مزاحمتی گروہوں کی موجودہ صورتحال

آج پورے یہ دعوے کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ صہیونی لابی اپنے مقصد میں مکمل طور پر ناکام ہوئی اور مزاحمتی گروہ اپنے مقصد میں مکمل طور پر کامیاب ہوئے، صہیونی ریاست میں بالکل امن نہیں رہا، سخت بدامنی کا شکار ہوئی اور مسئلہ فلسطین پوری دنیا کا ایک مرتبہ پھر زندہ مسئلہ بن کر ابھرا ہے۔ اور یہ نہائی کامیابی نہیں ہے نہائی کامیابی وہی ہے جو امام خمینی (رہ) نے بیان کی تھی اور وہ ہے انہیں چھوٹے چھوٹے گروہوں کے ہاتھوں اسرائیل کی نابودی۔
مزاحمتی گروہوں کی موجودہ صورتحال
حجۃ الاسلام و المسلمین سید جواد نقوی
پرنسپل جامعۃ العروۃ الوثقیٰ
بمقام مسجد بیت العتیق 
لاہور پاکستان
حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان معرکہ آرائی جاری ہے، سید حسن نصر اللہ کی شخصیت کو دوست اور دشمن سب جانتے ہیں اور دنیا کا ایک بڑا طبقہ ان کی شہادت پر اظہار افسوس کر رہا ہے جبکہ صہیونی لابی میں ان کی شہادت پر خوشیاں بھی منائی گئیں ہیں صہیونی لابی میں مغربی حکومتیں اور عرب حکمران بھی شامل ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ مغربی صہیونی لابی نے کھل کر خوشی منائی ہے لیکن عرب دنیا میں دل سے خوشی منائی گئی لیکن اس خوشی کو ظاہر نہیں کیا گیا پاکستان میں بھی ایک ذلیل اور حقیر طبقے نے اس موقع پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔
اس درمیان لوگوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جس کے اندر مزاحمتی گروہوں اور ایران کے حوالے سے ایک ناامیدی کی لہر پیدا ہو گئی ہے اور خوف و ہراس ان پر طاری ہو گیا ہے۔
مومن اور منافق میں ایسے ہی موقعوں پر فرق پیدا ہوتا ہے اور پروردگار عالم ایسے موقعوں پر لوگوں کو منزل امتحان میں کھڑا کر دیتا ہے تاکہ ان کا امتحان لیا جا سکے غزہ کی جنگ بھی انسانوں کے لیے منزل امتحان تھی اور مومن اور منافق کو پہچاننے کا ایک راستہ بھی تھا لیکن اب سید حسن نصر اللہ کی شہادت نے ان چھپے ہوئے چہروں کو بھی ظاہر کر دیا جو منافقت کی نقاب اوڑھے ہوئے تھے۔
اس درمیان کچھ روایتی شیعہ بھی ہیں جن کا شیعت سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ وہ لوگ ہیں جو شروع سے ہی اسلامی انقلاب، امام خمینی اور رہبر انقلاب سے خود کو الگ سمجھتے تھے یہ بھی اس موقع پر شائد خاموش رہے ہوں یا چہ بسا انہوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا ہو۔
اصل وہ طبقہ جو ہماری گفتگو کا مخاطب ہے وہ لوگ ہیں جو انقلاب اور شیعت کا درد اپنے دلوں میں رکھتے ہیں۔ وہ لوگ اسی راہ پر چلنے والے ہیں جس پر سید مقاومت گامزن تھے اور اسی مشن کو آگے بڑھانے والے ہیں جو سید مقاومت کا مشن تھا ان کو صحیح حالات سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔
یہ ایک طولانی جنگ ہے جو برطانیہ اور امریکہ کی ناجائز اولاد صہیونی ریاست کے وجود میں آنے سے لے کر آج تک چلی آرہی ہے۔ پوری دنیا سے پلید ترین صہیونیوں کو اس خطے میں جمع کر کے یہ ریاست قائم کی ہے یہ ایسے ہی تھا جیسے ہم روزانہ گھروں سے جھاڑوں کر کے اپنا کچرا باہر پھینک دیتے ہیں مغربی ممالک نے اپنے تمام ملکوں سے سارا کچرا نکال کر اس خطے میں پھینک دیا یہ بدبودار کچرا تھا جس سے وہ سب تنگ آ چکے تھے جرمنی سب سے زیادہ تنگ تھا لیکن باقی ممالک بھی ان سے سخت پریشان تھے لیکن انہوں نے اس کچرے کو پھینکنے کے لیے جس سرزمین کا انتخاب کیا وہ ایک مقدس سرزمین تھی اور وہ فلسطینیوں کی سرزمین تھی۔
اسی روز سے یہ جنگ شروع ہو گئی ابتدا میں سارے عرب اس ناجائز قبضے کے خلاف تھے انہوں نے تین مرتبہ اسرائیل کے خلاف جنگ کی لیکن تینوں مرتبہ شکست کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ مصر اردن شام اور لبنان پر اسرائیل نے قبضہ جما لیا۔
انقلاب اسلامی جو 1979 میں وجود میں آیا انقلاب کے بعد امام خمینی (رہ) نے اس مسئلے کو عربی مسئلے سے نکال کر اسلامی مسئلہ قرار دیا اور ایسا نہیں ہے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امام خمینی (رہ) نے اس موضوع کو زیر بحث لایا بلکہ انقلاب سے پہلے جب سے انہوں نے انقلاب اسلامی کی تحریک کا آغاز کیا تب سے ہی فلسطین کی آزادی کی تحریک کو بھی اپنے منشور کا حصہ بنائے رکھا۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امام خمینی (رہ) نے یہ فرمایا کہ ہماری تحریک ابھی مکمل نہیں ہوئی ابھی ہماری تحریک کا ایک مقصد مکمل ہوا ہے اور ہم نے ایران کو صہیونی لابی سے آزاد کروایا ہے ابھی دوسرا مقصد باقی ہے اور وہ ہے فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی آزادی۔
اس مقصد کے لیے آپ نے ماہ مبارک کا آخری جمعہ یوم قدس کے طور پر متعارف کروا کر اس مقصد کو پوری امت مسلمہ کے حوالے کیا کہ انہوں نے اس مقصد کو حاصل کرنا ہے۔
امام خمینی نے اس مقصد کو بھی حاصل کرنے کے لیے خود ایران کے اندر ایک فوج تیار کی جسے سپاہ قدس کے نام سے جانا جاتا ہے جس کے سابقہ سربراہ جنرل قاسم سلیمانی تھے۔
امام کے بعد رہبر انقلاب نے اس فکر کو مزید آگے بڑھایا اور سپاہ کو مزید تقویت بخشی نیز فلسطینی تحریکیں جو فلسطین کے اندر صہیونیت کے خلاف برسر پیکار تھی اور غیر منظم تھی ان کو منظم اور مضبوط کیا۔
ہمیں یاد ہے کہ ابتدائے انقلاب میں بہت سارے فلسطینی ٹولے امام خمینی کے پاس آیا کرتے تھے یاسر عرفات خاص طور پر ان جہادی ٹولوں کی سربراہی کرتے تھے لیکن انہوں نے نہ صرف امام خمینی سے کوئی فکر نہیں لی بلکہ امام نے بھی ان کو بھانپ لیا تھا کہ یہ لوگ جس طرح سے دیگر عرب ملکوں سے فلسطین کی آزادی کے نام پر پیسے بٹورتے اور کھاتے ہیں اسی طرح ہمارے پاس بھی آ رہے ہیں چونکہ ان کے اندر اس کام کی کوئی صلاحیت نہیں پائی جاتی تھی۔
فلسطینیوں کے اندر بیداری اس وقت پیدا ہوئی جب شیخ احمد یاسین رحمۃ اللہ علیہ تہران آئے اور انہوں نے اپنی جھت تبدیل کی پہلے یہ اخوان المسلمین تحریک سے وابستہ تھے لیکن اس سے الگ ہو کر حماس کے نام سے اپنا جہادی گروہ بنایا ۔
لیکن سب سے زیادہ موثر کام جو امام خمینی (رہ) نے فلسطین کی آزادی کے لیے کیا وہ حزب اللہ کی تاسیس تھی اسرائیل نے تقریبا پورے لبنان کو اپنے زیر قبضہ لے لیا تھا اس وقت کوئی ایسی طاقت نہیں تھی جو لبنان کو اسرائیل کے قبضے سے باہر نکال سکے۔
