نیتن یاہو کو ایرانی چیتوں سے نیا خوف
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: فارس نیوز کے مطابق، مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں امریکی-مراکشی نژاد “عبدالعزیز قاضی” کا شہادت طلبانہ حملہ اپنی نوعیت کا پہلا حملہ نہیں تھا، جس میں غیر فلسطینیوں نے صیہونی حکومت کے خلاف کارروائی کی ہو۔ اس سے پہلے بھی کئی ایسی کارروائیاں ہو چکی ہیں۔
یہ حملے فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی، مسئلہ فلسطین سے یکجہتی اور صیہونی حکومت کی جانب سے غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں پر اجتماعی مظالم نسل کشی اور منظم جبری بے دخلی کی پالیسیوں کی مذمت کے طور پر کیے جاتے ہیں۔
ان حملوں کے ردعمل میں بنیامین نیتن یاہو کے بیانات خاص طور پر اردنی شہری “ماہر الجازی الحویطات” کے شہادت طلبانہ حملے کے بعد قابلِ توجہ ہیں۔ جس میں کہا گیا ہے کہ “اسرائیل کو ایک مہلک نظریے نے گھیر رکھا ہے، جس کی قیادت ایران کر رہا ہے۔”
تنہا چیتے
ایسے شہادت طلبانہ حملے، جن میں فلسطینی براہِ راست شامل نہ ہوں، سیکیورٹی اور عسکری لحاظ سے ایک اہم واقعہ ہیں۔ انہیں فلسطینی کاز اور عوام کی حمایت میں ایک نئے رجحان کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ حملے “تنہا چیتوں” کے تصور پر مبنی ہوتے ہیں، جہاں افراد انفرادی طور پر اپنی کارروائی انجام دیتے ہیں۔ بعض اوقات ان حملوں کی پیشگی منصوبہ بندی کی جاتی ہے، جبکہ بعض اوقات یہ فوری ردعمل کے طور پر کیے جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر، ان حملوں کا کوئی خاص معیار یا مخصوص طریقہ کار نہیں ہوتا، بلکہ سب کچھ حملہ آور کی ذاتی خواہش اور نظریے پر منحصر ہوتا ہے۔
“طوفان الاقصیٰ” آپریشن اور اس کے بعد کے واقعات نے ایسی کارروائیوں کے لیے ایک موزوں ماحول پیدا کر دیا، خاص طور پر جب کہ “تنہا چیتوں” کے محرکات عوامی غصے اور صیہونی حکومت کے خلاف نفرت سے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ غصہ فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم اور عالمی برادری کی خاموشی کے نتیجے میں بڑھتا جا رہا ہے۔
اگرچہ یہ حملے ایک نئی حکمتِ عملی کے طور پر سامنے آ رہے ہیں، لیکن صیہونی حکومت کے خوف و ہراس میں یہ تیزی سے پھیل رہے ہیں اور ان کا دائرہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
صیہونی حکومت کے اقدامات: تنہا چیتوں کا مقابلہ کیسے؟
صیہونی حکومت کو “تنہا چیتوں” کے حملوں سے نمٹنے کے لیے انتہائی پیچیدہ اور وسیع اقدامات کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ حملے مکمل طور پر انفرادی، خودمختار اور کسی مزاحمتی گروہ سے منسلک یا کسی بیرونی قوت کی جانب سے منصوبہ بندی شدہ نہیں ہوتے۔
اسی وجہ سے، ان حملوں کے وقت، مقام اور تفصیلات صرف حملہ آور کے علم میں ہوتے ہیں، جو صیہونی انٹیلیجنس اداروں کے لیے حملہ آوروں کی شناخت، ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے اور ان کے ارادوں کا تجزیہ کرنے کو ایک انتہائی مشکل اور پیچیدہ مشن بنا دیتا ہے۔ اس چیلنج کے باعث، صیہونی حکومت کو اپنے سیکیورٹی اور انٹیلیجنس اداروں کو ہر وقت ہائی الرٹ رکھنا پڑتا ہے، چاہے وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے اندر ہوں یا بیرونِ ملک اس کے مفادات کی حفاظت کے لیے تعینات ہوں۔
یہ حملے صیہونی حکومت کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ انسانی جانی نقصان کو کم سے کم کرنے اور مزید ایسے حملوں کو روکنے کے لیے وسیع پیمانے پر پیشگی اقدامات کرے۔ ان میں درج ذیل تدابیر شامل ہیں:
*مقبوضہ علاقوں میں داخل ہونے کے خواہشمند افراد کے شناختی دستاویزات کی سخت جانچ پڑتال
پڑوسی ممالک اور دیگر غیر ملکی فریقوں کے ساتھ افراد کی آمد و رفت کو مکمل طور پر منظم اور ہم آہنگ کرنا۔
ڈیجیٹل نگرانی کے لیے خصوصی انٹیلیجنس اور سیکیورٹی یونٹس کا قیام، جو افراد کے آن لائن ڈیٹا اور سوشل میڈیا سرگرمیوں کا فوری اور جامع تجزیہ کریں تاکہ ان کے ارادوں کو پہلے سے بھانپا جا سکے۔
لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود، ان حملوں کا مقابلہ کرنا صیہونی حکومت کے لیے انتہائی پیچیدہ اور مشکل چیلنج بنتا جا رہا ہے، اور یہ حملے اس کے سیکیورٹی اداروں کے لیے ایک بڑے بحران میں تبدیل ہونے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
