نیا مشرق وسطیٰ کس کے ہاتھوں تشکیل پائے گا: مزاحمت یا اسرائیل؟

حالیہ ہفتوں میں خطے میں دو انتہائی اہم پیش رفتیں دیکھنے میں آئیں، جو دونوں مزاحمتی محور سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہ پیش رفتیں نہ صرف موجودہ حالات بلکہ خطے کے مستقبل پر بھی اس کے اثر و رسوخ اور پائیداری کو ثابت کرتی ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: حالیہ ہفتوں میں خطے میں دو انتہائی اہم پیش رفتیں دیکھنے میں آئیں، جو دونوں مزاحمتی محور سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہ پیش رفتیں نہ صرف موجودہ حالات بلکہ خطے کے مستقبل پر بھی اس کے اثر و رسوخ اور پائیداری کو ثابت کرتی ہیں۔
فارس پلس: امریکہ کی مشرق وسطیٰ سے متعلق خارجہ پالیسی ہمیشہ ایک تغیر پذیر منظرنامہ رہی ہے، لیکن بعض اوقات اس میں شدید موڑ آتے ہیں جو بظاہر وقتی فیصلے لگتے ہیں، مگر درحقیقت طویل مدتی حکمت عملیوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ جب ٹرمپ انتظامیہ نے براہ راست حماس کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا، تو یہ محض ایک عارضی سفارتی قدم نہیں تھا، بلکہ اسرائیل کی اس ناکامی کا غیر اعلانیہ اعتراف تھا کہ وہ اپنے قیدیوں کے مسئلے کو سنبھالنے اور فلسطینی تنازعے پر اپنی مکمل گرفت قائم رکھنے میں ناکام ہو چکا ہے۔
یہ پالیسی کی تبدیلی امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات میں گہرے بحران کو بے نقاب کرتی ہے اور ایک نئی سیاسی حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے جو خطے میں طاقت کے توازن کو بدل سکتی ہے۔

بحران کو سنبھالنے میں صہیونی ریاست کی ناکامی

واشنگٹن کا حماس سے مذاکرات کا فیصلہ اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کی حکومت کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکا تھا۔ نیتن یاہو طویل عرصے سے خود کو امریکہ کا ناگزیر اتحادی قرار دیتا رہا ہے، لیکن یہ فیصلہ اچانک نہیں تھا، بلکہ اس کی وجہ اسرائیل کی مسلسل حکمت عملی کی ناکامیاں تھیں۔
خاص طور پر نیتن یاہو کی طرف سے حماس کے ساتھ مذاکرات سے سخت انکار، حالانکہ قیدیوں کے بحران کے فوری حل کی ضرورت تھی، جو اس فیصلے کے اہم ترین عوامل میں سے ایک تھا۔
اسرائیل کئی سالوں سے تاخیری حربے استعمال کر رہا ہے اور وقت گزار کر پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے صرف ان سے بچنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ تاہم، ہر گزرتا لمحہ بغیر کسی معاہدے کے اسرائیل کی بین الاقوامی ساکھ کو کمزور کر رہا ہے اور اس کے مخالفین کے اثر و رسوخ میں اضافہ کر رہا ہے۔
یہ قلیل المدتی حکمت عملی بالآخر امریکہ کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ براہِ راست مداخلت کرے اور اپنے روایتی ثالث یعنی اسرائیل کو نظرانداز کرے۔
یہ رویہ اس بات کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ امریکہ کو اب نیتن یاہو کی حکومت پر اس حد تک اعتماد نہیں رہا کہ وہ اسرائیلی اور امریکی قیدیوں کے مسئلے کو محض سیاسی اور جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کر کسی مؤثر حل تک پہنچا سکے۔

