مقبوضہ فلسطینِ میں اگلی بڑی تبدیلی کیا ہوگی؛ نیتن یاہو کا زوال؟

غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے نے اسرائیل کے اندر اہم تبدیلیوں کو جنم دیا ہے، جو تاحال جاری ہیں۔ ایسے میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان تبدیلیوں کا اگلا شکار کوئی اور نہیں بلکہ خود "نیتن یاہو" کی شخصیت ہوگی۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے نے اسرائیل کے اندر اہم تبدیلیوں کو جنم دیا ہے، جو تاحال جاری ہیں۔ ایسے میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان تبدیلیوں کا اگلا شکار کوئی اور نہیں بلکہ خود “نیتن یاہو” کی شخصیت ہوگی۔
فارس پلس گروپ: غزہ میں جنگ بندی اور فلسطینی مزاحمت و صہیونی حکومت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے نے جنگ کی لگام کھینچ لی، ساتھ ہی انتہا پسند دائیں بازو کی جانب سے نوآبادیاتی منصوبوں، جبری بے دخلی اور غزہ کی پٹی پر قبضے کی سازشوں پر بھی روک لگادی۔
وہ لمحہ بھی آن پہنچا جب صہیونیوں کو حساب دینا پڑا، جس کا آغاز “ہرزی ہالیوی” (اسرائیلی فوج کے سربراہ) اور “یارون فِنکلمَن” (جنوبی کمان کے سربراہ) کی استعفوں سے ہوا، جبکہ اس سے پہلے بھی اعلیٰ فوجی اور انٹیلیجنس حکام مستعفی ہوچکے تھے۔
یہ احتساب صرف فوج، انٹیلیجنس اور سیکیورٹی اداروں تک محدود نہ رہا، بلکہ سیاسی سطح پر بھی اس کے اثرات نمایاں ہونے لگے۔ “ایتامار بن گویر” (وزیر برائے قومی سلامتی) نے استعفیٰ دے دیا، جبکہ “بیزلیل سموٹریچ” (نیتن یاہو کابینہ کے وزیر خزانہ) نے بھی استعفی کی دھمکی دی۔

بن گویر سے چھٹکارا
ایسا نہیں لگتا کہ نیتن یاہو نے یہ فراموش کر دیا ہوکہاپنی اتحادی حکومت بنانے کے لیے بن گویر کو کیسے مجبور کیا گیا تھا کہ وہ وہیل چیئر پر بیٹھ کر کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) میں حکومت کی تشکیل کے لیے ووٹنگ میں شریک ہو۔ اور اب، جیسا کہ اخبار “معاریو” نے لکھا ہے، نیتن یاہو نے اسی کو راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے ۔
لیکود پارٹی کے ایک باخبر ذریعے کے مطابق، “نیتن یاہو سب سے پہلے خود بن گویر کے کھیلوں سے تنگ آ چکے ہیں، اسی لیے وہ سب سے زیادہ اس سے جان چھڑانے کا خواہشمند ہیں۔”
نیتن یاہو نہ صرف بن گویر کے استعفے پر راضی ہو چکے ہیں بلکہ ان کی سیاسی طاقت اور اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے بھی ایک منصوبہ تیار کر چکے ہے۔ اس کے علاوہ، وہ آئندہ انتخابات میں بن گویر کو کنیسٹ سے باہر نکالنے کے درپے بھی ہیں۔
کچھ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیتن یاہو جلد ہی بن گویر کی پارٹی کو اندرونی طور پر کمزور کرکے اسے تباہ کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔

اسموتریچ کے ساتھ تعلقات
نیتن یاہو کے وزیر خزانہ بیزلیل اسموتریچ بھی جنگ بندی معاہدے کے مخالفین میں شامل ہیں، لیکن انہوں نے اپنا استعفیٰ مشروط کر رکھا ہے کہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے بعد غزہ میں جنگ دوبارہ شروع کی جائے۔ تاہم، چونکہ نیتن یاہو کو اس وقت اپنی کابینہ میں اس کی موجودگی کی ضرورت ہے، اس لیے وہ اسے برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسی مقصد کے لیے نیتن یاہو نے اسموتریچ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں ان کے چار بنیادی مطالبات کو پورا کریں گے:
🔺 مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کا دائرہ وسیع کرنا۔
🔺 جنین میں “آہنی دیواروں” کے نام سے مشہور فوجی آپریشن شروع کرنا۔
🔺 مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کی موجودگی میں چھ نئی ڈویژنز کا اضافہ۔
🔺 مغربی کنارے میں مزید رکاوٹیں اور چیک پوسٹیں قائم کرنا۔
22 جنوری 2025 کے “ہاآرتز” اخبار کی رپورٹ کے مطابق، صہیونی حکومت کے پاس اس وقت مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں تقریباً 900 چیک پوسٹیں اور رکاوٹیں موجود ہیں۔ یہ ان رکاوٹوں اور فوجی چیک پوسٹوں کے علاوہ ہیں جو اسرائیل اور مغربی کنارے کی سرحدی علاقوں میں قائم کی گئی ہیں۔

کیا نیتن یاہو اپنے وعدوں پر عمل کریں گے ؟
یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نیتن یاہو اسموتریچ سے کیے گئے وعدوں پر کس حد تک عمل کریں گے، خاص طور پر غزہ میں جنگ دوبارہ شروع کرنے اور ان شرائط پر جو معاہدے میں درج ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ کی دوبارہ شروعات بہت سے داخلی، علاقائی اور بین الاقوامی عوامل کی وجہ سے بعید از امکان ہے۔ وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ ایسے حالات میں نیتن یاہو اپنی بحران زدہ کابینہ کو بچانے اور اپنے انتہا پسند دائیں بازو کے اتحادیوں کو مطمئن کرنے کے لیے غزہ میں محدود فوجی کارروائی کا سہارا لے سکتا ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جس سے اسموتریچ اور دیگر انتہا پسند اسرائیلی رہنما بھی بخوبی واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ غزہ میں جنگ کی طرف واپس جانا تقریباً ناممکن ہے، اس لیے وہ اسے ایک دباؤ کی حکمت عملی کے طور پر مغربی کنارے میں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
لہٰذا، ایسا نہیں لگتا کہ اسموتریچ نیتن یاہو کی کابینہ سے مستعفی ہوگا، کیونکہ ، بن گویر اور دیگر انتہا پسند دائیں بازو کے رہنماؤں کے مفادات کا تقاضا یہی ہے کہ وہ کابینہ میں رہیں اور مغربی کنارے میں اپنے منصوبے جاری رکھیں۔

اسرائیل میں سیاسی زلزلہ
غزہ میں جنگ بندی کے بعد مختلف اسرائیلی میڈیا کے حالیہ سروے ظاہر کرتے ہیں کہ نیتن یاہو کا اتحاد جنگ کے بعد اسرائیل کے نئے سیاسی ڈھانچے کا حصہ بننے کے بجائے تباہی کے خطرے سے دوچار ہے۔
“اسرائیل الیوم” کے سروے کے مطابق، “یہ سمجھنے کے لیے کسی بڑے سیاسی تجزیہ کار کی ضرورت نہیں ہے کہ غزہ میں جنگ کے دوبارہ شروع نہ ہونے کا مطلب نیتن یاہو کا زوال اور قبل از وقت انتخابات ہیں۔”
ایسی صورتحال میں، نیتن یاہو اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے “گانتز” اور “گادی آیزنکوت” کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں اور انہیں اپنی کابینہ میں شامل کر سکتے ہیں، لیکن حتیٰ اگر وہ اس میں کامیاب بھی ہو جائیں، تب بھی وہ اپنی کابینہ کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے اور اس کے بعد ان کے سیاسی مستقبل کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا۔
“اسرائیل الیوم” کے سروے کے مطابق 70 فیصد اسرائیلی جنگ بندی اور تمام قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ “صہیونی مذہبی” پارٹی کے سروے میں، جس کی قیادت اسموتریچ کر رہے ہیں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صرف 33 فیصد پارٹی کے ارکان جنگ کے دوبارہ شروع ہونے کے حق میں ہیں، جبکہ 67 فیصد اسموتریچ کے جنگ جاری رکھنے کے موقف کی مخالفت کرتے ہیں۔
اسی طرح، صرف 8 فیصد صہیونی مذہبی پارٹی کے ارکان کا خیال ہے کہ حماس کے ساتھ معاہدہ نہیں ہونا چاہیے تھا، جبکہ 69 فیصد کا ماننا ہے کہ اسیروں کی واپسی کا معاہدہ مکمل طور پر، بشمول دوسرے اور تیسرے مراحل، نافذ ہونا چاہیے۔