حزب اللہ کے وجود میں آنے کے بعد سب سے پہلی کامیابی حزب اللہ کو یہ حاصل ہوئی کہ 2000 میں اس نے اسرائیل کو لبنان سے باہر نکال دیا اس کے بعد امریکہ کو بھی لبنان سے باہر کیا بلکہ وہ افراد جو لبنان کے اندر اسرائیل کی فکر کو تقویت کر رہے تھے ان کو بھی ملک سے باہر کیا۔
اسرائیل کی باڈر پر حزب اللہ کے وجود کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ لبنان کی آزادی کے بعد قدس کی آزادی کی جانب آگے بڑھے۔
حزب اللہ  نے اس دوران اسرائیل کے ساتھ بہت ساری جنگیں لڑیں 2000 میں اسرائیل کو لبنان سے فرار کرنے پر مجبور کیا اور پھر 2006 میں جو حزب اللہ کی اسرائیل کے ساتھ جنگ ہوئی اس کی کیفیت آج کی جنگ سے بھی کہیں زیادہ المناک تھی لیکن اس میں بھی اسرائیل کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
دوسری طرف فلسطین کے اندر حماس نے بھی کافی مضبوطی اختیار کی۔ خود حماس کے اندر بھی ایران کے حوالے سے اختلاف نظر پائی جاتی ہے کچھ ایسے لیڈران ہیں جو حماس کو ایران کے ساتھ جوڑنے کے مخالف ہیں اور دوسرے عرب ممالک سے وہ امداد حاصل کر کے اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے قائل ہیں۔ شام میں جب داعش نے سر اٹھایا تھا تو اس وقت حماس کے وہی لوگ جو انقلاب اسلامی کے مخالف تھے انہوں نے شام میں داعش کی مدد کی اس غرض سے کہ آج ہم داعش کی یہاں پر مدد کریں گے جب ان کو یہاں تقویت ملے گی تو کل یہ اسرائیل کے خلاف فلسطین میں ہماری مدد کریں گے۔ لیکن ان کو بہت جلد اندازہ ہو گیا کہ داعش کی فکر ان کی فکر سے بہت مختلف ہے اور وہ جلدی سنبھل گئے اور خود کو پیچھے کھینچ لیا۔ اور تہران جا کر اپنے اس کام کی تلافی کی اور دوبارہ ایران کا اعتماد حاصل کیا۔ بعد از آن حماس بھی حزب اللہ کی طرح ایک مضبوط گروہ بن گیا جبکہ حزب اللہ تو پہلے سے ہی بہت مضبوط ہو چکا تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ حزب اللہ اتنا مضبوط گروہ کیسے بنا اور ایران نے حزب اللہ کی کیسی مدد کی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میں عام لوگوں کو آگاہی نہیں ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو آج یہ سوچتے ہیں کہ سید مقاومت سید حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد حزب اللہ ختم ہو جائے گی یا بہت کمزور ہو جائے گی ان کے لیے یہ نکتہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ حزب اللہ کسی فرد کی محوریت میں نہیں بنی ہے۔
حزب اللہ کے جو پہلے رہنما تھے وہ صبحی طفیلی تھے جو بعد میں خود حزب اللہ کے مخالف ہو گئے۔
ایران نے جب حزب اللہ بنائی تو اس کو ایک نظریہ کے تحت عسکری تنظیم بنائی اور اس کے بنانے والے سپاہ کے افراد تھے جنہوں نے اس ڈھانچے کو تشکیل دیا۔
