مغرب میں اسلامو فوبیا کی نئی لہر
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: یورپ اور امریکہ ہمیشہ سے آزادی اظہار اور انسانی حقوق کے دفاع کا دم بھرتے ہیں لیکن ان ممالک میں قرآن کریم کی بے حرمتی پر مبنی اقدامات ان کے دعووں کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں اور ان کا اصلی چہرہ کھول کر سامنے لے آتے ہیں۔ امریکی پادری ٹیری جونز کی جانب سے دس برس پہلے قرآن کریم کو نذر آتش کرنے کے بعد مغربی فنکاروں نے بھی متعدد بار اسلامی مقدسات کی توہین کی جس کی ایک مثال چارلی ایبڈو نامی فرانسیسی میگزین میں رسول اکرم ص کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت ہے۔ اب مغرب ایک بار پھر اسلامو فوبیا کی لپیٹ میں آ چکا ہے اور سوئیڈن میں قرآن کریم کو نذر آتش کیا گیا ہے۔ اس قبیح عمل میں ملوث گروہوں سے صرف نظر کرتے ہوئے، مسلمانوں کی آسمانی کتاب کی بے حرمتی بذات خود بعض حقائق کو واضح کرتی ہے۔
قرآن کریم کی بے حرمتی پر مبنی یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ مغرب کے پاس اس آسمانی کتاب میں موجود وحی پر مبنی تعلیمات کے مقابلے میں کوئی منطقی اور معقول جواب نہیں ہے۔ مغربی تہذیب و تمدن اپنی تمام تر شان و شوکت کے باوجود قرآن کریم میں بیان ہوئے عقلی دلائل کے سامنے عاجز اور بے بس ہے۔ لہذا قرون وسطائی حکومتوں کی مانند اپنے مخالف ہر مقبول اور طاقتور سوچ کو جلا کر نابود کرنے کے درپے ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مغرب میں قرآن کریم کی بے حرمتی ایسے افراد کر رہے ہیں جنہوں نے حتی ایک بار بھی اس آسمانی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا اور اپنے اس عمل کے ذریعے اسلامی اصولوں اور تعلیمات کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کو نذر آتش کئے جانا اسلامو فوبیا کا ہی ایک حصہ ہے اور ضروری نہیں اس مہم کو چلانے والے افراد نے قرآن کریم کا مطالعہ کر رکھا ہو۔
اسلامو فوبیا مختلف قسم کے اقدامات پر مشتمل ہے جو گاہے بگاہے مغرب میں انجام پاتے رہتے ہیں۔ ٹیری جونز اور اس کے محدود حامی (50 سے بھی کم) ایسے موقع پر میڈیا کی زینت بنائے جاتے ہیں جب کروڑوں زائرین اربعین واک میں شریک ہوتے ہیں اور مغربی میڈیا میں اس حقیقت کو مکمل طور پر چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں اتنے محدود پیمانے پر انجام پانے والا قبیح عمل اس قدر وسیع انداز میں مغربی میڈیا پر دکھایا جاتا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے بڑے بڑے میڈیا چینلز اس کی مشہوری میں کردار ادا کر چکے ہیں اور ایسے چینلز ڈھکے چھپے بھی نہیں ہیں۔ اس قسم کے میڈیا ذرائع یا تو براہ راست طور پر صہیونیوں کے کنٹرول میں ہیں یا صہیونی عناصر ان کی مالی مدد کرنے میں مصروف ہیں۔
ان دنوں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے مسجد اقصی کو اپنے دشمنانہ اقدامات کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ صہیونی رژیم قبلہ اول مسلمین کی بے حرمتی کر کے اسلام کے مقابلے میں آ چکی ہے اور وہ دنیا میں اسلامو فوبیا کی سب سے بڑی حامی ہے۔ صہیونی رژیم دنیا میں سب سے بڑا میڈیا نیٹ ورک رکھتی ہے جس کے ذریعے اسلامو فوبیا پر مبنی اقدامات کی ترویج کرتی ہے۔ دوسری طرف مختلف یورپی ممالک میں اسلام دشمن انتہا پسند نیٹ ورکس پائے جاتے ہیں جو خفیہ طور پر یا کھلم کھلا سرگرم عمل رہتے ہیں۔ ان نیٹ ورکس کو اسلامی مقدسات کے خلاف نفرت کا اظہار کرنے کیلئے ایک بہانہ درکار ہوتا ہے۔ حال ہی میں سوئیڈن کے ایک شہر میں ڈنمارک کی انتہا پسند جماعت “ہارڈ لائن” کے سربراہ نے ایسا ہی ایک اقدام انجام دیا ہے جس کا مقصد یورپی معاشروں میں مسلمانوں کو گوشہ نشین کرنا ہے۔
یہ سوچ صرف انتہاپسند عناصر تک محدود نہیں بلکہ یورپی سیاست دان بھی ایسے اقدامات انجام دینے میں ان سے پیچھے نہیں رہے۔ درحقیقت یورپی سیاست دان ہی مسلمانوں پر دباو ڈالنے کیلئے ایسے اقدامات کا زمینہ فراہم کرتے ہیں۔ فرانس میں فرانسیسی صدر ایمونوئل میکرون نے سب سے بڑھ چڑھ کر توہین رسالت کے مرتکب چارلی ایبڈو میگزین کی حمایت کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے اپنے اس اقدام کی وجہ آزادی اظہار بیان کی تھی اور کہا تھا کہ مغربی جمہوریت کا بنیادی رکن آزادی اظہار ہے۔ دوسری طرف میکرون نے اسلامی پردے کو جمہوریت کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔ صدارتی الیکشن میں میکرون کی حریف سیاست دان میرین لوپین نے بھی اعلان کیا ہے کہ اگر وہ برسراقتدار آ گئیں تو اسلامی پردہ کرنے والی خواتین پر جرمانے عائد کریں گی۔
مغربی ممالک کے درمیان سوئیڈن ایسا ملک ہے جہاں اسلام مخالف اقدامات کی طویل تاریخ پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر مارچ 2020ء میں نیشنل کونسل فار کرائم کنٹرول نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں اسلام سے نفرت کی بنیاد پر انجام پانے والے مجرمانہ اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ اس رپورٹ میں ایسے بے شمار واقعات ذکر کئے گئے جو اسکولز، سرکاری دفتروں اور عام مقامات پر انجام پائے اور انہیں قانونی طور پر ثابت بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ سوئیڈن میں مختلف مساجد میں ڈاک کے ذریعے دھمکی آمیز خط اور سفید رنگ کا مشکوک پاوڈر بھیجے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملک میں اسلامو فوبیا ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ مغرب جس قدر اسلام کے پھیلاو سے خوفزدہ ہے اسی قدر اس کی جمہوریت اور آزادی اظہار کی قلعی بھی کھلتی جا رہی ہے۔
تبصرہ کریں