فاران: ایسا لگتا ہے کہ نیتن یاہو نے سفارتی مصلحتوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ اب اپنے منصوبوں کو سفارتی اصطلاحات کے پیچھے چھپانے کی بھی کوشش نہیں کرتے۔ سالوں تک غزہ کو “غیر مسلح” کرنے یا “غیر جانبدار” بنانے کی ضرورت پر بات کرنے کے بعد، اب وہ براہِ راست ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں: کہ کیوں نہ فلسطینیوں کو مکمل طور پر مصر اور اردن منتقل کر دیا جائے؟ اگر قاہرہ اور عمان کو فلسطینیوں کو قبول کرنے میں مسئلہ ہے، تو کیوں نہ انہیں سعودی عرب یا شام منتقل کر دیا جائے؟
یہ بیانات بغیر کسی پسِ منظر کے نہیں دیے جا رہے۔ جب سے ٹرمپ نے 2020 میں “ڈیل آف دی سنچری” یا صدی کی ڈیل ” کی نقاب کشائی کی ہے، یہ واضح ہو گیا تھا کہ امریکہ اور اسرائیل کا منصوبہ اسرائیل-فلسطین تنازع کی سرحدوں کو دوبارہ متعین کرنے کی کوشش ہے تاکہ فلسطین اور فلسطینیوں کے مسئلے کا بوجھ عرب ممالک پر ڈال دیا جائے۔
اب، جب کہ غزہ کی پٹی کو مکمل طور پر تباہ کیا جا چکا ہے اور نیتن یاہو اور ان کی کابینہ پر اندرونی و بیرونی سیاسی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے، یہ بیانات واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کی “جبری بے دخلی” کے منصوبے کو ایک ضمنی خیال سے نکال کر ایک اسٹریٹیجک آپشن میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
فلسطینی مسئلے کا خاتمہ اور نئے حقائق کی تخلیق
جب نتن یاہو یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ سعودی عرب کے پاس وسیع خالی زمینیں ہیں جہاں غزہ کے فلسطینیوں کو بسایا جا سکتا ہے یا جب وہ فلسطینیوں کی شام منتقلی کو ایک ممکنہ آپشن کے طور پر پیش کرتے ہیں، تو وہ محض ایک عارضی سیاسی موقف اختیار نہیں کر رہے، بلکہ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے ایک نئے نظریے (Doctrine) کو بے نقاب کر رہے ہیں: بے دخلی کو کسی جنگ یا بحران کا نتیجہ بنانے کے بجائے ایک مستقل سیاسی آپشن میں بدلنا۔
یہ بیانات کسی تاریخی پس منظر سے خالی نہیں ہیں۔ ان تمام کوششوں کا مقصد “فلسطینی مسئلے کا من مانے طریقے سےحتمی حل” ہے۔
کبھی فلسطینیوں کو اردن کے مشرقی کنارے پر منتقل کرنے کی کوشش کی گئی۔
کبھی مصر پر دباؤ ڈالا گیا تاکہ جزیرہ نما سینا کو فلسطینی مہاجرین کے لیے پناہ گاہ میں بدلا جا سکے،
اور اب نئی تجویز یہ ہے کہ سعودی عرب فلسطینیوں کو کیوں قبول نہیں کرتا؟ یا شام اس منصوبے میں کیوں شامل نہیں ہے؟
نیتن یاہو ان بیانات کے ذریعے کون سا ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
اس اقدام کے خطے اور عالمی سطح پر کیا اثرات ہوں گے؟
عرب ممالک، خاص طور پر سعودی عرب، کا کیا ردعمل ہوگا؟
کیا دنیا اور خطہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی اجتماعی بے دخلی کو ایک سیاسی آپشن کے طور پر دوبارہ زندہ کرنے کا سامنا کر رہا ہے؟
“نئی آبادیاتی قانونی حیثیت” بنانے کی کوشش
برسوں سے کچھ اسرائیلی حلقے اس نظریے کو فروغ دے رہے ہیں کہ فلسطینی ایک “قدیم” اور “جڑوں والے” لوگ نہیں ہیں اور انہیں اپنی زندگی جاری رکھنے کے لیے دوسرے علاقوں کی تلاش کرنی چاہیے۔ سعودی عرب اور شام کی طرف فلسطینیوں کی منتقلی کی تجویز اس بیانیے کو مضبوط کرتی ہے کہ غزہ کے فلسطینی اسرائیل پر ایک بوجھ ہیں اور اسرائیل کسی بھی طریقے سے ان سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔
“واپسی کے حق” کا مکمل خاتمہ
غزہ کے لوگوں کو سعودی عرب یا شام منتقل کرنا درحقیقت ان کے فلسطین واپس آنے کے کسی بھی حق کو ختم کرنے کے مترادف ہوگا، جو کہ صہیونی نظریے کے مطابق فلسطینی مسئلے کو آبادیاتی طور پر مٹانے کا حصہ ہے۔
دیگر عرب ممالک میں تنازع کا پھیلاؤ
اگر سعودی عرب یا شام فلسطینیوں کی بے دخلی کے اس منصوبے کا حصہ بن جاتے ہیں، تو یہ مشرق وسطیٰ میں ایک نیا سفارتی بحران پیدا کرے گا اور اسرائیل کو عرب ممالک کے درمیان اختلافات سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرے گا۔
فلسطینی مزاحمت کو ناکام بنانے کی کوشش
غزہ کے فلسطینیوں کی بے دخلی دراصل مزاحمت کو اس کے عوامی بنیاد سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ جب اسرائیل فوجی لحاظ سے فلسطینی مزاحمت کو شکست نہ دے سکا، تو اب ایسا لگتا ہے کہ فلسطینیوں کی بے دخلی کو “حتمی حل” کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ مزاحمت کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکے۔
نتن یاہو کے بیانات پر سعودی عرب کا ردعمل
سعودی وزارت خارجہ نے ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے نیتن یاہو کے بیانات کو مسترد کر دیا۔ اس بیان میں درج ذیل نکات شامل تھے:
🔺 وہ ذہنیت جو قبضے اور انتہا پسندی پر مبنی ہے، فلسطینی عوام کے لیے اپنی سرزمین کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتی اور ان کے تعلق کو نظر انداز کرتی ہے۔
🔺 یہ بیانات بین الاقوامی اور علاقائی برادری کی توجہ غزہ میں قابض قوتوں کے جرائم سے ہٹانے کی ایک کوشش ہیں۔
🔺 امن صرف اسی وقت ممکن ہوگا جب بقائے باہمی کے اصول کو تسلیم کرتے ہوئے دو ریاستی حل کو اپنایا جائے۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں