مصر میں اسرائیلی سرگرمیوں کو تیز کرنے میں ڈیوڈ میدان کا کردار

مِیدان اس سے قبل موساد کی ملازمت کے دوران بھی اور اس کے بعد سبکدوشی کے ایام میں بھی صہیونی ریاست اور مصر کے معلوماتی تعاون کے سلسلے میں کوآرڈینیٹر کا کردار ادا کرتا رہا ہے؛ ایسا تعاون جو دنیا کی دہشت گرد ترین ریاست کے اس جاسوس کے بقول "انسداد دہشت گردی" پر مرکوز ہے؛

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
صہیونی ریاست کے ساتھ انور السادات کی سربراہی میں مصر کی ساز باز [کیمپ ڈیوڈ معاہدے] اور دو طرفہ تعلقات کی بحالی کو 44 سال کا عرصہ گذر چکا ہے اور آج مصر کے سیکورٹی ادارے السیسی کی سربراہی میں، جاسوسی کے شعبوں میں اسرائیلی آلات اور حکمت عملیوں کے سب سے بڑے خریداروں میں شامل ہیں۔ موساد کے سابق اور موجودہ اہلکار دو طرفہ تعاون میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور پھر ڈیویڈ مِیدان خود مصر کا پیدائشی ہے، جو ان شعبوں میں نمایاں ترین کردار ادا کر رہا ہے۔ بطور مثال سنہ 2018ع‍ میں مصر اور غاصب صہیونی ریاست کے درمیان سلامتی کے شعبے میں ایک باضابطہ معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے لئے ماحول مِیدان نے فراہم کیا تھا۔

دائیں سے: مصری صدر عبدالفتاح السیسی، مصری وزیر خارجہ سامح شکری، صہیونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نیویارک میں۔۔۔ سامح شکری ڈیوڈ مِیدان کا قریبی دوست ہے۔
چونکہ ڈیوڈ مِیدان اپنے دوستوں کو اپنی جاسوسانہ نگاہ سے دیکھتا اور متعارف کراتا ہے لہٰذا دیکھتے ہیں وہ اس مصر اور غاصب ریاست کے درمیان سیکورٹی اور جاسوسی کے شعبوں میں تعاون کے بارے میں کیا کہتا ہے؛ اس کا کہنا ہے: “اسرائیل کی عظیم دانش اور ٹیکنالوجی کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی مصر کو اتنا طاقتور بنا سکتا ہے کہ وہ اپنے لئے درپیش سیکورٹی خطرات سے نمٹ سکے گا۔ دو ملکوں کے درمیان تعاون بھی ان خطرات کا مقابلہ کرنا ہے جو دونوں کو درپیش ہیں۔۔۔ اسرائیلی سائنس اور ٹیکنالوجی خفیہ روشوں سے مصر منتقل ہؤا کرتی ہے اور دو ملکوں کی خفیہ معلومات کے تبادلے کے لئے ٹیلی فون کال محفوظ نہیں ہے”۔
مِیدان اس سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا کہ 44 سالہ سازباز اور مصر پر عملی تسلط کے باوجود اسرائیل نے مصر کو اپنے علم و سائنس اور ٹیکنالوجی سے کیوں محروم رکھا ہے؟! اور لگتا ہے کہ اس کے پاس اس کا جواب ہوگا بھی نہیں۔
مِیدان اس سے قبل موساد کی ملازمت کے دوران بھی اور اس کے بعد سبکدوشی کے ایام میں بھی صہیونی ریاست اور مصر کے معلوماتی تعاون کے سلسلے میں کوآرڈینیٹر کا کردار ادا کرتا رہا ہے؛ ایسا تعاون جو دنیا کی دہشت گرد ترین ریاست کے اس جاسوس کے بقول “انسداد دہشت گردی” پر مرکوز ہے؛ دہشت گردی سے مراد غاصب ریاست کے خلاف فلسطینی مزاحمت ہے؛ جیسا کہ اس (مِیدان) کا دعویٰ ہے کہ “مصر اس تعاون کے عوض اسرائیل کو ایسی معلومات فراہم کرتا ہے جو اسرائیل کی قومی سلامتی کے لئے بہت اہم اور مؤثر ہیں!!”۔ نیز وہ دعویٰ کرتا ہے کہ “چونکہ اسرائیل مصر سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہے! لہٰذا معلومات اکٹھے کرنے کے سلسلے میں بھی اسرائیل کی قوت مصر سے زیادہ ہے؛ چنانچہ صحرائے سینا میں مصر کے ساتھ مسلسل تعاون سے اسرائیل کا مقصد یہ ہے کہ وہ مصری سرحد کے قریب واقع مقبوضہ فلسطینی [مبینہ اسرائیلی] شہر “ایلات” کے امن و سلامتی سے مطمئن رہے۔ [مِیدان کے بقول] جس قدر کہ دہشت گرد [یعنی فلسطین کی] مقاومتی تنظیمیں اپنی سرگرمیوں کا پیمانہ وسیع تر کر دیتی ہیں، ایلات کو درپیش خطروں میں اضافہ ہوگا۔ مصر کے صحرائے سینا میں موجود کوئی بھی خطرہ، اسرائیل کے لئے خطرے کے مترادف ہے”۔ (30)

۔۔۔۔۔۔۔جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