کم کرنے کی کوشش کی، امارات جنگ کے آغاز سے لے کر آخر تک ہمیشہ اسرائیلی حکومت کا حامی رہا اور اس حمایت کو بے جھجک جاری رکھا۔ جہاں یہ سوچا جا رہا تھا کہ امارات کی اسرائیل سے حمایت صرف سیاسی، میڈیا اور اقتصادی سطح تک محدود ہے، یہ معاہدہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ حمایت اب فوجی اور اسلحہ سازی کے میدان میں بھی شامل ہو چکی ہے تاکہ فلسطینیوں کے خلاف قتل عام اور کچلنے کے لیے استعمال کی جا سکے۔ جس دوران اسرائیلی حکومت جدید تاریخ کی سب سے بڑی نسل کشی کر رہی ہے اور اپنے توسیعی اہداف کے بارے میں کھل کر بات کر رہی ہے، ابو ظبی اور تل ابیب کے درمیان تعلقات ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ یہ تعاون ثابت کرتا ہے کہ امارات فلسطین کے مختلف علاقوں کی قبضے میں اور اسرائیلی فلسطین کے ہمسایہ ممالک جیسے لبنان اور شام میں بھی حصہ دار ہے، نیز فلسطینیوں کے قتل عام میں بھی اس کی شرکت ہے، اور یہ خطے کے مستقبل کے لیے ایک بڑی خطرہ ہے، خاص طور پر جب کہ اس میں اسرائیل کے ساتھ مزید علاقائی تعلقات کی عادی سازی کے عمل کا آغاز ہو رہا ہے، جس میں ٹرمپ کا وائٹ ہاؤس میں آنا اہم ہے۔
https://farsnews.ir/zafarani/17382
تبصرہ کریں