مراکش پر اسرائیلی قبضے کا خطرہ/ اسرائیل کی مراکش منتقلی کی سازش؟
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: مراکش میں “اسرائیل کو معمول پر لانے” کے امریکی-صہیونی فتنے کی نگرانی کرنے والے مرکز (Observatory) کے سربراہ “احمد ویحمان” نے اس شمالی افریقی مسلم ملک میں 20 لاکھ یہودیوں کی آبادکاری کے منصوبے کا انکشاف کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ “اسرائیل” مراکش پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اب جبکہ فلسطین میں 75 برس ظلم و ستم اور کشت و خون کے بعد ناکام ہونے والی غاصب اسرائیلی ریاست کو اس ملک میں مزید قدم جمانے کا امکان فراہم نہیں ہو رہا ہے تو ویحمان نے ایک اخباری انٹرویو میں کہا: “اسرائیل کی مراکش منتقلی” کی غرض سے رابطہ کاری کی میٹنگیں مسلسل جاری ہیں، جن میں “الدار البیضاء” نامی فورم بھی شامل ہے، جو مراکش کے بادشاہ کی نگرانی میں “رباط اور تل ابیب کے درمیان ڈھانچوں کو یکجا” کرنا چاہتا ہے۔
انھوں نے اسلامی ملک مراکش میں 20 لاکھ یہودیوں کی آبادکاری کے سلسلے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ “یہودی گروپوں کی لہریں مراکش کی طرف پیشقدمی کر رہی ہیں” اور مراکش “نئے دور” میں داخل ہو رہا ہے۔
ویحمان کے بقول، اس “نئے دور” کی نشانیوں میں سے ایک غاصب ریاست کے یوم تاسیس “15 مئی” کو “مراکش فورم” کے قیام کا اعلان ہے۔ اس نئے دور کی دوسری نشانی یہ ہے کہ ہر بہانے سے کسی اسرائیل حکمران، اہلکار یا سیاسی و سماجی شخص کو مراکش میں بلایا جاتا ہے، اور فوجی مشقوں میں اسرائیلی فوجیوں کو شرکت کرنے کی دعوتیں دی جاتی ہیں، یہاں تک کہ رباط اور دارالبیضاء میں ایک صہیونی ٹی وی چینل کے دو مقاوامی دفتر قائم کئے گئے ہیں۔
مراکش بھجوائے جانے والے صہیونی وفد کے سربراہ ڈیویڈ گورین نے کہا: مراکش کی فوجی مشقوں میں اسرائیل کی شرکت ایک نیا قدم ہے جو اسرائیل اور مراکش کے درمیان سیکورٹی تعلقات کو تقویت پہنچاتا ہے؛ اور یہ تعلقات معاشی، ثقافتی تربیتی، کھیل کود وغیرہ کے وسیع دو طرفہ تعاون کا ایک حصہ ہیں۔
آندرے آزولائے (André Azoulay) مراکش کے بادشاہ محمد ششم کا یہودی مشیر ہے۔ وہ قبل ازیں شاہ حسن دوئم کا مشیر بھی رہا ہے، وہ مبینہ “تہذیبوں کے اتحاد” کے ایلڈرز کمیٹی کا رکن اور سہ تہذیبی فاؤنڈیشن نیز شمعون پیریز امن مرکز کا سربراہ بھی ہے۔ آزولائے موناکو کا خیرسگالی سفیر ہے جس کو صہیونی ریاست کی بن گوریون یونیورسٹی نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے بھی نوازا ہے۔ ایک ایسے شخص کا مراکشی بادشاہ کے پہلو بہ پہلو بیٹھنا بھی ہرگز بے معنی نہیں ہو سکتا۔
مراکش اور صہیونی ریاست کے حالات و واقعات پر نظر رکھنے والے لوگ بخوبی دیکھتے ہیں کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ صہیونیت اور یہودیت ایک ہیں اور ان دو کے درمیان جان بوجھ کر یکسانیت پر زور دیا جاتا ہے، اور صہیونیت کو یہودیت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ صہیونیت اور یہودیت کے درمیان فرق ہے؛ یہودی اپنے آپ کو ایک آسمانی مذہب کے پیرو سمجھتے ہیں جبکہ صہیونیت ایک نسل پرستانہ نظریہ ہے جو فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے بے گھر کرکے فلسطین کو یہودیوں کی قومی سرزمین کے طور پر پیش کرتا ہے۔
بدقسمتی سے مراکش اور بعض عرب ممالک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو صہیونیوں کو – جو نہ صرف فلسطینیوں کے بلکہ کسی استثناء کے بغیر مراکشیوں، عربوں، اور تمام مسلمانوں اور عیسائیوں سمیت تمام غیر یہودیوں کے دشمن ہیں – یہودیوں کے طور پر متعارف کراتے ہیں، اور بقول ان کے، آپ (بطور مسلم) ان کے ساتھ دوستانہ رابطہ قائم کر سکتے ہیں کہ ان کے بقول یہ یہودی ہیں اور ایک الٰہی دین کے پیروکار ہیں؛ چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ عرب معاشروں میں صہیونیوں کا اثر و رسوخ ان معاشروں کے امن اور سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور فلسطین کے بعد اس خطرے کا براہ راست نشانہ مراکش ہے؛ اور خطرے کی گھنٹی صہیونیوں کو معمول پر لانے اور اسلامی معاشروں کے درمیان کھپانے کی سازش کی نگرانی کرنے والے مراکشی ادارے کے سربراہ ڈاکٹر احمد ویحمان نے بجا دی ہے؛ مراکش کو تو ہوشیار ہونا ہی چاہئے لیکن ہدف چونکہ پورا عالم اسلام ہے لہٰذا دنیا کے مسلمانوں کو بھی دشمن کی سازش ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور مراکش سمیت تمام اسلامی ممالک کو بھی اپنے آس پاس کا خیال رکھنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ ڈوبتی صہیونیت کا ہاتھ کہیں ان کے گریبان کے قریب تو نہیں پہنچا ہے!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں