مسئلہ فلسطین اور اس کا راہِ حل
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: دنیا بھر کے روزہ دار مسلمان عالمی یوم القدس کی مناسبت سے مظلوم فلسطینیوں کیساتھ اظہارِ یکجہتی اور غاصب صیہونی حکومت کیخلاف اپنی نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ وہ دن ہے جو امام خمینی (رہ) کے جدت عمل سے قدس شریف اور مظلوم فلسطین کے بارے میں مسلمانوں کی آوازوں کو ایک لڑی میں پرونے کا ذریعہ بن گیا۔ ناجائز تسلط کے ان تہتر برسوں میں ارضِ مقدس فلسطین میں ہر دن قیامت بن کر آیا ہے، ہر صبح ظلم و ستم کی نئی داستان لیکر طلوع ہوئی، ہر لمحہ بے گناہوں کے خون سے، گھر بار، سڑکیں، بازار، مساجد و عبادت گاہیں، سکول و مدارس کو رنگین کرنے کا پیامبر بن کر آیا ہے۔ ناجائز اسرائیلی ریاست کے حکمرانوں نے ان تہتر برسوں میں خون آشامیوں کی جو تاریخ رقم کی ہے، اس کی مثال تاریخ کے صفحات بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ نوجوانوں کی خون میں اٹی لاشیں اور نوحہ و ماتم کرتی ماؤں اور بہنوں کی چیخ و پکار اور نالہ و فریاد کے مناظر دنیا کے باضمیر انسانوں کو ہر روز جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مغربی حکومتوں اور یہودی سرمایہ داروں کا صیہونی حکومت کی تشکیل کا اصلی مقصد مغربی ایشیاء میں اپنے دائمی رسوخ اور موجودگی کیلئے ایک اڈہ قائم کرنا اور علاقے کے ممالک اور حکومتوں کے امور میں دخل اندازی اور ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے کیلئے قریب سے رسائی کے امکانات حاصل کرنا تھا۔ اسی لئے جعلی و غاصب حکومت کو طاقت کے گونا گوں عسکری و غیر عسکری وسائل یہاں تک کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کر دیا اور نیل سے فرات تک کے علاقے میں اس سرطان کی توسیع کو اپنے ایجنڈے میں جگہ دی۔ دنیا کے نقشے پر ناجائز وجود پانے والی ریاست کو امام راحل امام خمینیؒ نے مسلمانوں کے قلب میں خنجر سے تعبیر کیا تھا اور امت کو اس کی آزادی کی راہ جہاد کی صورت دکھائی تھی، مگر بدقسمتی سے بیشتر عرب حکومتوں نے ابتدائی مزاحمتوں کے بعد جن میں بعض قابل تعریف ہیں، بتدریج ہتھیار ڈال دیئے اور خاص طور پر اس مسئلے کے ذمہ دار کے طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کے وارد ہو جانے کے بعد انھوں نے انسانی، اسلامی اور سیاسی فریضے کو بھی اور اپنی عربی غیرت و حمیت کو بھی بالائے طاق رکھ دیا اور موہوم امیدیں لگا کر دشمن کے اہداف کی تکمیل میں مدد کی۔
جو لوگ چند فلسطینی عناصر یا چند عرب ممالک کے حکام کی مصالحتی کوششوں کو اس اسلامی اور انسانی مسئلے کو اس کے حال پر چھوڑ دینے کا جواز سمجھتے ہیں، وہ اس مسئلے کے ادراک میں شدید غلطی بلکہ بسا اوقات اس میں تحریف جیسی خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس پیکار کا اصلی مقصد بحیرہ روم سے دریائے اردن تک، پوری سرزمین فلسطین کی آزادی اور تمام فلسطینیوں کی وطن واپسی ہے۔ اس عظیم مقصد کو اس سرزمین کے کسی گوشے میں ایک حکومت کی تشکیل تک محدود کر دینا، وہ بھی اس تحقیر آمیز شکل میں جس کی بات بے ادب صیہونی کرتے ہیں، نہ حق جوئی کی علامت ہے اور نہ حقیقت پسندی کی نشانی۔ امر واقع یہ ہے کہ آج لاکھوں فلسطینی فکر، تجربے اور خود اعتمادی کی اس منزل پر پہنچ چکے ہیں کہ اس عظیم جہاد کیلئے انہوں نے کمر ہمت باندھ لی ہے، انھیں نصرت خداوندی اور حتمی فتح کا یقین رکھنا چاہیئے۔
اگرچہ اس لڑائی میں تمام حلال اور شرعی وسائل من جملہ عالمی حمایت سے استفادہ جائز ہے، لیکن خاص طور پر مغربی حکومتوں اور ظاہری یا باطنی طور پر ان پر منحصر عالمی اداروں پر اعتماد کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ وہ ہر موثر اسلامی طاقت کے وجود کے دشمن ہیں۔ انھیں انسانوں اور اقوام کے حقوق کی کوئی پروا نہیں۔ وہ خود مسلم امہ کو پہنچنے والے بیشتر نقصانات اور اس کیخلاف انجام پانے والے جرائم کے ذمہ دار ہیں۔ اس وقت کئی اسلامی و عرب ممالک میں جاری قتل عام، جنگ افروزی، بمباری یا مسلط کردہ خشک سالی کے سلسلے میں کون عالمی ادارہ یا جرائم پیشہ طاقت جوابدہ ہے۔؟ آج دنیا عالمی سطح پر کورونا سے ہونیوالی اموات کو تو گن رہی ہے، لیکن کسی نے نہیں پوچھا اور نہ پوچھے گا کہ جن ممالک میں امریکہ اور یورپ نے جنگ کی آگ بھڑکائی ہے، وہاں لاکھوں افراد کی شہادت، قید اور گمشدگی کا ذمہ دار کون ہے۔؟
افغانستان، یمن، لیبیا، عراق، شام اور دیگر ممالک میں بہائے جانیوالے اس خون ناحق کا ذمہ دار کون ہے۔؟ فلسطین میں جاری ان جرائم، غاصبانہ و تخریبی اقدامات اور مظالم کا ذمہ دار کون ہے۔؟ اسلامی ممالک کے دسیوں لاکھ مظلوم مردوں اور خواتین کو کوئی شمار کیوں نہیں کرتا۔؟ مسلمانوں کے قتل عام پر کوئی تعزیت کیوں نہیں دیتا۔؟ لاکھوں فلسطینی ستر سال سے اپنے گھر بار سے دور جلا وطنی میں کیوں رہیں۔؟ مسلمانوں کے قبلہ اول کی کیوں توہین کی جائے۔؟ نام نہاد اقوام متحدہ اپنے فرائض پر عمل نہیں کر رہی ہے اور نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں کو موت آگئی ہے، “بچوں اور خواتین کے حقوق کے نعرے” کا اطلاق یمن اور فلسطین کے مظلوم بچوں اور خواتین پر کیوں نہیں ہوتا۔؟
اہم نکتہ جو عالم اسلام کی سیاسی و دفاعی شخصیات کی نظر سے پنہاں نہیں رہنا چاہیئے، وہ مزاحمتی محاذ کو دیوار سے لگانے کی امریکی اور صیہونی سیاست ہے۔ شام میں خانہ جنگی شروع کروانا، یمن کی ناکہ بندی اور وہاں شب و روز قتل عام، عراق میں ٹارگٹ کلنگ، تخریبی اقدامات اور داعش کی تشکیل، علاقے کے بعض دیگر ممالک میں ایسے ہی واقعات، یہ سب مزاحمتی محاذ کو الجھا دینے اور صیہونی حکومت کو موقع دینے کے حربے ہیں۔ بعض مسلم ممالک کے سیاستدانوں نے نادانستگی میں اور بعض نے دانستہ طور پر دشمن کے ان حربوں کی مدد کی ہے۔ اس خبیثانہ سیاست کے نفاذ کا سدباب کرنے کا طریقہ پورے عالم اسلام میں غیور نوجوانوں کی طرف سے پرزور مطالبہ ہے۔ تمام اسلامی ممالک اور خاص طور پر عرب ممالک میں نوجوانوں کو امام خمینی کی سفارشات کو نظر سے دور نہیں ہونے دینا چاہیئے۔
