مزاحمت ‘فلسطین بچاو’ کا پہلا قدم
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: فلسطینی مزاحمت کا راز “استقامت” میں مضمر ہے، کیونکہ کہ استقامت فلسطینی نصب العین (Palestinian cause) کی نتیجہ خیزی کا لازمہ ہے۔ استقامت اور مزاحمت کے معنی یہ ہیں کہ اولاً: رہ نمائی شدہ (Guided) اور منصوبہ بند (Planned) عالمی فلسطین دشمن تشہیری مہم کے باوجود، فلسطین کا کام تمام نہیں ہے بلکہ فلسطین زندہ اور پائندہ ہے اور ثانیاً: فلسطین کی سرزمین اور اس کی بقاء “فلسطینی اعتقاد اور فلسطینی عزم” کا آمیزہ ہے اور یہ دونوں عناصر اپنی پوری طاقت کے ساتھ باقی ہیں۔
دریں اثناء “حملہ آور کی فتح” فریق مقابل کے خاتمے پر منحصر ہے۔ اس کے نزدیک “جنگ” اور “میدان میں رہنا” بذات خود، کافی نہیں ہے، حملہ آور صرف اس وقت فاتح و کامیاب شمار ہوگا جب حملے کا شکار فریق نیست و نابود ہوچکا ہو یا اپنے لوٹے گئے اموال و املاک کی واپسی کے لئے کوششیں یا مطالبات کو ترک کردے اور ہتھیار ڈال دے۔ چنانچہ اگرچہ ممکن ہے کہ حملہ آور قوت فریق مقابل پر مسلط بھی ہوجائے اور اس کے اموال و املاک پر قابض بھی ہوجائے لیکن جب تک کہ فریق مقابل مزاحمت کررہا ہے اور جب تک کہ اپنے مطالبات پر اصرار کررہا ہے اور اپنے چھینے ہوئے حق کو واپس لینے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا رہا ہے، حملہ آور قوت کامیاب اور فتح مندی کا دعوی نہیں کرسکتا؛ اور اس کو ہر وقت خدشہ رہنا چاہئے کہ ممکن ہے کہ مقبوضہ املاک کا مالک اپنی کوششوں سے وہ املاک اس سے واپس چھین لے اور یہ کسی بھی لمحے ممکن ہے۔ سوا اس صورت حال کے جب فریق مقابل مختلف اسباب و عوامل کی بنا پر ہتھیار ڈال کر موجودہ صورت حال کے ساتھ سمجھوتہ کرلے۔
فلسطینیوں نے ابتداء ہی سے ـ خواہ اسرائیل نامی ریاست کے مقابلے میں خواہ اس سے قبل عالمی صہیونی [یہودی] نیٹ ورک سے نمٹتے وقت ـ “مزاحمت” کا راستہ اختیار کیا ہے۔ آپ شاید جانتے ہونگے کہ سرزمین فلسطین پر قبضہ کرنے کے لئے یہودی ایجنسی (The Jewish Agency) کا پہلا اقدام سنہ ۱۹۰۵ع میں شروع ہوا اور اس منحوس اقدام کو ۱۱۴ برس ہوچکے ہیں؛ اس طویل دور میں، فلسطینیوں کی کئی نسلیں آئیں اور گذر گئیں؛ لیکن فلسطینیوں کی مزاحمت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اس دوران متعدد تحریکیں معرض وجود میں آئی ہیں؛ اور ان تحریکوں میں نہایت اہم اور بنیادی نیز پائندہ اور تابندہ تحریکیں مذہبی تحریکیں تھیں۔ عزالدین قسام کی “دینی تحریک” ـ جو سنہ ۱۹۱۸ع سے سنہ ۱۹۳۸ع تک جاری رہی، ایک ہمہ جہت مذہبی تحریک تھی جس نے دو عشروں تک انگریزی ـ یہودی سازش کے سامنے ڈٹ کر مزاحمت کی؛ اور آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس سرزمین میں مذہبی تحریکیں از سر نو جنم لے رہی ہیں۔
حماس (حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ) اور حرکۃ الجہاد دو خالص اسلامی اور دینی تنظیمیں اور تحریکیں ہیں جن کی جڑیں سنہ ۱۹۸۷ع کی پہلی انتفاضہ تحریک میں پیوست ہیں؛ چنانچہ کہنا چاہئے کہ یہ دو تحریکیں ایک پائیدار عوامی جدوجہد کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی ہیں۔ ان دو تنظیموں کے معرض وجود میں آنے اور میدان جہاد میں اترنے کے پہلے دنوں سے ۳۰ سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ جبکہ ان ہی تین عشروں میں امریکہ ـ یہودی ریاست اور عرب حکام نے فلسطین اور فلسطینیوں کو نہتا کرکے یہودیوں کے آگے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کرنے کے لئے بےشمار سازشیں کی ہیں۔ جن کا آغاز البتہ سنہ ۱۹۸۰ع میں سابق مصری آمر انورالسادات اور یہودی ریاست کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے ہوا تھا اور آج یہ سازشیں صدی کی ڈیل یا صدی کے سودے یا ابراہیمی معاہدے نامی شرمناک منصوبوں تک پہنچ چکی ہیں؛ جن میں امریکہ، یہودی ریاست اور سعودی ریاست کا کردار بنیادی ہے۔
فلسطینیوں کو اس عرصے میں مسلسل دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے اور پانچ مرتبہ نہایت وسیع اور بھاری جارحیتوں کا نشانہ بنے ہیں جن میں ۲۲ روزہ جنگ، ۱۱ روزہ جنگ، ۸ روزہ جنگ، ۸۱ روزہ جنگ اور ۲ روزہ جنگ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، لیکن اس کے باوجود انھوں نے سرتسلیم خم نہیں کیا ہے۔ دریں اثناء، یہودی ریاست ـ ماضی کے برعکس، جب وہ حملے اور یلغار کی اندرونی صلاحیت کا سہارا لیتی تھی ـ اس دوران دفاعی یا شراکتی جنگوں کو ترجیح دینے لگی ہے: فلسطینیوں کے رہائشی علاقوں میں اونچی دیواریں تعمیر کرنا، مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ دائمی اور پائیدار جنگ بندی کے حصول کے لئے مسلسل کوششیں، عرب ممالک کے ساتھ دو طرفہ یا چند فریقی مفاہمتی معاہدے منعقد کرنا، مزاحمتی تحریکوں کے راہنماؤں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا اور ان میں سے اکثر دہشت گردانہ کاروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنا، اپنے مخالفین اور دشمنوں کو مصروف کرنے کی غرض سے مقبوضہ فلسطین کے گرد و نواح میں قومی اور فرقہ وارانہ فتنہ انگیزی کو ہوا دینا اور بالآخر عرب ممالک کے ساتھ اتحاد قائم کرنا، ان اقدامات میں شامل ہیں۔
اتنے طویل عرصے سے فلسطینی نصب العین کو مٹانے اور فلسطینیوں کو قابض یہودیوں کے اطاعت گزار بنانے کے لئے یہودی ریاست اور اس کے مغربی حامیوں نیز مغربی ایشیا پر مسلط عرب حکمرانوں کی الگ الگ اور مشترکہ سازشوں کو دیکھا جائے تو آج فلسطین یا فلسطین کے نام پر کسی تحریک کا نام و نشان تک باقی نہیں رہنا چاہئے تھا۔
فلسطینی تحریکوں اور تنظیموں کی موجودگی ـ جو فلسطینی نصب العین کی حیات اور پائندگی کا اظہار ہے ـ در حقیقت ان تمام سازشوں اور نام نہاد سیاسی ـ حفاظتی منصوبوں کی مکمل ناکامی کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔ اسی بنیاد پر اسلامی انقلاب کے رہبر معظم امام خامنہ ای نے مورخہ ۳۱ دسمبر ۲۰۱۸ع کو فلسطینی تحریک حرکۃ الجہاد الاسلامی کے سیکریٹری جنرل “زیاد النَخالہ” سے بات چیت کرتے ہوئے فرمایا: “جب تک مزاحمت جاری رہے گی، صہیونی ریاست کے زوال و انحطاط کا عمل بھی جاری رہے گا”۔
فرض کرتے ہیں کہ ہم فلسطینی نصب العین کو محض فلسطین کی آزادی تک محدود کریں اور اس کو مسلمانوں کی تمام تر مقبوضہ سرزمینوں کی آزادی کے لئے ایک اہم تاریخی موڑ نہ سمجھیں ،حالانکہ ہمیں اسے تمام اسلامی سرزمینوں کی آزادی کی تمہید قرار دینا چاہئے، تو پوری فلسطینی سرزمین اور بالخصوص قدس شریف کی آزادی، فلسطینیوں کی مزاحمت کا مقصد و ہدف ہے اور جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں یہ مزاحمت فلسطین اور قبلہ اول کی مکمل آزادی تک جاری رہے گی۔
فلسطین کے صفحہ ہستی سے مٹانے اور عوامی مزاحمت کے مکمل خاتمے کے لئے دشمنوں کی مختلف سازشوں کے دوران فلسطین کی مکمل آزادی کے نصب العین ،نہ کہ تل ابیب سمیت بعض فلسطینی علاقوں کی آزادی، کو زندہ رکھنا، فلسطینیوں کا اصل فریضہ رہا ہے؛ اگرچہ اس نصب العین کی تکمیل اور مذکورہ سازشوں کی ناکامی کے بعد تل ابیب سمیت فلسطین کے تمام علاقوں کی آزادی بھی انتہائی نصب العین میں شامل ہے۔ لہذا پورے فلسطین یا اس کے کچھ حصوں کی آزادی “اس مرحلے میں” فلسطینیوں کی کامیابی یا عدم کامیابی کی قَدر پیمائی (Evaluation) کا مترادف نہیں ہے، ان کی کامیابی کی قدر پیمائی کا اصل پیمانہ بذات خود “مزاحمت” (Resistance) ہے، نہ وہ سب کچھ جو اس راستے میں انتہائی نصب العین کے طور پر مد نظر رکھا گیا ہے۔
دریں اثناء یہ حقیقت لائق توجہ ہے کہ قدس شریف کے قابض یہودیوں اور ان کے مغربی حامیوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کی مزاحمت نہ صرف عرب حکومتوں کے سائے میں انجام نہیں پائی ہے بلکہ فلسطینی مزاحمت ایسے حالات میں انجام پائی ہے اور جاری رہی ہے جب ترک صدر سمیت عرب حکمران یہودی ریاست کے ساتھ ساز باز اور تعلقات معمول پر لانے کی دوڑ میں مصروف ہیں۔ بالفاظ دیگر، فلسطینی نصب العین کو محو و نابود کرنے کی سازشوں کے آگے فلسطینیوں کی مزاحمت نہ صرف غاصب یہودی اور جارح مغربی افواج کے سامنے عرب ممالک کی فوجوں کے ہتھیار ڈالنے کے وقت جاری رہی بلکہ اس وقت بھی جاری رہی جب فلسطین اور قبلہ اول کو بھلا کر فلسطینیوں کو بھی اپنی سرزمین بھلانے اور “ناقابل تبدیل حقیقت” کے طور مقدس سرزمین پر یہودی ریاست کی دائمی موجودگی کو تسلیم کرنے کی دعوت دے رہے تھے۔
عرب حکمرانوں کی دعوت ذلت و خفت، آج اظہر من الشمس ہوچکا ہے؛ اور ذلت و خفت کو اپنی بقاء کی ضمانت جبکہ فلسطینی نصب العین کو اپنی بقاء کے لئے خطرہ سمجھ رہے ہیں؛ چنانچہ وہ آج فلسطینیوں کی طرف سے مزاحمت ترک کرنے سے ناامید ہوکر خود میدان میں اترے ہوئے ہیں اور صدی ڈیل کے ضمن میں پورے ذوق و شوق کے ساتھ صہیونی ریاست کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لا کر مزاحمت کو کمزور بنا رہے ہیں۔ چنانچہ ہم پہلے مرحلے میں، تل ابیب یا مقبوضہ فلسطین کے کسی دوسرے حصے کی آزادی کو اصل ہدف اور مشن نہیں سمجھتے، بلکہ اس کو انتہائی نصب العین کا حصہ سمجھتے ہیں جس سے ہم اس وقت کچھ فاصلے پر ہیں۔ بالفاظ دیگر فلسطین کی جنوبی اور شمالی سرزمینوں کی آزادی فلسطینی نصب العین کا دوسرا قدم ہے اور پہلا قدم “فلسطین مٹاؤ” نامی سازش کے مقابلے میں مزاحمت سے عبارت ہے جبکہ دوسرا قدم ہے: “مملکت فلسطین کا احیاء” اور “اسرائیل کو فنا کردینا”۔
پنجگانہ جنگوں میں فلسطینی مزاحمت تحریکوں کی فتح ـ جو ایک ۱۰ سالہ دور میں ـ سنہ ۲۰۰۸ع سے سنہ ۲۰۱۸ع تک ـ وقوع پذیر ہوئی ہے، پہلی انتفاضہ تحریک (سنہ ۱۹۸۷ع) سے لے کر چوتھی تحریک تک، جو آج بھی جاری ہے، عوامی انتخابات میں تحریک مزاحمت کی عظیم کامیابیاں اور فوجی یونٹوں کا قیام، سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ “مرحلۂ بقاء” میں فلسطین کامیاب ہوچکا ہے، کیونکہ یہ وہی چیز ہے جس کے حصول میں نامور عربی افواج سنہ ۱۹۵۲ع سے سنہ ۱۹۷۳ع تک مکمل طور پر ناکام ہوچکی تھیں اور عرب افواج اور حکومتیں ـ ما سوائے شام اور لبنان کے ـ نہ صرف یہودی ریاست کی مخالفت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ترک کرچکی ہیں بلکہ اس غاصب ریاست کے ساتھ کے ساتھ فعال تعلقات قائم کر چکی ہیں؛ وہ نہ صرف آج یہودی ریاست کی بقاء کے لئے کوشاں ہیں بلکہ اپنی بقاء کو بھی اس ریاست کی بقاء میں دیکھتی ہیں۔
چنانچہ “آزادی کے نصب العین” پر ڈٹا رہنا فلسطینی مزاحمت کے لئے بہت بڑی حصولیابی (Achievement) ہے اور دوسری طرف سے “فلسطینی نصب العین کی بقاء” یہودی ریاست کے لئے ـ جو کہ ۱۱۴ برسوں سے اس نصب العین کے مٹانے کے لئے کوشاں ہے ـ حتمی شکست شمار ہوتی ہے۔ فلسطینی فریق میں یہ حوصلہ اور یہ جذبہ، قدس شریف، قبلہ اول، تل ابیب اور فلسطین کے تمام علاقوں کی مکمل آزادی کے لئے تیاریوں میں اضافہ کرتا ہے؛ جبکہ اس کے فلسطینیوں کے ساتھ تقابل میں یہودی ریاست [یا نام نہاد اسرائیل] کی عبرتناک شکست، حملے کے مرحلے میں، فلسطینی عوام اور مزاحمت تحریکوں کی فتح و نصرت کی امیدوں کو زبردست تقویت پہنچا رہی ہے جبکہ یہودی ریاست کی کامیابی کی امیدوں کو شدت سے گھٹا دیتی ہے چنانچہ فلسطینیوں کی یہ امید اور اسرائیلیوں کی یہ ناامیدی، مستقبل قریب میں فلسطین کی عملی آزادی اور یہودی ریاست کی فنا کا راز ہے۔
تبصرہ کریں