میزائل ٹیکنالوجی سے لیس ہوتا مغربی کنارہ اور اسرائیل کا خوف و ہراس

بعض صیہونی ذرائع کا دعوی ہے کہ مغربی کنارے میں روز افزوں خطرے کو کم اہمیت ظاہر کرنے کی وجہ صیہونیوں کو نفسیاتی دباو سے بچانا ہے۔ یروشلم پوسٹ اس بارے میں لکھتا ہے کہ مغربی کنارے سے فائر ہونے والے میزائلوں کو بڑا خطرہ بنا کر پیش کرنا باعث تشویش ہے۔ کیونکہ اس سے فلسطینی گروہوں کے اس مقصد کی تکمیل ہوتی ہے کہ اسرائیلیوں میں خوف و ہراس پھیل جائے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: پیر 26 جون 2023ء کے دن مغربی کنارے کے شہر جنین سے دو میزائل فائر کئے گئے۔ اسرائیلی ذرائع نے اس واقعہ کو گذشتہ 18 برس میں انتہائی اہم اور خطرناک تبدیلی قرار دیا ہے۔ یہ واقعہ تہران کے اس نقطہ نظر کی تقویت کا باعث بنا ہے کہ مغربی کنارے کو بھی غزہ کی طرح اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کیلئے ایک چیلنج بن کر سامنے آنا چاہئے۔ صیہونی اخبار یروشلم پوسٹ نے اس بارے میں لکھا کہ اگرچہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ میزائل کس نے فائر کئے ہیں اور ان کے پاس مزید میزائل یا دھماکہ خیز مادہ موجود ہے یا نہیں، لیکن تل ابیب کے سکیورٹی حلقوں میں اس واقعہ پر تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ خاص طور پر یہ کہ گذشتہ ہفتے جب اسرائیلی فوجی دو فلسطینیوں کو گرفتار کرنے جنین کیمپ گئے تو ان کے راستے میں 45 کلو وزنی بم دھماکہ کیا گیا۔

یروشلم پوسٹ مزید لکھتا ہے کہ اس بم دھماکے کے نتیجے میں اسرائیل کی بکتر بند گاڑی ناکارہ ہو گئی اور سات اسرائیلی فوجی بھی زخمی ہو گئے۔ اگرچہ صیہونی فوج نے اعلان کیا ہے وہ اس واقعہ کے بارے میں تحقیق جاری رکھے ہوئے ہے لیکن تل ابیب کے سکیورٹی حلقوں میں اس بارے میں دو رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے وہ ہے جس کے بارے میں شین بیٹ (اسرائیلی سکیورٹی ایجنسی) کے سربراہ رونین بار نے خبردار کر رکھا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ مغربی کنارے میں فلسطینی میزائل تیار کر کے اسرائیل کو نشانہ بنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس نے مزید کہا تھا کہ اگر مغربی کنارے میں فلسطینی گروہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اسرائیل کے میزائل ڈیفنس سسٹم کے مقابلے میں ایک بالکل نیا محاذ کھل جائے گا جو اب تک صرف لبنان یا غزہ کے میزائلوں کا مقابلہ کرتا آیا ہے۔

لیکوڈ پارٹی کے رہنما ڈینی دانون نے پیر کے دن صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: “میں نے اسرائیلی فوج کے ترجمان کی رپورٹ دیکھی ہے جس میں آیا ہے کہ آج صبح جنین سے ایک میزائل فائر کیا گیا ہے۔ گذشتہ ہفتے چار یہودی قتل ہوئے ہیں اور ہم نے ابھی تک کوئی ردعمل نہیں دیکھا۔ ہم کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں؟ منتظر ہیں کہ جنین بھی غزہ بن جائے؟ ” اس نے مزید کہا: “ہم جانتے ہیں کہ سامرہ (مغربی کنارے) میں انارکی کی صورتحال مزید شدید ہونے سے روکنے کیلئے ہمارے پاس طے شدہ منصوبہ موجود ہے لیکن کیوں سیاسی سطح پر اس منصوبے کو اجرا نہیں کیا جاتا؟” قومی وحدت پارٹی کے سربراہ بنی گانتز نے بھی نیتن یاہو کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

