مقدسات کی اہانت اور ہمارا رد عمل (۲)

 جیسا کہ واضح ہے غلط ترجمے کی بنیاد پر  اتنا بڑا انتشار پیدا ہوا جوانوں کے درمیان  غصے و برہمی کی لہر دوڑ گئی ،ہر ایک نے اپنے  اپنے اعتبار سے جو بن پڑا اس اقدام کی مخالفت میں کیا لیکن ہم سب کو اس بات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کسی ایک فرد کی ایک مجرمانہ فکر کو ہرگز پورے فرقے کے سر نہ منڈھا  جائے کسی ایک فرد کی غلطی کو اسکے مکتب سے جوڑ کر دیکھنا غلط ہے

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ

پیش کی گئی حدیث کا جواب :

حیدرآباد کے رہنے والے نام نہاد  اصلاح پسند  سنت پیغمبر کے ٹھیکدار مسلمان نے امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے سلسلہ سے جو حدیث پیش کی وہ  مکمل کچھ یوں تھی :

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں : یقینا  صماء صیلم کا فتنہ اٹھے گا جس میں  چالاک اور محتاط رہنے والے بھی گرفتار ہوں گے اور یہ تب ہوگا جب ہمارے فرزند وں میں سے شیعہ  تیسرے کو کھو دیں گے ، اس وقت اہل آسمان و زمین  اس پر گریہ کریں گے  کتنے ایسے مومن ہوں گے  { صاف اور زلال  پانی }جو  ماء معین  سے تشنہ رہیں گے اور حیران و پریشان افسوس کی حالت میں ہوں گے  گویا میں انہیں اس خاص کیفیت میں  دیکھ رہا ہوں یقینا وہ آواز دیں گے ندا دیں گے اور یہ آواز دور تک کے لوگ بھی سنیں گے جس طرح نزدیک  کے لوگ سنیں گے  یہ آواز اہل ایمان کے لئے رحمت کا سبب ہوگی اور کافروں کے لئے باعث عذاب ہوگی  حسن بن محبوب نے سوال کیا یہ آواز کیسی ہوگی ؟ آپ نے فرمایا: ماہ رجب میں آسمان سے تین آوازیں بلند ہوں گے پہلی آواز یہ ہوگی  اللہ کی لعنت ہے ظالموں کے اوپر دوسری آواز  میں کہا جائے گا  ائے اہل ایمان  محشر کا دن نزدیک ہے ، تیسری آواز میں سورج کی سمت سے واضح طور پر ایک ایک شخص کو لوگ دیکھیں گے جو کہہ رہا ہے ” یہ امیر المومنین ہے جو ظالموں پر حملہ کے لئے تیار ہے حمیری کی روایت میں ہے کہ تیسری آواز میں  سورج کے نزدیک  واضح شکل و شمائل کو لوگ دیکھیں گے  جو کہے گا ، خدا نے فلاں کو بھیجا  ہے اسکی باتوں کو سنو اور اسکی پیروی کرو  دونوں راوی کہتے ہیں  یہی وہ موقع ہوگا جب لوگوں کی آزادی حاصل ہوگی اور جو لوگ اس دنیا سے گزر گئے ہیں انکی آرزو بھی یہی ہوگی کہ کاش اس وقت با حیات ہوتے  خد اہل ایمان  کے دلوں کو {  ا س طرح } شفا عطا کرے گا[1]۔

اسی قسم کی ایک اور روایت بھی ہے جس میں اسی مفہوم کو دوسرے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے لیکن بدن کے ساتھ بارزا کی قید یہاں نہیں ہے  [2]۔

جو کچھ بھی معترض نے پیش کیا ہے وہ عربی متون سے نا آشنائی کی دلیل بالکل واضح ہے کہ روایت اس بات کو بیان کر رہی ہے کہ جب امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف تشریف لائیں گے تو ڈھکے چھپے انداز میں نہیں آئیں گے بالکل واضح طور پر اس طرح آئیں گے کہ سب انہیں دیکھ سکیں اسی طرح جو ندا بلند ہوگی وہ بھی اس طرح ہوگی کہ دور و نزدیک کے لوگ سن سکیں۔