اسموتریچ کی دھمکیوں کے برعکس نیتن یاہو کی کابینہ کا زوال
اسموتریچ کی طرف سے جنگ کے دوبارہ آغاز نہ ہونے کی صورت میں نیتن یاہو کی کابینہ کو گرا دینے کی دھمکیوں کے برخلاف، چینل 13 اور 12 کے سروے اور “معاریو” اور “اسرائیل الیوم” کے اخباری سروے ظاہر کرتے ہیں کہ اسموتریچ اور اس کی پارٹی کے درمیان اسرائیلیوں میں کوئی خاص مقبولیت نہیں ہے۔ اس وقت، “نفتالی بنت”، جو کہ اسرائیل کے سابق وزیرِ اعظم ہیں، نے ایک نئی پارٹی قائم کی ہے جو اسرائیلیوں میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔ یہ صرف اسموتریچ اور اس کی پارٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی نہیں ہے بلکہ نیتن یاہو کی قیادت میں لیکود کے لیے بھی ایک سنجیدہ خطرہ ہے۔
تجزیے ظاہر کرتے ہیں کہ اگر “بنت” اور “گیدئون سار” آئندہ انتخابات میں لیکود کے مقابلے میں امیدوار ہوں، تو بنت کی قیادت میں لیکود 5 سیٹیں کھو دے گی اور اس کی سیٹوں کی تعداد 28 سے کم ہو کر 23 ہو جائے گی۔ اسی طرح، گانتز اپنی 7 سیٹیں کھو دیں گے اور ان کی سیٹیں 11 تک محدود رہ جائیں گی، جب کہ یائر لاپید 5 سیٹیں کھو کر اپنی سیٹوں کی تعداد 9 تک محدود کر لیں گے۔
ایسی صورتحال میں، دیگر جماعتوں کی متوقع کامیابیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، نیتن یاہو کے اتحاد کو 47 سیٹیں ملیں گی، مخالفین کو 63 سیٹیں ملیں گی اور عرب جماعتوں کو 10 سیٹیں حاصل ہوں گی۔

سیاست مداروں کی قربان گاہ پر فوج
“آموس ہارل”، “ہاآرتص” کے تجزیہ کار، ہالیوی کو سیاسیوں کی پہلی قربانی قرار دیتے ہیں، خاص طور پر نیتن یاہو کو جو اقتدار میں رہنے کے لیے ہر حربے کا سہارا لے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “اب جبکہ نیتن یاہو نے ہالیوی کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا ہے، اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ اسرائیلی فوج اس وقت پہلے سے زیادہ تھکی اور بیزار ہے، اور اس کی دوبارہ توانائی کے لیے، نیتن یاہو کے قریب کسی فرد کی ضرورت نہیں، بلکہ اسے ایک طاقتور شخصیت کی ضرورت ہے۔”
ہارل مزید کہتے ہیں، “یہ خطرہ بہت شدید ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت کے جاری رہنے سے، اسرائیلی پولیس کے دوران بن گویر کی وزارت میں جو تباہی آئی تھی، وہی اب فوج میں ہو، اور یہ سب نیتن یاہو کی طرف سے ہو کیونکہ وہ اقتدار میں رہنے کے لیے کسی چیز کو قربان کرنے سے گریز نہیں کرتا۔”
بہت سے لوگوں نے اسرائیلی فوج کے سر براہ ہالیوی کے استعفے کو جنگ بندی معاہدے کے بعد اسرائیلی سیاسی ڈھانچے میں زلزلہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس استعفے کا پہلا نتیجہ کابینہ کے اتحاد میں طاقت کے توازن میں تبدیلی ہوگا، جو نیتن یاہو کی سیاسی زندگی کے سب سے حساس لمحوں میں سے ایک ہوگا اور وہ اپنے اقتدار کے لیے بڑے چیلنجز کا سامنا کریں گے
اسی دوران یہ توقع کی جا رہی ہے کہ ہالیوی اور فینکلمن کے استعفے اسرائیل کے سیکیورٹی اور فوجی اداروں میں استعفوں کی ایک لہر پیدا کریں گے، جو نیتن یاہو پر جنگ میں شکست کی سیاسی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کا سبب ہونگے اور اس کا مطلب نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کا زوال ہوگا۔

