نیتن یاہو نے تل ابیب کو تباہی کے راستے پر کیسے ڈالا؟

فاران: 7 اکتوبر اسرائیل کی تاریخ کا بدترین سانحہ تھا۔ حماس کے حملے کو روکنے میں ناکامی کے بعد، اسرائیلی فوج نے انتہائی شدت سے جواب دیا۔ ہزاروں فلسطینیوں کو قتل اور غزہ کے تمام محلوں کو تباہ کر دیا۔ لیکن اسرائیل کو ایک ایسے دشمن کا سامنا ہے جس پر وہ بھروسہ نہیں کر […]

فاران: 7 اکتوبر اسرائیل کی تاریخ کا بدترین سانحہ تھا۔ حماس کے حملے کو روکنے میں ناکامی کے بعد، اسرائیلی فوج نے انتہائی شدت سے جواب دیا۔ ہزاروں فلسطینیوں کو قتل اور غزہ کے تمام محلوں کو تباہ کر دیا۔ لیکن اسرائیل کو ایک ایسے دشمن کا سامنا ہے جس پر وہ بھروسہ نہیں کر سکتا۔ نیتن یاہو نے حماس کو “تباہ” کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن اسکے پاس فوجی طاقت بروئے کار لانے کے علاوہ حماس کو تباہ کرنے کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے جبکہ جنگ کے بعد حماس کا متبادل پیش کرنے کیلئے بھی کوئی واضح منصوبہ نہیں پایا جاتا۔ “حکمت عملی” وضع کرنے میں اس کی ناکامی کوئی حادثہ نہیں ہے۔ نیتن یاہو نے اسرائیلیوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ قیام امن کے بغیر کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس نے بہت سے لوگوں کو اس بات پر بھی قانع کیا ہے کہ ملکی یا بین الاقوامی سطح پر کم قیمت چکا کر تمام فلسطینی علاقوں پر ہمیشہ کیلئے قبضہ جمایا جا سکتا ہے۔

7 اکتوبر کے حملوں نے ثابت کر دیا کہ نیتن یاہو کا وعدہ کھوکھلا تھا۔ “مردہ امن عمل” اور دوسرے ممالک کی دلچسپی میں کمی کے باوجود فلسطینیوں نے اپنے مقصد کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ 7 اکتوبر کو حماس فورسز کی طرف سے ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں یہ نعرہ سنا جا سکتا ہے: “یہ ہماری سرزمین ہے!” یحییٰ سنوار نے کھل کر اس آپریشن کو “مزاحمت” قرار دیا اور کسی حد تک “نکبت” اس کا ذاتی محرک ہے۔ 7 اکتوبر کے صدمے نے اسرائیلیوں کو ایک بار پھر یہ سمجھنے پر مجبور کر دیا کہ فلسطینیوں کے ساتھ تنازعہ ان کے تشخص کیلئے اہم ہے اور ان کی فلاح و بہبود کیلئے خطرہ ہے۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور مسلسل قبضہ، مغربی کنارے میں یہودی بستیوں میں توسیع، غزہ کی ناکہ بندی، اور کسی بھی علاقائی سمجھوتے سے انکار اسرائیل کیلئے دیرپا سلامتی نہیں لائے گا۔

ناکام وعدہ
نیتن یاہو کا خیال تھا کہ وہ بحری اور اقتصادی ناکہ بندی، نئے تعینات میزائل اور سرحدی دفاعی نظام نیز حماس کے جنگجوؤں اور انفراسٹرکچر کے خلاف وقتاً فوقتاً فوجی حملوں کے ذریعے اسکی صلاحیتیں کنٹرول کر سکتا ہے۔ یہ آخری حربہ جسے “چرنا” کہا جاتا ہے، “ٹکراو کی منیجمنٹ” اور موجودہ صورتحال برقرار رکھنے کے ساتھ اسرائیل کی سیکورٹی ڈاکٹرائن بن گیا۔ نیتن یاہو کا خیال تھا کہ حکمفرما نظام مستحکم ہے۔ اسکے خیال میں یہ ایک اچھی بات تھی۔ ٹکراو کو بہت کم سطح پر برقرار رکھنا سیاسی لحاظ سے امن معاہدے سے کم خطرناک اور بڑی جنگ سے کم مہنگا ہوتا ہے۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک یوں دکھائی دیتا تھا کہ نیتن یاہو کی حکمت عملی موثر ہے۔ فلسطینی حملے کم ترین سطح تک پہنچ گئے تھے۔ 2014ء میں حماس کے خلاف مختصر جنگ کو چھوڑ کر اسرائیلیوں کو فلسطینی عسکریت پسندوں سے تصادم کی بہت کم ضرورت محسوس ہوئی۔

مئی 2021ء میں ایک بار پھر تشدد پھوٹ پڑا۔ اس بار اشتعال دلانے والا اصل شخص دائیں بازو کا انتہاپسند سیاست دان ایتمار بن گویر تھا جو کھلے عام یہودی دہشت گردوں کی ہلہ شیری کرتا تھا۔ بن گویر نے مشرقی یروشلم کے ایک فلسطین نشین محلے میں “پارلیمانی دفتر” کھول رکھا تھا جہاں کچھ یہودی آباد کاروں نے قدیم دستاویزات کی مدد سے فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال بہر کیا تھا۔ دوسری طرف فلسطینیوں نے وسیع پیمانے پر مظاہرے شروع کر دیے۔ مسجد اقصیٰ میں سینکڑوں فلسطینی مظاہرین جمع ہوئے تو اسرائیلی پولیس نے مسجد پر کریک ڈاون کر دیا۔ اس کے نتیجے میں عربوں اور یہودیوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور تیزی سے اسرائیل کے مختلف شہروں میں پھیل گئی۔ حماس نے اس حملے کو بہانہ بنا کر مقبوضہ بیت المقدس پر راکٹ داغ دیے جس کے بعد اسرائیل نے جوابی کاروائی کی اور جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

نیتن یاہو کی بغاوت
نومبر 2022ء کے اسرائیلی انتخابات میں نیتن یاہو نے دوبارہ اقتدار حاصل کیا۔ نئی کابینہ کی اہم شخصیات میں مغربی کنارے کے قوم پرست رہنما بزالل اسماتریچ اور بن گویر تھے۔ نیتن یاہو، اسماتریچ اور بن گویر نے آرتھوڈوکس انتہاپسند جماعتوں کے تعاون سے ایک مطلق العنان اور تھیوکریٹک اسرائیل کا منصوبہ تیار کیا۔ مثال کے طور پر، کابینہ کی نئی ہدایات میں اعلان کیا گیا کہ “یہودی شہری اسرائیل کی پوری سرزمین پر ایک خصوصی اور ناقابل تنسیخ حق رکھتے ہیں” اور مقبوضہ فلسطین حتی غزہ کی پٹی پر بھی فلسطینیوں کے حق کو مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا۔ نئی کابینہ میں عدالتی اصلاحات کا بل منظور کر لیا گیا جو انتہائی خطرناک تھا۔ اس کے بعد ہر ہفتے لاکھوں اسرائیلی شہریوں کے احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ نیتن یاہو کی جانب سے عدلیہ کے خلاف کھلی بغاوت تھی۔

حملے کے بعد
نیتن یاہو اور اسکے حامیوں نے 7 اکتوبر کی شکست کی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کی۔ وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ وزیراعظم اپنے سکیورٹی اور انٹیلی جنس سربراہان کے ذریعے گمراہ ہوئے جنہوں نے آخری لمحات تک انہیں غزہ میں جاری مشکوک سرگرمیوں کے بارے میں خبردار نہیں کیا۔ لیکن فوج اور انٹیلی جنس اداروں کی نااہلی چاہے کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہو وزیراعظم کو بے قصور ثابت نہیں کر سکتی۔ جنگ سے پہلے اسرائیلیوں میں اختلاف ڈالنے پر مبنی نیتن یاہو کی نامعقول سیاست نے تل ابیب کو کمزور کر ڈالا تھا اور ایران کے اتحادیوں کو انتشار کا شکار اسرائیلی معاشرے پر ضرب لگانے کی ترغیب دلائی تھی۔ نیتن یاہو کی جانب سے فلسطینیوں کی تحقیر نے شدت پسندی کو فروغ دیا۔ اسرائیلی عوام ہر گز نیتن یاہو کے سات اکتوبر کے حملے میں بے گناہ تصور نہیں کرتے۔ اس کی مقبولیت شدید حد تک گر چکی ہے اور اس نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