اگر ہم حدیث پر غور کریں  تو اندازہ ہوگا کہ جن عربی کلمات کا مطلب معترض نے یہ نکالا ہے کہ شیعوں کے امام برہنہ  ظہور کریں گے وہ بالکل واضح ہیں  ترجمہ غلط کیا گیا ہے  عربی کا لفظ جو استعمال ہوا ہے  وہ لفظ بارز ہے جس کے معنی واضح اور روشن کے ہیں[3] چنانچہ روایت میں کہا گیا ہے ” يَرَوْنَ بَدَناً بَارِزاً” اسکا مطلب ہرگز  برہنہ نہیں ہوتا ہے  اسی لئے لغت میں بارز کو برز سے بیان گیا گیا ہے جسکا مطلب آشکار و واضح ہونا ہے  یہاں پر ظہور کی کیفیت کو بیان کیا جا رہا ہے کہ ظہور اتنا واضح ہوگا جس سے پہلے کسی نے ایسے نہیں دیکھا ہوگا  یہاں بارز ہونا باطن کے مقابل پر ظاہر ہونا نہیں ہے بلکہ  ایک ایسے ظہور کو بیان کیا جا رہا ہے جو اس سے پہلے نہیں ہوا ہے [4] چونکہ بدنا بارزا   ایک  طاقت  ور شخص کے واضح وجود کی طرف بھی اشارہ کی صورت استعمال ہوتا ہے [5]ہماری اس بات کی دلیل قرآن کریم کی وہ آیات ہیں جن میں یہی لفظ استعمال ہوا ہے لیکن برہنہ ہونے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ واضح اور آشکار ہونے کے بارے میں ہے  مثلا سورہ غافر کی سولہویں نمبر کی آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

جس دن سب نکل کر سامنے آجائیں گے اور خدا پر کوئی بات مخفی نہیں رہ جائے گی – آج کس کا ملک ہے بس خدائے واحد و قہار کا ملک ہے[6] اس آیت میں جیسا کہ واضح ہے بارز جمع کی صورت میں آیا ہے  اور اس بات کی طرف اشارہ ہے سب کھل  کر رب کے سامنے ہوں گے اگر کوئی کچھ چھپانا بھی چاہے گا تو نہیں چھپا سکے گا  [7] ؟

اسی طرح دوسری آیت میں  یہی لفظ بارز اس طرح آیا ہے :

جب ہم پہاڑوں کو حرکت میں لائیں گے اور تم زمین کو بالکل کھلا ہوا دیکھو گے اور ہم سب کو اس طرح جمع کریں گے کہ کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے[8] یہاں پر بھی لفظ بارز واضح اور کھلے کے معنی میں ہے  یہ آیت واضح طور پر کہہ رہی ہے کہ زمین کی پستی و اونچائی ختم ہو جائے گی اور اس پر کسی کا بس نہ ہوگا  کوئی زمین پر اپنا حکم نافذ نہیں کر سکے گا اس لئے کہ پہاڑوں کو بھی حرکت ہوگی جسکی وجہ سے سب کچھ بالکل عیاں و واضح ہوگا [9]

اب اگر کوئی اسکا مفہوم یہ نکالے کہ زمین اللہ کے حضور برہنہ ہوگی  سب اللہ کے حضور برہنہ ہوں گے تو کیا یہ حماقت نہیں ہے ؟   بہر کیف ہم نے بہت مختصر طور پر اس بات کی تا حد امکان وضاحت کر دی انشاء اللہ اگر کسی کے ذہن میں کوئی شبہہ ہو تو  اب دور ہو گیا ہوگا ۔

قابل غور بات :

