مشرق وسطیٰ میں بڑھتی چینی سفارتکاری اور اہل فلسطین

اس منصوبے کے مطابق فلسطین کا واحد ممکنہ حل یہ ہے کہ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں سمیت تمام فلسطینیوں کی شرکت سے ایک قومی ریفرنڈم کرایا جائے۔ ریفرنڈم، انتخابات کا انعقاد، عوام کی رائے اور جمہوریت ایران کا بنیادی مطالبہ اور اس بحران کا اہم حل ہے۔ ایران نے فلسطینی مسئلے کے حل پر زور دیا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ہمیشہ ایسے مواقع پر جمہوریت اور ووٹ کو اہمیت دیتے ہیں، انہیں یہاں بھی وہی طریقہ اختیار کرنا چاہیئے۔

فاران: دوسری جنگ عظیم نے طاقت کے توازن کو مکمل طور پر امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے حق میں کر دیا۔ ان ممالک نے اقوام متحدہ سمیت ایسے ادارے قائم کیے، جو مساوات، امن، انصاف، انسانی حقوق اور ان جیسے خوبصورت نعرے لگاتے ہیں۔ ان ممالک نے دنیا میں تقسیم طاقت کا ایسا فارمولہ بنایا، جس میں ان کے علاوہ کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔ یہ لوگ نسل کشی بھی کریں تو وہ قانون کی چھتری میں انسانیت کی خدمت کہلاتی ہے اور دوسرا اپنی آزادی کی جنگ لڑ کر بھی دہشتگرد قرار پاتا ہے۔ یہ عراق، فلسطین، بوسنیا اور دیگر مقامات پر کئی ملین لوگوں کو قتل کر دیتے ہیں، ان کے خلاف ایک قرارداد تک نہیں آتی۔ ان کے مقابل اگر اسلامی جمہوری ایران ان کے طے کردہ ضابطوں کے مطابق ایٹمی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کے لیے آزادانہ تحقیق کرے تو دنیا بھر کی پابندیاں اس پر لگا دی جاتی ہیں۔

بدامنی پھیلانے والوں کے خلاف کی گئی کارروائی پر انسانی حقوق کے نام پر واویلا شروع کر دیا جاتا ہے اور یہ لاکھوں لوگوں کو قتل کرنے کے بعد سادگی سے کہہ دیتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں کی غلط فہمی ہوگئی تھی، ساری اطلاعات غلط تھیں۔ آپ فلسطین کے قضیہ کو ہی لے لیں، یوں لگتا ہے کہ اسرائیل تو بس استعمال ہونے والی ریاست ہے، اصل کام تو امریکی اشاروں سے ہوتے ہیں۔ آج بھی فلسطینیوں پر جو بارود برس رہا ہے، وہ امریکہ کا ہے، جن جہازوں سے برسایا جا رہا ہے، ان کی اکثریت بھی امریکہ کی ہے۔ توپیں، ڈرون غرض فلسطینیوں کو قتل کرتے اکثر اسلحے کا اصل ایڈریس میڈ ان امریکہ ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے بم بھی امریکہ ہی اسرائیل کو فراہم کر رہا ہے۔ ویسے حد ہے کہ غزہ جیسے چھوٹے سے علاقے کی انٹیلی جنس بھی امریکہ ہی فراہم کر رہا ہے۔ایران سے میزائل چلیں یا حوثیوں اور حشد شعبی کے حملے ہوں، اسرائیل کو امریکی اسلحہ یا براہ راست امریکی فوج ہی بچاتی آئی ہے۔ اس نظام کا ظلم دیکھیں کہ کچھ فلسطینی قیادت اسی امریکہ سے انصاف کی توقع لگائے بیٹھی ہے۔

یہ لوگ قدس شریف کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے میں ایک منٹ لگاتے، مگر جب ان سے کہا جائے گا کہ فلسطین کی ایک ریاست کا آپ نے ہی وعدہ کر رکھا ہے، اس کو اپنے طے شدہ ضابطے کے مطابق ہی تسلیم کر لیں، تو فوراً کہا جاتا ہے کہ اس کا مناسب وقت نہیں آیا۔ ہاں اس کا مناسب وقت تب آنا ہے، جب پورے فلسطین پر آبادکاری مکمل ہو جائے اور فلسطینیوں کا مکمل صفایا کر دیا جائے۔ نہ فلسطینی بچیں گے اور نہ ہی ریاست کی ضرورت رہے گی۔ اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے، دنیا میں اور خطے میں نئی طاقتیں امریکی نظام کو ٹف ٹائم دے رہی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کسی صورت میں مسلم ممالک اور مسلم تنظیموں کے درمیان وحدت نہیں چاہتے، اس لیے وہ اس کے راستے میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ بحرین اور امارات کو ایران سے ڈرا ڈرا کر اس جگہ لے آئے کہ انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ان کی سافٹ وار نے خلیج پیدا کر دی۔ دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے ممالک میں قائم سفارتخانے تک بند ہوگئے۔

