نیتن یاہو کی سیاسی موت

نیتن یاہو کی انتہاء پسند حکومت کے قیام کے بعد مقبوضہ فلسطین میں اندرونی تقسیم اور خلیج غیر معمولی طور پر گہری اور وسیع ہوگئی تھی، جس نے اسرائیل کے اندر سے ٹوٹنے کے امکانات کو مزید مضبوط کر دیا ہے۔ غزہ کی جنگ کے بعد اختلاف کی اس خلیج کو کچھ عرصے کے لیے ایک طرف کر دیا گیا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ تنازعات میں کمی کے ساتھ ہی اندرونی اختلافات نہ صرف دوبارہ شروع ہو جائیں گے بلکہ مزید پھیلیں گے۔

فاران: صیہونی حلقے لبنان اور فلسطین کی موجودہ پیش رفت کے حوالے سے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کے ذہین اور مبہم موقف سے بہت زیادہ پریشان ہیں۔ قابض حکومت کے سابق وزیراعظم ایہود بارک نے اعلان کیا ہے کہ (سید حسن نصراللہ) ایک بہت ذہین شخص ہے اور یہ ممکن ہے کہ کوئی غیر معمولی اقدام کرکے اسرائیل کو غفلت کا شکار کر دے۔ انہوں نے واضح کیا اور اس بات پر زور دیا کہ حزب اللہ اور غزہ کے ساتھ بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کے نئے خطاب کے سلسلے میں صیہونی خفیہ تنظیم شباک کے ایک سابق عہدیدار نے صیہونی حکومت کے سکیورٹی اداروں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سید حسن نصراللہ کے الفاظ کا احتیاط اور سنجیدگی سے جائزہ لیں۔

صہیونی حکومت سے وابستہ کان نیٹ ورک پر عرب امور کے تجزیہ کار اولیور لیوی نے کہا ہے کہ نصراللہ کے الفاظ کو کم تر سمجھنا ممنوع ہے۔ خاص طور پر اس کے بعد جو 7 اکتوبر کو ہوا، یعنی اس دن جب فلسطینی مزاحمت کاروں نے “طوفان الاقصیٰ” آپریشن انجام دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نصراللہ نے جمعے کو جن الفاظ کا استعمال کیا، وہ دراصل مبہم دھمکیاں تھیں۔ قابض حکومت کے سابق فوجی کمانڈروں میں سے ایک موشی شیلونسکی نے بھی کہا: “اسرائیل نصراللہ کی تقریر کے دباؤ میں تھا اور ان کی تقریر سے پہلے ہیجانی کیفیت ہر جگہ محسوس کی گئی تھی۔” صہیونی میڈیا نے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہوا، وہ طوفان سے پہلے کا سکون ہے اور ان الفاظ کے بعد حالات بدل سکتے ہیں۔

لبنان میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے جمعے کے روز اپنا اہم خطاب کیا، جس کا معتبر یورپی میڈیا کے مطابق 4 ارب سے زیادہ لوگ انتظار کر رہے تھے اور 500 ٹیلی ویژن اور سیٹلائٹ چینلز نے اسے براہ راست نشر کرنے کی درخواست کی تھی۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی جمعہ کی شام کی تقریر میں لاکھوں لبنانی عوام نے غزہ کی جنگ، اسلامی مزاحمت کے درمیان حالیہ جھڑپوں کے بارے میں مقاومت کے موقف کو سننے کے لئے اس خطاب کو پوری توجہ سے سنا۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے غزہ کی جنگ کے بارے میں تفصیلی اور جامع نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے پہلے ان عوامل کا ذکر کیا، جنہوں نے ان تنازعات کو شروع کیا اور پھر کئی علاقوں میں اس کے نتائج کی وضاحت کی۔

عرب ممالک کے ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش، غزہ جنگ کے نفسیاتی محاصرے کو توڑنے، صیہونیت مخالف محاذ کی تشکیل، مزاحمتی گروہوں کے لیے مزید ہمدردی حاصل کرنے، امریکا کو غزہ جنگ کے رہنماء کے طور پر متعارف کرانے، تزویراتی ابہام کو اپنانے اور مستقبل کی پیش رفت کے حوالے سے حزب اللہ کا موقف وغیرہ سید حسن کی تقریر کے اہم نکات میں شامل تھا۔ سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں صہیونیوں کے اس خوف کو برقرار رکھا کہ شمالی محاذ پر کسی بھی وقت جنگ بھڑک اٹھے گی اور یہ ظاہر کیا کہ حزب اللہ کی مستقبل میں ہونے والی پیشرفت پر مبنی تنازعہ کے دائرہ کار میں جذباتی نہیں طے شدہ، منصوبہ بند اور بامقصد پالیسی ہے۔

ایک حقیقت پسندانہ نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ حزب اللہ کی طرف سے کسی بھی قسم کا ردعمل ایسے وقت میں جب اسرائیلی فوج، امریکی سیاسی حکام اور صیہونی حکومت سب سے زیادہ چوکس ہیں، مطلوبہ نتائج کا حامل نہیں ہوسکتا اور یوں بھی موثر اور خاص واقعات ہمیشہ اس وقت رونماء ہوتے ہیں، جب کوئی اس کی توقع نہ کر رہا ہو۔ دوسری جانب سید حسن نصراللہ نے جمعہ کے دن اپنے خطاب میں جنگ کے جاری رہنے اور اس کی علاقائیت کو امریکہ اور اسرائیل کے کھاتے میں ڈالا اور اس کے نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک ایسا ماحول پیدا کیا، جس میں نیتن یاہو کے خلاف اندرونی اور بیرونی دباؤ بڑھے گا اور یہ سب کچھ اس کے زوال کا سبب بنے گا۔

نیتن یاہو کی انتہاء پسند حکومت کے قیام کے بعد مقبوضہ فلسطین میں اندرونی تقسیم اور خلیج غیر معمولی طور پر گہری اور وسیع ہوگئی تھی، جس نے اسرائیل کے اندر سے ٹوٹنے کے امکانات کو مزید مضبوط کر دیا ہے۔ غزہ کی جنگ کے بعد اختلاف کی اس خلیج کو کچھ عرصے کے لیے ایک طرف کر دیا گیا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ تنازعات میں کمی کے ساتھ ہی اندرونی اختلافات نہ صرف دوبارہ شروع ہو جائیں گے بلکہ مزید پھیلیں گے۔ صیہونی حکومت الاقصیٰ آپریشن، صیہونی انٹیلیجنس کی ناکامی اور اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنے گی۔ اسی طرح غزہ پر کئے گئے جنگی جرائم کی وجہ سے عالمی رائے عامہ بھی نیتن یاہو کو اپنی تنقیدوں اور نفرتوں کا نشانہ بناتے ہوئے ہرگز معاف نہیں کرے گی، جس کا نتیجہ نیتن یاہو کی سیاسی موت کی صورت میں برآمد ہوگا۔