جیسا کہ واضح ہے غلط ترجمے کی بنیاد پر  اتنا بڑا انتشار پیدا ہوا جوانوں کے درمیان  غصے و برہمی کی لہر دوڑ گئی ،ہر ایک نے اپنے  اپنے اعتبار سے جو بن پڑا اس اقدام کی مخالفت میں کیا لیکن ہم سب کو اس بات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کسی ایک فرد کی ایک مجرمانہ فکر کو ہرگز پورے فرقے کے سر نہ منڈھا  جائے کسی ایک فرد کی غلطی کو اسکے مکتب سے جوڑ کر دیکھنا غلط ہے کیونکہ بہت سے علماء اہلسنت ایسے ہیں جنکی نظر میں امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی شخصیت اسی طرح معتبر و مقدس ہے جس  طرح ہمارے یہاں ہے ۔ یقینا جب کسی کے مقدسات کی توہین ہوتی ہے تو دل زخمی ہوتا ہے اور جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے لیکن ہمارے پیش نظر امیر المومنین علیہ السلام کا کردار  ہونا  چاہیے جس میں آپ نے اپنے دشمن سے مقابلہ تو ضرور کیا ہے اسکا جواب تو ضرور دیا ہے لیکن اسکی اہانت ہرگز نہیں کی ہے ، جنگ خندق کا واقعہ گواہ ہے کہ علی ع کس  عظیم شخصیت کا نام ہے جو دشمن کی اہانت کا جواب دینا چاہتا ہے تو اپنے دشمن کے دانت توڑ کر آنکھیں پھوڑ کر  زبان کاٹ کر  اس منھ میں خاک  بھر کر دے سکتا ہے جس نے ملعون نے  مولا پر لعاب دہن ڈالا  لیکن علی ع  کی ذات اس سے کہیں بلند ہے کہ اپنی اہانت کا بدلہ اس دشمن سے لے جسے اپنے قوت بازو سے زیر کر سکتاہو ، علی ع کے عمل نے واضح کیا میرا سجدہ بھی رب کے لئے ہے میری جنگ میں مالک کی اطاعت و بندگی کی خاطر ہے ، میں مصلے پپر ہوں یا جنگ میں  میرے پیش نظر میری ذات نہیں رہتی بلکہ خدا رہتا ہے اور یہی چیز ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ  ہم اپنی فکر کو اپنے کردار کو ویسا بنائیں  کہ علی ع دیکھیں تو مسکرا دیں ، یعنی اپنے دشمن کا جواب دیں تو بھر پور اس انداز میں جیسے ذوالفقار  فرق دشمن پر برق بنکے چلتی ہے ، لیکن اپنے دامن شرافت پر کوئی داغ نہ آنے دیں ۔

حواشی

[1] ۔وَ قَالَ اَلرِّضَا عَلَيْهِ السَّلاَمُ : لاَ بُدَّ مِنْ فِتْنَةٍ صَمَّاءَ صَيْلَمٍ يَسْقُطُ فِيهَا كُلُّ بِطَانَةٍ وَ وَلِيجَةٍ وَ ذَلِكَ عِنْدَ فِقْدَانِ اَلشِّيعَةِ اَلثَّالِثَ مِنْ وُلْدِي يَبْكِي عَلَيْهِ أَهْلُ اَلسَّمَاءِ وَ أَهْلُ اَلْأَرْضِ وَ كَمْ مِنْ مُؤْمِنٍ مُتَأَسِّفٍ حَرَّانَ حَيْرَانَ حَزِينٍ عِنْدَ فِقْدَانِ اَلْمَاءِ اَلْمَعِينِ كَأَنِّي بِهِمْ شَرَّ مَا يَكُونُونَ وَ قَدْ نُودُوا نِدَاءً يَسْمَعُهُ مَنْ بَعُدَ كَمَا يَسْمَعُهُ مَنْ قَرُبَ يَكُونُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ وَ عَذَاباً عَلَى اَلْكَافِرِينَ فَقَالَ لَهُ اَلْحَسَنُ بْنُ مَحْبُوبٍ وَ أَيُّ نِدَاءٍ هُوَ قَالَ يُنَادَوْنَ فِي شَهْرِ رَجَبٍ ثَلاَثَةَ أَصْوَاتٍ مِنَ اَلسَّمَاءِ صَوْتاً أَلاٰ لَعْنَةُ اَللّٰهِ عَلَى اَلظّٰالِمِينَ  وَ اَلصَّوْتُ اَلثَّانِي أَزِفَتِ اَلْآزِفَةُ  يَا مَعْشَرَ اَلْمُؤْمِنِينَ وَ اَلصَّوْتُ اَلثَّالِثُ يَرَوْنَ بَدَناً بَارِزاً نَحْوَ عَيْنِ اَلشَّمْسِ هَذَا أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ قَدْ كَرَّ فِي هَلاَكِ اَلظَّالِمِينَ وَ فِي رِوَايَةِ اَلْحِمْيَرِيِّ وَ اَلصَّوْتُ اَلثَّالِثُ بَدَنٌ يُرَى فِي قَرْنِ اَلشَّمْسِ يَقُولُ إِنَّ اَللَّهَ بَعَثَ فُلاَناً فَاسْمَعُوا لَهُ وَ أَطِيعُوا . وَ قَالاَ جَمِيعاً فَعِنْدَ ذَلِكَ يَأْتِي لِلنَّاسِ اَلْفَرَجُ وَ يَوَدُّ اَلْأَمْوَاتُ أَنْ لَوْ كَانُوا أَحْيَاءً وَ يَشْفِي اَللَّهُ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ۔