استکبار اور صیہونیت کی بنیادی پالیسی مسلمان معاشروں کے اذہان میں مسئلہ فلسطین کو بے رنگ کر دینا اور فراموشی کی طرف دھکیل دینا ہے۔ علاقے میں صیہونی حکومت کی موجودگی کو معمول کی بات بنا دینا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سب سے بنیادی پالیسی ہے۔ علاقے کی بعض عرب حکومتیں جو امریکہ کے اشارے پر چلتی ہیں، اس کے لازمی مقدمات جیسے اقتصادی روابط قائم کرنے وغیرہ کا کام انجام دے رہی ہیں۔ یہ کوششیں سرے سے بے ثمر اور بے نتیجہ ہیں۔ صیہونی حکومت اس علاقے کیلئے ایک مہلک اضافہ اور سراپا نقصان ہے، جو بلاشبہ ختم اور نابود ہو جائے گی اور ان لوگوں کے ہاتھ صرف ذلت اور بدنامی لگے گی، جنہوں نے اپنے تمام وسائل اس استکباری سیاست کیلئے وقف کر رکھے ہیں۔ بعض اپنی اس پست روش کا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ صیہونی حکومت علاقے کی ایک حقیقت ہے، انھیں یہ یاد نہیں کہ مہلک اور زیاں بار حقیقتوں سے لڑنا اور انھیں ختم کرنا ہوتا ہے۔ سب کا فوری فریضہ اس خیانت کا سدباب ہے، جو خود اسلامی ممالک میں دشمن کے سیاسی اور ثقافتی ایجنٹوں کے ذریعے انجام پا رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین ایسا قضیہ نہیں، جسے مسلمان اقوام کی غیرت، روز افزوں خود اعتمادی و بیداری فراموش ہو جانے دے گی، حالانکہ اس مقصد کیلئے امریکہ اور دیگر تسلط پسند طاقتیں اور ان کے مہرے اپنا پیسہ اور طاقت استعمال کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ ابھی تک اس کی تہتر سالہ زندگی میں جعلی صہیونی حکومت نے اپنے اہداف طفل کشی، قتل و غارت، آہنی مکے اور تشدد کی مدد سے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس بات کو ڈھٹائی سے بیان بھی کرتے ہیں۔ اسرائیلی جرائم کو ختم کرنے کا واحد ذریعہ اس ریاست کا خاتمہ ہے اور ظاہر ہے کہ ریاست کے خاتمے سے مراد یہ نہیں کہ خطے میں یہودی باشندوں کا قتل عام کیا جائے۔
رہبر معظم نے اس کی خاطر دنیا کو ایک منطقی اور قابلِ عمل میکانزم بتایا ہے۔ فلسطین کے اصلی باشندے چاہے، وہ مسلمان ہوں، یہودی یا عیسائی، وہ چاہے فلسطین میں ہوں یا مہاجر کیمپوں میں یا دنیا میں کہیں بھی، وہ ایک عوامی اور منظم ریفرنڈم میں حصہ لیں۔ قدرتی طور پر وہ یہودی مہاجر جنہیں اسرائیل ہجرت کرنے پر مائل کیا گیا ہے، وہ اس ریفرنڈم میں حصہ لینے کا حق نہیں رکھتے۔ فلسطین کے اصلی لوگوں کے درمیان ہونیوالے ریفرنڈم کے نتیجے میں جو حکومت بنے گی، وہ فیصلہ کرے گی کہ یہودی مہاجرین فلسطین میں ہی رہیں یا اپنے آبائی وطنوں میں واپس بھیج دیئے جائیں۔ جس دن تک یہ قاتل اور طفل کش ریاست ریفرنڈم کے ذریعے ختم نہیں ہو جاتی، اس وقت تک طاقتور مقابلہ اور مسلح مزاحمت اس تباہ کن ریاست کا علاج ہے۔ ایسی ریاست جو کسی کی سوچ اور تخیل سے بعید جرائم کا ارتکاب کرتی ہے، اس کے مقابلے کا واحد ذریعہ پر عزم اور مسلح مقابلہ ہے۔
تبصرہ کریں