عام ملکوں کی فوجوں کے جو سربراہ ہوتے ہیں وہ خود فوج کے اندر سے ہی ترقی کر کے اوپر جاتے ہیں اور ان کی ایک مدت مقرر ہوتی ہے، یہ بات عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ افواج افراد کی سرپرستی میں تشکیل نہیں پاتیں بلکہ افواج کا اپنا ایک سسٹم اور نظام ہوتا ہے سربراہان بدلتے رہتے ہیں اور ان کے بدلنے سے فوج کے سسٹم اور نظام میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ فوج فرد کے محور پر نہیں بنتی بلکہ ایک سسٹم کے تحت بنتی ہے۔ یہ سیاسی جماعتوں اور مذہبی دھڑوں کے خلاف ہوتا ہے چونکہ سیاسی جماعتیں اور مذہبی ڈھڑے شخصیتوں کے بل بوتے اور محور پر بنتے ہیں۔ جیسے اہل تشیع میں مرجعیت کا نظام ہے نظام مرجعیت ایک فرد پر قائم ہوتا ہے۔ فرد کے اندر جب مرجع تقلید ہونے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ایک نظام بھی تشکیل پاتا ہے جب تک وہ زندہ رہتا ہے اس کا نظام باقی رہتا ہے جب وہ دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو یہ سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو سوفیصد شخصیت محور ہوتا ہے۔
لیکن جو عسکری نظام ہوتا ہے وہ شخصیت محور نہیں ہوتا حزب اللہ کا نظام بھی عسکری نظام جیسا ہے پہلی شخصیت سید عباس موسوی شہید ہوئے تو حزب اللہ کے ڈھانچے پر کوئی فرق نہیں پڑا، ان کے بعد سید حسن نصر اللہ کی سربراہی میں حزب اللہ کو اللہ کے لطف و کرم سے بہت تقویت حاصل ہوئی انہوں نے اپنی ذات کو محور نہیں بنایا بلکہ انہوں نے حزب اللہ کے سسٹم کو تقویت بخشی اپنا سارا معنوی اور مادی سرمایا حزب اللہ کے سسٹم پر لگایا۔
خاص طور پر شہید قاسم سلیمانی نے بھی اس کو مضبوط بنانے میں بہت محنت کی اگرچہ حزب اللہ کا ڈھانچہ اور سسٹم پہلے سے مرتب تھا لیکن پہلے حزب اللہ کو ہرآن اور ہرپل ایران کی ضرورت تھی ایران سے سب چیزیں سپلائی ہوتی تھی حماس کا بھی یہی سلسلہ تھا۔ لیکن چونکہ ان گروہوں تک سب ساز و سامان پہنچانا آسان نہیں تھا لہذا شہید قاسم سلیمانی نے ان کو خودکفیل بنایا اور جنگی ساز و سامان بنانے کی ساری ٹیکنالوجی خود ان تک منتقل کی اور ان کو ٹریننگ دی تاکہ وہ خود اپنا سب کچھ بنا سکیں۔ جس کے بعد یہ ناقابل تسخیر بن گئے۔ آج سارے راستے بند ہیں لیکن وہ خود اپنا اسلحہ تیار کر رہے ہیں۔
لہذا وہ لوگ جو حزب اللہ کے ساتھ دلی لگاو رکھتے ہیں اور موجودہ صورتحال پر نگران و پریشان ہیں انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے اگر چہ سید حسن نصر اللہ کی شخصیت ایک جامع اور ھمہ گیر شخصیت تھی اور ان کے جانے سے سب کو بہت افسوس ہوا ہے اور ممکن ہے ان کے بعد آنے والے کئی اور کمانڈر بھی شہادت کے درجے پر فائز ہوتے جائیں لیکن ان کے جانے سے حزب اللہ پر کوئی اثر پڑے گا جیسے کہ شہید اسماعیل ہنیہ کے شہادت سے حماس کو کوئی فرق نہیں پڑا۔
شہادتیں کبھی بھی کسی نظرئیے کو کمزور نہیں کر سکتیں بلکہ اسے مزید تقویت عطا کرتی ہیں۔
اس جنگ کا دوسرا پہلو جو اس جنگ میں نقصان ہوا ہے جیسے غزہ کے کئی علاقے بلکل مٹی کا ڈھیر بنا دئیے گیے ہیں ہزاروں شہید اور لاکھوں زخمی ہوئے ہیں۔ حماس سے زیادہ ایران کا نقصان ہوا ہے ایران کے بڑے بڑے جرنیل جو شام اور لبنان میں شہید ہوئے ہیں اور اسی طرح حزب اللہ کا بھی بہت بڑا نقصان ہوا ہے ان کے بھی بہت اعلیٰ کمانڈر شہید ہوئے ضاحیہ شہر کو بہت نقصان پہنچا ہے حزب اللہ کے کئی اسلحے کے ڈپو بھی ختم ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے برخلاف اسرائیل کا کتنا نقصان ہوا ہے۔
آج ہم برصغیر کا گودی میڈیا دیکھتے ہیں جو دن رات اسرائیل کے گن گاتے دکھتے ہیں کہ اسرائیل کے پاس دنیا کی سب بڑی ٹیکنالوجی ہے جدید ترین اسلحہ ہے امریکہ کی سپورٹ حاصل ہے اور کیا کیا اس کی تعریفیں ہوتی ہیں اتنی بڑی طاقت کے ساتھ ٹکر لینا بہت بڑی بیوقوفی ہے۔ حزب اللہ اور حماس جیسی چھوٹی چھوٹی تنظیموں حتیٰ ایران کو بھی اسرائیل کے ساتھ ٹکر نہیں لینا چاہیے۔
دیکھیے مالی نقصان، قیمتوں جانوں کا ضیاع، شہروں کی بربادی یہ سب چیزیں کسی بھی جنگ کا لازمہ ہیں ان چیزوں پر کبھی بھی کسی جنگ کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اصل چیز جو کسی بھی جنگ میں پیش نظر ہوتی ہے وہ اس جنگ کا مقصد ہوتا ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں جو جنگ چھیڑی اس جنگ سے اسرائیل کا مقصد کیا تھا ہمیں اس کو دیکھنا ہو گا اگر وہ مقصد میں کامیاب ہوا تو اسرائیل فتح یاب ہے اور اگر مقصد میں ناکام ہوا تو اسرائیل شکست خوردہ ہے۔
اور یاد رہے اس جنگ میں صرف صہیونی ریاست نہیں لڑ رہی ہے بلکہ پوری صہیونی لابی برسرپیکار ہے جس میں امریکہ، پورا یورپ، ہندوستان اور عرب ممالک شامل ہیں جنہوں نے مل کر چین کے خلاف ایک تجارتی منصوبہ بندی کی جس کے تحت عرب ممالک کو اسرائیل کے راستے سے یورپ سے ملانا تھا۔ اب دیکھیے کہ اس میں نقصان کس کا ہوا؟ ہم مالی نقصان کی بات نہیں کر رہے ہیں مالی نقصان کے حوالے سے کوئی شک نہیں کہ جتنا غزہ اور لبنان کا نقصان ہوا ہے اتنا اسرائیل کا نقصان نہیں ہوا چونکہ نقصان پہنچانے اور مارنے کی جو ٹیکنالوجی اور بے رحمی ان کے پاس ہے وہ کسی کے پاس نہیں ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جس کا نقصان زیادہ ہوتا ہے وہ ناکام ہوتا ہے اور جس کا نقصان کم ہوتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب سمجھنا ضروری ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نیتن یاہو نے خود یہ کہا کہ چھے ملکوں فلسطین، لبنان، ایران، عراق، یمن اور شام کی مزاحمت کا ہمیں سامنا ہے عملی اور مزاحمتی مخالفت میں یہ ملک اسرائیل کے مقابلے میں ہیں۔ حالانکہ ان میں سے کچھ ملک مزاحمت کا حصہ نہیں ہیں بلکہ ان میں پائے جانے والے مزاحمتی گروہ ہیں جو اسرائیل کے خلاف کھڑے ہیں۔ ان سب گروہوں کو طاقت صرف ایک ملک سے ملتی ہے اور وہ ہے ایران۔ لہذا صہیونی لابی کے خلاف صرف ایک ہی ملک کھڑا ہے جبکہ اس صہیونی لابی کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں، اسلحہ کی ان کے پاس کوئی کمی نہیں، تازہ ترین ٹکنالوجی ان کے پاس ہے۔ ان کی ثروت اور ٹکنالوجی کے مقابلے میں واضح ہے کہ ایران کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن کیا ایران کو یہ پتا نہیں ہے۔ قرآن کیا کہتا ہے: كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِیْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ۔
