مسجد الاقصیٰ خطرے میں

عرب ممالک کے بعض حکمرانوں کا یہ خیال ہے کہ وہ امن معاہدے کرکے صہیونیوں کے شر سے محفوظ رہیں گے۔ صیہونی "نیل سے فرات تک" کے ہدف کے حصول کی تلاش میں ہیں اور نیتن یاہو کو امید ہے کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آجائیں گے تو صیہونی حکومت اپنے منصوبے کے اگلے مرحلے میں پڑوسی ممالک کی سرزمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے گی۔
فاران: 2005ء سے لے کر اب تک صیہونی حکومت نے مسجد اقصیٰ کے اردگرد خاص طور پر مغربی سمت میں درجنوں یہودی عبادت گاہیں اور عجائب گھر تعمیر کئے ہیں، یہاں تک کہ ان میں سے ایک مسجد اقصیٰ کی دیوار سے صرف 16 میٹر کے فاصلے پر ہے۔ ان عبادت گاہوں میں سب سے نمایاں جو کہ ایک علامتی اہمیت کی حامل ہے، اس کا نام “خوریا” ہے جس کا مطلب ہے “تباہ شدہ”، جو 2010ء میں پرانے محلے کے تین مقامات پر تین منزلوں پر تعمیر کی گئی تھی اس کی اونچائی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ مسجد اقصیٰ کا ایک حصہ اسکے پیچھے چھپ گیا ہے۔
18 ویں صدی کے ایک ربی کی پیشین گوئی کے مطابق اس عبادت گاہ کی تعمیر کے بعد ہیکل سلیمانی کی تعمیر شروع ہو جائے گی۔ مسجد اقصیٰ کے کھنڈرات پر مبینہ ہیکل کی تعمیر کے تاریخی منصوبے کے بارے میں صہیونی حلقوں کا خیال ہے کہ 2023ء سے الاقصیٰ کے احاطے میں نام نہاد “ایپک سجدہ” کی تقریب کے بعد یہ عمل شروع ہوگیا ہے اور اس مقصد تک پہنچنے کے لئے حملوں کی رفتار میں اضافہ ہوچکا ہے۔
درحقیقت صیہونی حکومت کے داخلی سلامتی کے انتہا پسند وزیر Itamar Ben Guer کی دائیں بازو کی وحشیانہ تحریک اور جو کچھ وہ اپنے عہدوں اور بیانات میں پیش کرتے ہیں، اسے صیہونی حکومت کے سرکاری اقدامات کا عملی نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ داخلی سلامتی کے وزیر ہیں اور ان کا بنیادی کام مقبوضہ بیت المقدس کو یہودیانہ ہے۔ الفاظ اور وعدوں کے لحاظ سے صیہونی حکومت خود کو مسجد الاقصی کے حوالے سے بین الاقوامی اور علاقائی معاہدوں کا پابند سمجھتی ہے۔
اس کا رقبہ 144,000 مربع میٹر ہے یہ ایسا علاقہ جو بین الاقوامی شماریاتی قوانین کے مطابق محفوظ ہے کیونکہ یہ ایک مذہبی علاقہ ہے۔ سیاق و سباق میں تبدیلیاں صرف دو طرفہ معاہدوں کے مطابق ہی ہوسکتی ہیں۔ نیتن یاہو کے دفتر کا بین گویر کے اس بیان پر ردعمل کہ وہ مسجد اقصیٰ کی بنیاد پر کسی عبادت گاہ کی تعمیر کی مخالفت کرتے ہیں اور ان کا یہ بیان کہ عبوری کابینہ مسجد اقصیٰ کی موجودہ پوزیشن کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے، دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔
یاد رہے مختلف ​​معاہدوں کے مطابق مسجد اقصیٰ کی ذمہ داری اردن کو منتقل کی گئی ہے۔ صیہونی حکومت کی داخلی سلامتی کے انتہا پسند وزیر، ایک بڑے پارلیمانی گروپ کی حمایت اور اس حکومت کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی عبوری کابینہ میں شرکت کے بعد سے (صیہونی پارلیمنٹ)  مقبوضہ بیت المقدس کی موجودہ صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے بے چین  ہے اور اس نے مسجد اقصیٰ کے اندر ایک عبادت گاہ کی تعمیر کے لیے ایک متنازعہ منصوبہ تجویز کیا ہے۔