۔ شیخ طوسی، کتاب الغیبة، محقق و مصحح: تهرانی، عباد الله، ناصح، علی احمد، ص 440، دار المعارف الإسلامیة، قم، چاپ اول، 1411ق؛ قطب الدین راوندی، سعید بن عبد اللّٰه، الخرائج و الجرائح، ج ‏3، ص 1169، مؤسسه امام مهدی (عج)، قم، چاپ اول، 1409ق؛  ایضا   الجزء الثالث  الباب العشرون في علامات و مراتب نبينا و أوصيائه عليه و عليهم أفضل الصلاة و أتم السلام  باب العلامات الكائنة قبل خروج المهدي و معه عليه السّلام ،شیخ حر عاملی، اثبات الهداة بالنصوص و المعجزات، ج ‏5، ص 355،اعلمی، بیروت، چاپ اول، 1425ق,  صفحه۱۱۶۸  , و جلد۳  ,  صفحه۱۱۶۸

[2]  ۔ وَ الصَّوْتُ بَدَنٌ يُرَى فِي قَرْنِ الشَّمْسِ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ فُلَاناً فَاسْمَعُوا لَهُ وَ أَطِيعُوا وَ قَالا جَمِيعاً فَعِنْدَ ذَلِكَ يَأْتِي‏ النَّاسَ الْفَرَجُ وَ تَوَدُّ النَّاسُ لَوْ كَانُوا أَحْيَاءً وَ يَشْفِي اللَّهُ‏ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ

کتاب الغیبة، ص 440؛ الخرائج و الجرائح، ج ‏3، ص 1169؛ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ‏52، ص 289 – 290، دار إحیاء التراث العربی، بیروت، چاپ دوم، 1403ق.

[3]  ۔ ابن فارس، أحمد، معجم مقاییس اللغة، محقق و مصحح: هارون، عبدالسلام محمد، ج 1، ص 218، مکتب الاعلام الاسلامی، قم، چاپ اول، 1404ق؛ طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، محقق: حسینى اشکورى، احمد، ج 4، ص 7 – 8، کتابفروشی مرتضوی، تهران، چاپ سوم، 1375ش؛ لغت نامه دهخدا، واژه «بارز».

[4]  ۔ مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج ‏1، ص 251، دار الکتب العلمیة، مرکز نشر اثار علامه مصطفوی‏، بیروت، قاهره، لندن‏، چاپ سوم.

[5]  تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ج ‏13، ص 48، دار صادر، بیروت، چاپ سوم؛ بستانی، فؤاد افرام، مهیار، رضا، فرهنگ ابجدی عربی-فارسی، ص 179، انتشارات اسلامی، تهران، چاپ دوم، 1375ش.

[6]  ۔ يَوْمَ هُمْ بَارِزُونَ لاَ يَخْفَى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْ‌ءٌ لِمَنِ الْمُلْکُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ(  غافر ، ۱۶ )

[7]  ۔ مزید تفصیل کے لئے رجوع کریں : مدرسی، سید محمد تقی، من هدی القرآن، ج ‏12، ص 39 – 40، دار محبی الحسین، تهران، چاپ اول، 1419ق.

[8]  ۔ وَ يَوْمَ نُسَيِّرُالْجِبَالَ وَ تَرَى الْأَرْضَ بَارِزَةً وَ حَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً، کھف ۴۷

[9]  ۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو :  التحقيق فى كلمات القرآن الكريم، ج ‏1، ص 251 – 252؛ تفسير روشن، ج ‏13، ص 269.