یہ امریکہ اور اسرائیل کے لیے آئیڈیل حالات تھے۔ ان حالات میں بیجنگ سے خبر آتی ہے کہ سعودی عرب اور ایران چین میں مذاکرات کر رہے ہیں اور پھر دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کے اعلان نے امریکی اور یورپی کیمپ کو کمزور کر دیا۔ ٹرمپ یہ چاہتا تھا کہ سعودی عرب جلد از جلد اسرائیل کو تسلیم کر لے، بائیڈن انتظامیہ کی بھی یہی خواہش تھی، مگر چین کی سفارتکاری نے ان کی خواہشات پر پانی پھیر دیا۔ اب سعودی عرب اور ایران کے سفارخانے کھل چکے ہیں اور تعلقات آگے بڑھ رہے ہیں۔ اب چین سے دوبارہ خبر آئی ہے، چین کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق 23 جولائی کو 14 فلسطینی گروہوں کے نمائندوں نے چین کی دعوت پر بیجنگ میں مصالحتی مذاکرات کے بعد “تقسیم کے خاتمے اور فلسطینی قومی اتحاد کو مضبوط بنانے سے متعلق بیجنگ اعلامیے پر دستخط کیے ہیں۔”

اعلامیے میں مندرجہ ذیل نکات بھی شامل ہیں:
۱۔ اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق یروشلم کے دارالحکومت کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام۔
۲۔ غرب اردن، یروشلم اور غزہ سمیت فلسطین کی علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنا۔
۳۔ تمام فلسطینی گروہوں کے اتفاق رائے اور موجودہ بنیادی قانون کے مطابق ایک عبوری قومی مصالحتی حکومت کی تشکیل۔
۴۔ غزہ کی تعمیرِ نو اور منظور شدہ انتخابی قانون کے مطابق جلد از جلد عام انتخابات کی تیاری۔
۵۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ منظور شدہ انتخابی قانون کے مطابق ایک نئی قومی کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور مشترکہ سیاسی فیصلے کرنے کے لیے ایک عارضی متحد قیادت تشکیل دی جائے گی۔

اس پورے عمل کو سفارتی زبان میں بیان کروں تو یہ ایک بہت بڑا شفٹ آف پاور ہے۔ مذاکرات امریکی کیمپ کے مراکز میں امریکی نگرانی میں ہوتے تھے۔ اب امریکہ کو مائنس کرکے اور مشرق کے ایک بڑے شہر میں ہوئے ہیں۔ چین کا سفارتکاری کا اپنا انداز ہے، یہ بہت خاموشی سے کام کرتے ہیں اور جب نتیجہ سامنے آتا ہے تو لوگ حیران ہو جاتے ہیں۔ فلسطین کے چودہ بڑے گروہوں نے اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اہل فلسطین کا یہ اتحاد امریکہ اور اسرائیل کے غزہ پر براہ راست قبضے کو ناممکن بنا دے گا۔ اب دنیا کے سامنے فلسطینی ایک قوم اور ایک ملت کے طور پر پیش ہوں گے۔ یہ اسرائیلی حکمت عملی رہی کہ وہ مار سب فلسطینیوں کو رہا ہوتا ہے، مگر کہہ یہ رہا ہوتا ہے کہ حماس اور جہاد اسلامی کے خلاف کارروائی کر رہا ہوں۔

اس موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران نے بہت ہی مناسب تجویز دی ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ فلسطین کی حیثیت کے تعین کے لیے فلسطینیوں کے درمیان ریفرنڈم کرایا جائے۔ یہ کوئی بیان نہیں ہے، اسے اسلامی جمہوریہ ایران نے ایک سفارتی منصوبے کی شکل میں اسے اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیا اور اس کو باقاعدہ رجسٹرڈ بھی کرایا۔ اس منصوبے کے مطابق فلسطین کا واحد ممکنہ حل یہ ہے کہ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں سمیت تمام فلسطینیوں کی شرکت سے ایک قومی ریفرنڈم کرایا جائے۔ ریفرنڈم، انتخابات کا انعقاد، عوام کی رائے اور جمہوریت ایران کا بنیادی مطالبہ اور اس بحران کا اہم حل ہے۔ ایران نے فلسطینی مسئلے کے حل پر زور دیا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ہمیشہ ایسے مواقع پر جمہوریت اور ووٹ کو اہمیت دیتے ہیں، انہیں یہاں بھی وہی طریقہ اختیار کرنا چاہیئے۔