نیتن یاہو کے دفتر کا ردعمل بین گویر کے اس بیان پر کہ وہ مسجد اقصیٰ کے اندر ایک عبادت گاہ کی تعمیر کی مخالفت کرتے ہیں اور ان کا یہ بیان کہ عبوری کابینہ مسجد اقصیٰ کی موجودہ صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے، دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ درحقیقت، یہ وہی کچھ دہرانے کا ارادہ رکھتا ہے جو بین گویر نے اپنے ایپک سجدے کے ساتھ کیا تھا۔ بیت المقدس کی تعمیر ایک ایسا مسئلہ ہے جسے عالمی اور علاقائی حتیٰ کہ مقامی رائے عامہ بھی قبول نہیں کرتی۔
مسجد اقصیٰ کے اردگرد خوریا کنیسہ کی تعمیر، پھر اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا اور عبادت گاہ کے قیام کا سرکاری مطالبہ حریدی نظریے کی تشکیل کے لیے ایک تباہ کن مساوات ہے۔ آج صیہونی حکومت میں حریدی فرقے کی تعداد 16 فیصد سے بھی کم ہے اور چند روز قبل انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں اور صہیونی فوج کی طرف سے ان کے فرقوں کی فوج  میں طلبی کے حکم کے خلاف احتجاجاً ہاشومر اڈے پر حملہ کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے حکم  میں کہا گیا تھا کہ ایک ماہ کے اندر 2,000 حرمدیوں کو فوجی خدمت کے لیے بھیج دیا جائے۔ اس فرقے نے عدالت کے اس اقدام کو اپنے عقائد کے خلاف ایک علامتی حربہ قرار دیا ہے۔ صیہونی “نیل تا فرات” کے نظریے کی تلاش میں ہیں اور نیتن یاہو کو امید ہے کہ وہ مغربی کنارے کے ساتھ امریکی انتخابات  سے پہلے وہی کچھ کرسکیں گے جو اس سے قبل غزہ میں کرچکے ہیں۔
غزہ میں مذہبی فسادات اور خونریزی کا بھڑکنا آسان نہیں ہے۔ اسلامی شریعت کہتی ہے کہ مسجد کے سامنے انسانی جانیں مقدس ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی جڑیں اس ذہنیت میں پیوست ہیں کہ صہیونی اسے مسخ کرنا چاہتے ہیں، وہ مسجد الاقصی پر حملے کرکے مسلمانوں کی غیریت و حمیت کا امتحان لیتے رہتے ہیں
صیہونیوں نے پہلے مسجد اقصیٰ کی توہین کی اور پھر مغربی کنارے میں اپنی کارروائیاں شروع کیں کیونکہ وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں میں کوئی جوش باقی ہے یا نہیں۔ مسجد اقصیٰ پر حملہ کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے بعد کہ عرب ممالک کے حکمرانوں میں میں کوئی حساسیت نہیں انہوں نے مغربی کنارے میں اپنی کارروائیاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
عرب ممالک کے بعض حکمرانوں کا یہ خیال ہے کہ وہ امن معاہدے کرکے صہیونیوں کے شر سے محفوظ رہیں گے۔ صیہونی “نیل سے فرات تک” کے ہدف کے حصول کی تلاش میں ہیں اور نیتن یاہو کو امید ہے کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آجائیں گے تو صیہونی حکومت اپنے منصوبے کے اگلے مرحلے میں پڑوسی ممالک کی سرزمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے گی۔