اسرائیل کا ڈوبتا ہؤا سورج؛ 2

محورِ مقاومت؛ ایک ڈراؤنا خواب جس نے غاصبوں کی نیندیں چھین لی ہیں

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: مگر ان تمام اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کے باوجود، جن کا غاصب صہیونیوں کو سامنا ہے، اشاریہ جات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل کو درپیش سب سے بڑا خطرہ محور مقاومت کی طاقت میں زبردست اضافہ ہے اور یہ کہ صہیونی ریاست اس طاقت سے نمٹنے سے قاصر و عاجز […]

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: مگر ان تمام اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کے باوجود، جن کا غاصب صہیونیوں کو سامنا ہے، اشاریہ جات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل کو درپیش سب سے بڑا خطرہ محور مقاومت کی طاقت میں زبردست اضافہ ہے اور یہ کہ صہیونی ریاست اس طاقت سے نمٹنے سے قاصر و عاجز ہے۔
اسرائیلی ابتدائی مرحلے میں اس نتیجے پر پہنچے کہ محور مقاومت کے راہبر و راہنما “اسلامی جمہوریہ ایران” کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں اور یہ ناممکن ہے کہ ایران اپنی علاقائی اور بین الاقوامی پوزیشن، جوہری صلاحیتوں نیز بیلیسٹک میزائلوں اور جدید ترین ڈرون طیاروں کی تیاری کی صلاحیت سے پسپائی اختیار کرے۔ چنانچہ اب ان کا خیال ہے کہ علاقائی اور بین الاقوامی سطحوں پر ایران کی پوزیشن بدلنے کی ہر کوشش بیہودہ اور مہمل ہے اور انہیں یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ ایران کا مقابلہ بے فائدہ اور بے ثمر ہے اور ایران کے خلاف کوئی بھی اقدام اسرائیل کو وجودی بحران سے دوچار کرے گا۔
جہاں تک حزب اللہ لبنان کا تعلق ہے تو صہیونی ریاست سنہ 2000 اور سنہ 2006ع‍ میں لبنانی مقاومت کے ساتھ جنگ کا تجربہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اسے حزب اللہ کے متعین کردہ قواعد کو تسلیم کرنا چاہئے؛ اور پھر حالیہ دو دہائیوں کے دوران حزب اللہ کے ٹھیک نشانے پر لگنے والے ہزاروں میزائل اور ڈرون طیارے نہ صرف قدس شریف کے غاصبوں کے لئے سب سے بڑا ڈراؤنا خواب بنے ہوئے ہیں اور اسی حقیقت نے صہیونیوں کو لبنانی مقاومت کے خلاف کسی بھی قسم کے جارحانہ اقدام سے باز رکھا ہے۔ لیکن ایران اور حزب اللہ کے علاوہ، فلسطین میں اندرونی سطح پر نئے قواعد کے معرض وجود میں آنے سے، اسرائیل کے مستقبل کے بارے میں فکرمندیوں اور اندیشوں میں شدت آئی ہے۔

فلسطینیوں کا اتحاد اور صہیونیت کے خوابوں کی چکنا چوری
اس سلسلے میں پہلی بات کا تعلق فلسطینیوں کے ہمہ جہت اتحاد سے بنتا ہے جو فلسطین کے مختلف علاقوں کی جغرافیائی خصوصیات سے درکنار، پہلا موضوع فلسطینیوں کا جامع اور وسیع البنیاد اتحاد ہے، جس نے فلسطین کے مختلف حصوں کی جغرافیائی خصوصیات سے قطع نظر، اس کے تمام باشندوں، حتیٰ کہ 1948 کے مقبوضہ علاقوں کے فلسطینیوں کو بھی ایک دوسرے سے متحد کرکے رکھ دیا ہے اور اب سب نے مقاومت (مزاحمت) کا راستہ اختیار کیا ہؤا ہے، اور رائے شماریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی – جو غاصب ریاست کے اداروں سے ہم آہنگ ہوکر کاروائی کرتی ہے – کو اپنا ترجمان نہیں مانتے۔
اگلا مسئلہ مقاومتی صلاحیتوں کی سطح میں نمایاں بہتری اور تحریک مزاحمت کے جدید ہتھیاروں سے لیس ہونے سے متعلق ہے، یہاں تک کہ فلسطینیوں کی کنکریوں کی انتفاضہ تحریک آج میزائل انتفاضہ تحریک میں بدل چکی ہے۔ چنانچہ مغربی کنارے کے مختلف علاقوں اور بیت المقدس اور غزہ کی پٹی نیز سنہ 1948ع‍ کے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کی اسرائیل کی کوششیں ناکام ہو گئی ہے اور صہیونیوں کو یہ احساس ہو ہی گیا ہے کہ نئے مرحلے میں انہیں تمام فلسطینیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
فلسطینیوں کے درمیان اس وسیع البنیاد اتحاد کا ایک نمایاں ترین اشاریہ ان کی استشہادی کاروائیوں میں قابل مشاہدہ ہے، جس کی وجہ سے مقبوضہ فلسطین کا کوئی بھی علاقہ صہیونیوں کے لئے – مزید -محفوظ نہیں رہا ہے۔ صرف حالیہ چھ ہفتوں سے اب تک ہونے والی استشہادی کاروائیوں میں 19 صہیونی ہلاک اور 31 زخمی ہوئے ہیں۔