“تنہا چیتوں” کے اہم حملے
ماہِر الجازی الحویطات (اردن) کا حملہ
اردنی شہید ماہر الجازی الحویطات کا حملہ، یہ حملہ منصوبہ بندی، ہلاکتوں اور اثرات کے لحاظ سے صیہونی حکومت کے مرکز میں ہونے والے اہم ترین حملوں میں شمار ہوتا ہے۔
یہ شہادت طلبانہ حملہ ستمبر 2024 میں ماہر الجازی نے ایک بھاری گاڑی کے ذریعے انجام دیا۔ وہ ملک حسین پل (جسے فلسطینی الکرامہ کراسنگ کہتے ہیں اور اسرائیل اسے اللمبی پل کہتا ہے) عبور کر کے مقبوضہ علاقے میں داخل ہوئے
اسرائیلی چیک پوائنٹ پر پہنچتے ہی انہوں نے قریب سے صیہونی سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ کی، جس میں تین اہلکار ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد الکرامہ کراسنگ پر ان کی صیہونی فورسز سے جھڑپ جاری رہی، یہاں تک کہ وہ شہید کر دئیے گیئے
یہ حملہ اردن اور اسرائیل کے تعلقات میں شدید کشیدگی کا باعث بنا۔
صیہونی حکومت نے 100 سے زائد اردنی ڈرائیوروں کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی اور الکرامہ کراسنگ کو بند کر دیا۔
بعد ازاں، شہید الجازی کے اہل خانہ کو بھی گرفتار کر کے ان سے تفتیش کی گئی، مگر تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ حملہ انفرادی تھا اور کسی تنظیم یا گروہ سے منسلک نہیں تھا۔
اسرائیل نے آٹھ دن تک شہید الجازی کا جسد قبضے میں رکھا اور پھر اردن کے حوالے کیا، جہاں اردنی عوام نے انتہائی شاندار جنازے میں انہیں الوداع کیا۔
حسن ساکلانان (ترکی) کا حملہ
حسن ساکلانان، جو کہ ایک ترک سیاح تھے ، انہوں نے 30 اپریل 2024 کو باب الساہرہ (یروشلم کا ایک دروازہ) کے قریب ایک صیہونی بارڈر پولیس افسر پر چاقو سے حملہ کر کے اسے زخمی کر دیا۔
اسرائیلی پولیس نے فوری طور پر ان پر گولیاں چلا کر شہید کر دیا۔
ترکی کے امام اور مصری فوجی کی کارروائیاں
ترکی کے امام کا واقعہ:
34 سالہ ساکلانان، جو ترکی کے جنوب مشرقی صوبے اورفا کی ایک مسجد میں امام جماعت کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے، واقعے سے تین دن قبل اردن کی سرحد سے مقبوضہ بیت المقدس میں داخل ہوئے اور بیماری کا بہانہ بنا کر اپنے گروہ سے علیحدہ ہو گیئے ترکی کے ذرائع کے مطابق، جب وہ مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے جا رہے تھے تو اسرائیلی پولیس نے انہیں ہراساں کیا۔ اسی ہراسانی کے ردعمل میں، انہوں نے اپنے پاس موجود چاقو سے ایک اسرائیلی پولیس افسر پر حملہ کر دیا۔
یہ کارروائی عرب دنیا اور ترکی میں عوامی سطح پر بڑے پیمانے پر پذیرائی اور حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اسرائیلی حکام نے اس ترک سیاح کی لاش کو تین ہفتے تک تحویل میں رکھا، جس کے بعد اسے انقرہ کے حوالے کر دیا گیا۔ ترکی میں ان کی تدفین ایک شاندار اور پروقار جنازے کے ساتھ کی گئی، جس میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
مصری فوجی محمد صلاح کی کارروائی:
مصری فوجی محمد صلاح نے “العوجہ آپریشن” 3 جون کو انجام دیا، جو کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے چار ماہ بعد اور غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی جنگ کے آغاز کے دوران فلسطینیوں کے دفاع اور ان پر ہونے والے ظلم و ناانصافی کے خلاف احتجاج کے طور پر کیا گیا تھا۔
محمد صلاح نے اس کارروائی میں کامیابی کے ساتھ تین اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک اور ایک کو زخمی کر دیا۔ یہ حملہ مصر اور غزہ کی پٹی کی سرحد پر العوجہ (جسے اسرائیلی “نیتسانا” کہتے ہیں) کے قریب ایک فوجی چوکی پر ہوا۔
اگرچہ مصر کی حکومت اس واقعے کو منشیات کے اسمگلروں کے ساتھ جھڑپ کا نتیجہ قرار دینے کی کوشش کرتی رہی، لیکن اسرائیلی ذرائع نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ محمد صلاح نے العوجہ سرحدی گزرگاہ عبور کرنے کے بعد اسرائیلی فوجیوں پر حملہ کیا، تین کو ہلاک اور چوتھے کو زخمی کر دیا۔ بعد میں، اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ جھڑپ کے دوران وہ شہید ہو گئے۔
اردنی نوجوانوں اور مصری پولیس اہلکار کی کارروائیاں
تبصرہ کریں