قرآن جناب طالوت کے لشکر کی زبانی نقل کرتے ہوئے کہتا ہے ٹھیک ہے مدمقابل جالوت کا لشکر ہر طرح کی ٹیکنالوجی سے لیس ہے جبکہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے لیکن چونکہ ہمارے ساتھ اللہ ہے لہذا کتنے ایسے چھوٹے گروہ ہیں جو بڑے بڑے لشکروں کو شکست دے دیتے ہیں اور ایسا ہی ہوا طالوت کے چھوٹے سے گروہ نے ایک بڑے لشکر کو شکست دے دی۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صہیونیوں کے پاس ٹیکنالوجی کی برتری ہے لیکن جب کسی بڑی ٹیکنالوجی والی طاقت کے سامنے آئیں تو کیا کریں شکست تسلیم کر لیں؟
امام حسین(ع) کی سیرت پر چلنے والوں کو ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔ اگر آپ ٹیکنالوجی کو پیش نظر رکھ کر بات کریں گے تو سب سے بڑا سوال خود امام حسین(ع) پر اٹھے گا کہ یزید جو ثروت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اس وقت اپنے عروج پر تھا اور مدمقابل صرف بہتر افراد جن کے پاس کچھ نہیں، میدان میں آتے ہیں، اور بظاہر سب کے سب قتل ہو جاتے ہیں، لیکن تاریخ فتح اور کامیابی کس کی لکھتی ہے یزید کی یا حسین بن علی (ع) کی؟ جنگوں میں مقاصد کو دیکھا جاتا ہے ظاہری نقصان کو نہیں دیکھا جاتا۔
صہیونی لابی کے مقاصد کیا تھے، ایک صہیونی ریاست، دوسرے پرامن صہیونی ریاست، تیسرے تمام خطے کے ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات۔ یہ ان کے مقاصد تھے۔ امریکہ نے ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کئی سالوں سے بڑی کوششیں کیں کہ خطے میں صہیونی ریاست اس طرح سے رہے کہ دیگر تمام ممالک خصوصا عرب ممالک کے ساتھ بالکل دوستانہ اور سفارتی تعلقات قائم ہوں اور معمول کے مطابق اٹھنا بیٹھنا ہو۔ اور فلسطین نام کی ملت اور قوم ختم ہو جائے۔ انہیں فلسطین سے باہر کر دیا جائے اور دیگر ممالک سے یہودیوں کو لا کر اس خطے میں بسا دیا جائے۔ انہوں نے ٹریلین ڈالر لگا کر اسرائیل کو ایک آسودہ ریاست بنانے کی کوشش کی۔
کیا وہ اس مقصد میں کامیاب ہو گئے؟ آج اسرائیل سب سے زیادہ خطرے کا شکار ریاست ہے، آج اسرائیل کے اندر ذرہ برابر بھی امن نہیں پایا جاتا، یہودی اسرائیل سے بھاگ بھاگ کر دوسرے ممالک میں پناہ لے رہے ہیں اور وہاں زمینیں خرید رہے ہیں اسرائیل میں اپنی جائیداد چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ صہیونی لابی مکمل طور پر اپنے مقصد میں ناکام ہوئی۔
لیکن دوسری طرف حماس کا مقصد کیا تھا؟ کہ فلسطین پر اسرائیل کا مکمل قبضہ نہیں ہونے دینا ہے فلسطین کو دنیا کے نقشے سے حذف نہیں ہونے دینا ہے دنیا کے ذہنوں سے فلسطین کو فراموش نہیں ہونے دینا ہے اور حتیٰ لاتعلق لوگوں کے ذہنوں میں بھی مسئلہ فلسطین ڈال دینا ہے۔ کیا دنیا فلسطین کو بھول گئی ہے، آج دنیا کا بچہ بچہ مسئلہ فلسطین سے آگاہ ہے۔
لہذا آج پورے یہ دعوے کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ صہیونی لابی اپنے مقصد میں مکمل طور پر ناکام ہوئی اور مزاحمتی گروہ اپنے مقصد میں مکمل طور پر کامیاب ہوئے، صہیونی ریاست میں بالکل امن نہیں رہا، سخت بدامنی کا شکار ہوئی اور مسئلہ فلسطین پوری دنیا کا ایک مرتبہ پھر زندہ مسئلہ بن کر ابھرا ہے۔ اور یہ نہائی کامیابی نہیں ہے نہائی کامیابی وہی ہے جو امام خمینی (رہ) نے بیان کی تھی اور وہ ہے انہیں چھوٹے چھوٹے گروہوں کے ہاتھوں اسرائیل کی نابودی۔