نیتن یاہو کی کابینہ کا زوال
ہالیوی کا دیر سے استعفیٰ، نیتن یاہو کے دباؤ کے نتیجے میں آیا۔ اب، “آیال زامیر”، جو وزارت دفاع کے جنرل ڈائریکٹر اور “سارہ نیتن یاہو” کے امیدوار ہیں، ہالیوی کے جانشین بننے کے لیے سب سے زیادہ امکانات رکھتے ہیں۔
یقیناً نیتن یاہو ان شخصیات کی جگہ جو فوجی اور سیکیورٹی عہدوں سے مستعفی یا برطرف ہو چکی ہیں، ایسے افراد کو لائیں گے جو اس کے وفادار ہوں، اور یہ نیتن یاہو اور ان کے اتحادیوں کا منصوبہ ہے۔ یہ اقدام فوج کے مستقبل کے ڈھانچے پر بڑے اثرات مرتب کرے گا اور فوجی اور سیکیورٹی اداروں کو نیتن یاہو کے سیاسی مفادات کے لیے قربانی بنا دے گا تاکہ وہ اقتدار میں باقی رہ سکے۔
نیتن یاہو کا یہ اقدام فوج کو سیاسی فیصلے کرنے کے لیے ایک آلے میں تبدیل کرنے کے مترادف ہے، اور یہ اسرائیل کے ان اصولوں کو توڑ دے گا جن پر ملک اب تک قائم تھا، وہ اصول جو فوج کو ایک “مقدس گائے” کے طور پر دیکھتے ہیں جسے نہ چھوا جائے نہ اس کے قریب جایا جائے۔ اب نیتن یاہو اپنی اقتدار کی بقا کے لیے اس “مقدس گائے” کو قربان کر رہا ہے۔
نیتن یاہو اپوزیشن کو بھی نظرانداز نہیں کرتے، جس کی کمزوری اب تک ان کے لیے بچاؤ کا باعث بنی ہے، لیکن معاہدے پر دستخط کے بعد، توقع کی جاتی ہے کہ اپوزیشن مزید طاقتور ہوگی اور جنگ کے دوران حاصل کردہ تجربات کی بنا پر نیتن یاہو کے سامنے زیادہ طاقتور انداز میں آئے گی۔ یہ ایک ایسا خطرہ ہے جس سے نیتن یاہو بخوبی آگاہ ہے، اور اسی وجہ سے انہوں نے “گیدون سار” کو کابینہ میں واپس بلایا ہے۔
لیکن حتیٰ اگر نیتن یاہو تمام سیاسی چالوں کا سہارا لے کر خود کو اقتدار میں برقرار رکھ بھی لیں، تو وہ جنگ کے حوالے سے سچائی کے کمیشن اور کرپشن کے الزامات کے تحت اپنے مقدمات میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکیں گے اور یہ تمام چیزیں اس کے ان کے لیے ایک ایسا پھندا بنیں گی جو بالآخر انہیں اقتدار سے نیچے گرا دیں گی