واشنگٹن کی پالیسی میں حماس کی طرف جھکاؤ کے نتائج

ٹرمپ انتظامیہ کا حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا فیصلہ فلسطین کے مسئلے کے حوالے سے امریکی پالیسی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کئی دہائیوں تک، امریکہ نے سخت مؤقف اپنایا اور ان تنظیموں سے براہ راست رابطے سے انکار کیا جنہیں وہ دہشت گرد قرار دیتا رہا ہے، اور ہمیشہ فلسطینی نمائندگی کو صرف فلسطینی اتھارٹی تک محدود رکھنے پر زور دیا۔ لیکن خاص طور پر غزہ میں زمینی حقائق نے ایسی نئی مساوات مسلط کر دی ہیں جنہیں مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
یہ فیصلہ تین اسٹریٹیجک پیغامات رکھتا ہے:
🔺 اسرائیل کو نظرانداز کرنا
واشنگٹن کا حماس سے براہ راست رابطہ اسرائیل کی فلسطینی مذاکرات پر اجارہ داری کے خاتمے کی علامت ہے۔ تل ابیب اب واحد فریق نہیں رہا جو امریکہ کے علاقائی مفادات کی نمائندگی کر سکتا ہے۔ یہ پیش رفت اسرائیل کی اُس روایتی حیثیت کو کمزور کر رہی ہے جو اسے امریکہ کے لیے ایک ناگزیر شراکت دار کے طور پر حاصل تھی۔
🔺 فلسطینی اتھارٹی کو نظرانداز کرنا
امریکہ کا حماس سے براہ راست مذاکرات کرنا اس بات کی علامت ہے کہ فلسطینی اتھارٹی، خاص طور پر محمود عباس کی قیادت میں، واشنگٹن کی نظر میں غیر مؤثر اور غیر معتبر ہو چکی ہے۔ بدعنوانی، جمود اور مناسب سیاسی متبادل فراہم کرنے میں ناکامی نے فلسطینی اتھارٹی کو “سیاسی طور پر مردہ” بنا دیا ہے۔ یہ پالیسی ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ اب فلسطینی اتھارٹی کو فلسطینی عوام کی نمائندگی کے لیے قابلِ اعتماد فریق نہیں سمجھتا۔
🔺 حماس کو ایک جائز سیاسی فریق تسلیم کرنا
امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر حماس کی موجودگی اس کی سیاسی حیثیت کے غیر رسمی اعتراف کے مترادف ہے، چاہے اسے سرکاری طور پر تسلیم نہ کیا جائے۔ یہ اقدام خطے اور بین الاقوامی سطح پر حماس کے لیے نئے دروازے کھول سکتا ہے، جس سے وہ ان دارالحکومتوں کے ساتھ روابط قائم کر سکتی ہے جو پہلے امریکی اور اسرائیلی ردِعمل کے خوف سے اس سے دور رہتے تھے۔

ٹرمپ کی حکمت عملی: سب سے پہلے عملیت پسندی

ٹرمپ انتظامیہ کا حماس کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ ایک عملی (پراگمیٹک) نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے، جو ان نظریاتی پابندیوں سے بالاتر ہے جو دہائیوں تک امریکی پالیسی پر حاوی رہی ہیں۔ اس وقت فلسطین کے معاملے میں ٹرمپ کی اولین ترجیح حماس کے پاس موجود امریکی قیدیوں کی بازیابی ہے، کیونکہ یہ براہ راست ان کی بطور ایک مضبوط صدر کی شبیہ سے جڑا ہوا ہے، جو اپنے شہریوں کی حفاظت کر سکتا ہے۔
ٹرمپ، جو “ڈیل میکر” کے طور پر اپنی صلاحیتوں پر فخر کرتے ہیں، حماس کو فلسطینی اتھارٹی کے مقابلے میں زیادہ طاقتور اور مؤثر فریق سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے اصل اہمیت ان نتائج کی ہے جو ان کے اندرونی سیاسی مفادات کو فائدہ پہنچا سکیں، بجائے اس کے کہ وہ روایتی اصطلاحات جیسے “دہشت گردی” اور “اعتدال پسند” کی بحث میں الجھیں۔

رام اللہ بے مثال بحران میں

اس منظرنامے میں، فلسطینی اتھارٹی شدید دباؤ اور بے حد مشکل صورتحال میں گھر چکی ہے۔ رام اللہ طویل عرصے سے خود کو بین الاقوامی سطح پر فلسطینیوں کا “واحد قانونی نمائندہ” قرار دیتا رہا ہے اور اسی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ امریکہ اور اسرائیل کی پالیسیوں سے ہم آہنگی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن وائٹ ہاؤس کے حالیہ اقدام نے اس حکمت عملی کی کمزوری اور ناکارآمدی کو بے نقاب کر دیا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر کا یہ بیان کہ حماس “بیرونی فریقوں کے ساتھ فلسطینیوں کی منظوری کے بغیر مذاکرات کر رہا ہے”، رام اللہ کی شدید الجھن اور ان مذاکرات کے حوالے سے اس کی گہری تشویش کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ردعمل اس بات کا عکاس ہے کہ فلسطینی اتھارٹی مکمل طور پر حاشیے پر چلے جانے کے خوف میں مبتلا ہے۔ اب جب کہ امریکہ، حماس کو فلسطینی عوام کا اصل نمائندہ اور ایک مضبوط زمینی قوت سمجھ رہا ہے، فلسطینی اتھارٹی کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی پوزیشن برقرار رکھنا مشکل تر ہو چکا ہے۔