بنی گانتز نے نیتن یاہو کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا: “دہشت گردی سے جنگ کے ایشو میں جب تک آپ اور آپ کی حکومت ذمہ دارانہ انداز میں عمل کرے گی ہماری مکمل حمایت سے برخوردار رہے گی۔ آج جنین سے میزائل برسائے جانے میں اضافہ ہو رہا ہے اور دہشت گرد تنظیمیں مزید جری ہوتی جا رہی ہیں۔” اسی پہلی رائے کے تناظر میں صیہونی اخبار یدیعوت آحارنوٹ نے بھی کل ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی سکیورٹی ایجنسیز نے وزیراعظم کو یہ مشورہ دیا ہے کہ: “وہ مغربی کنارے میں “محدود فوجی آپریشن” انجام دے۔ سکیورٹی ذرائع کے بقول اس فوجی آپریشن میں 25 اسرائیلی بٹالینز شریک ہوں گی اور 48 گھنٹے تک جنین کیمپ کو شدید حملوں کا نشانہ بنائیں گی۔” یدیعوت آحارنوٹ مزید لکھتا ہے: “مغربی کنارے سے میزائل فائر کئے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم جنگ کے نئے دور میں داخل ہونے والے ہیں۔”

مذکورہ بالا واقعہ کے بارے میں ایک دوسری رائے بھی پائی جاتی ہے جو “اکیلے بھیڑیوں” کے مفروضے پر مشتمل ہے۔ یروشلم پوسٹ نے کل اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ اگرچہ حماس نے جنین میں فائر کئے گئے میزائلوں کی ذمہ داری قبول کی ہے لیکن اسرائیل کے سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ جنین کے علاقے سے فائر کیا گیا میزائل کو زیادہ طویل فاصلہ بھی طے نہیں کر پایا ایک “اکیلے بھیڑیے” کا کام ہے نہ کہ حماس کا۔ “اکیلے بھیڑیے کے حملے” کا ماڈل ایسے اکیلے کھلاڑی کے حملے پر اطلاق ہوتا ہے جو ایک شخص اپنی ذاتی کاوش کے تحت انجام دیتا ہے اور ضروری نہیں وہ کسی منظم گروہ کا حصہ بھی ہو۔ اکثر اوقات اسے کوئی بڑا مسئلہ نہیں سمجھا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ یروشلم پوسٹ اپنے سکیورٹی ذرائع کے بقول لکھتا ہے کہ جنین سے فائر ہونے والے دونوں میزائل دھماکہ خیز مواد سے عاری تھے اور 100 میٹر سے بھی کم فاصلے پر جا کر گے۔

دوسری طرف بعض صیہونی ذرائع کا دعوی ہے کہ مغربی کنارے میں روز افزوں خطرے کو کم اہمیت ظاہر کرنے کی وجہ صیہونیوں کو نفسیاتی دباو سے بچانا ہے۔ یروشلم پوسٹ اس بارے میں لکھتا ہے کہ مغربی کنارے سے فائر ہونے والے میزائلوں کو بڑا خطرہ بنا کر پیش کرنا باعث تشویش ہے۔ کیونکہ اس سے فلسطینی گروہوں کے اس مقصد کی تکمیل ہوتی ہے کہ اسرائیلیوں میں خوف و ہراس پھیل جائے۔ وہ بھی خاص طور پر ایسے حالات میں جب مقبوضہ فلسطین میں عوامی احتجاج اور ہڑتالیں اپنے عروج پر ہیں۔ حال ہی میں صیہونی فوج کے 300 ڈاکٹرز نے دھمکی دی ہے کہ اگر نیتن یاہو کی کابینہ عدلیہ میں اصلاحات کا بل منظور کروانے کی کوشش جاری رکھتی ہے تو وہ ہڑتال کر دیں گے۔ انہوں نے وزیر جنگ کو خط بھی لکھا ہے جس میں ان اصلاحات کو ریاست کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