حماس نے مذاکرات کی پیشکش کیوں قبول کی؟

حماس کے لیے واشنگٹن کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں شرکت ایک تاریخی موقع ہے، جو اسے اپنے سیاسی تنہائی کے خاتمے اور اسرائیل کے ساتھ پابند مذاکرات سے نکلنے کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ حماس طویل عرصے سے ایسے مذاکراتی عمل میں الجھی رہی ہے، جہاں اکثر ثالث اسرائیلی مؤقف سے متاثر ہوتے رہے، جس کے باعث کئی معاہدے تعطل کا شکار ہو گئے۔
واشنگٹن کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے حماس کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنی رائے اور مطالبات کو بغیر اسرائیلی میڈیا کی تحریف کے براہ راست امریکی فریق کے سامنے رکھ سکے۔ اس کے علاوہ، یہ مذاکرات حماس کو بطور ایک ذمہ دار سیاسی قوت کے طور پر پیش کرنے میں مدد دیں گے، جو تنازعات کو حل کرنے اور معاہدے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
مزید برآں، یہ نیا سفارتی چینل فلسطینی اتھارٹی کی پوزیشن کو مزید کمزور کرے گا، جو طویل عرصے سے فلسطینی عوام کی بین الاقوامی سطح پر سیاسی نمائندگی کو اپنی اجارہ داری میں رکھے ہوئے تھی۔

معادلات کی تبدیلی اور خطے میں سیاسی منظرنامے کی تشکیل نو

جو کچھ آج ہو رہا ہے، محض ایک عارضی حکمتِ عملی نہیں بلکہ ایک نئے مرحلے کا آغاز ہے جو مشرق وسطیٰ میں اتحادوں اور سیاسی صف بندیوں کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ اسرائیل کی ثالثی کی اجارہ داری کا خاتمہ، فلسطینی اتھارٹی کی کمزور ہوتی حیثیت، اور حماس کا بطور مذاکراتی فریق ابھرنا، یہ سب ایک نئے علاقائی نظم کے بننے کی نشانیاں ہیں۔
یہ ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ خطے کے دیگر فریق اور طاقتیں، خاص طور پر وہ جو حماس کو اپنے اثر و رسوخ کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، اس تبدیلی پر کیسے ردعمل دیتے ہیں۔ حماس کو اس مرحلے کو نہایت دانشمندی سے سنبھالنا ہوگا تاکہ وہ ایسے معاہدوں کے جال میں نہ پھنسے جو اس کے طویل المدتی اسٹریٹجک اہداف کو نقصان پہنچائیں۔
امریکہ کی پالیسی میں حماس کی طرف جھکاؤ ایک نایاب موقع ہے، لیکن اس کا درست استعمال تب ہی ممکن ہوگا جب فوری سیاسی فوائد اور بنیادی اصولوں کے درمیان توازن قائم رکھا جائے۔ یہ نیا منظرنامہ خطے میں روایتی کھلاڑیوں کے کردار کو ازسرِنو متعین کر رہا ہے اور اسرائیل-فلسطین تنازع میں ممکنہ تبدیلی کے لیے راہ ہموار کر رہا ہے۔
یہ معاملہ محض امریکی قیدیوں کے تبادلے سے کہیں زیادہ وسیع ہے—ہم درحقیقت مشرق وسطیٰ میں سیاسی تعلقات کی نئی شکل بندی دیکھ رہے ہیں۔ اگر اس بڑی تبدیلی میں یمن کی انصار اللہ تحریک کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو بھی شامل کریں—خصوصاً اس وقت جب انہوں نے دوبارہ بحیرہ احمر میں اسرائیلی، امریکی اور برطانوی بحری جہازوں کی آمد و رفت کو روک دیا ہے اور غزہ کی جنگ کے دوران اپنا مؤثر کردار ثابت کیا ہے—تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ “کیا نیا مشرق وسطیٰ اسرائیل تشکیل دے گا یا مزاحمتی محور؟”