نیتن یاہو کے خلاف باراک کے ریمارکس نے صیہونی معاشرے میں گہری دراڑوں کو بے نقاب کر دیا

اسرائیل کے چینل 13 کو دیے گئے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں صیہونی حکومت کے سابق وزیر اعظم نے بنجمن نیتن یاہو کا تختہ الٹنے کے لیے خانہ جنگی کے مطالبے پر شدید رد عمل کا اظہار کیا۔

فاران: اسرائیل کے چینل 13 کو دیے گئے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں صیہونی حکومت کے سابق وزیر اعظم نے بنجمن نیتن یاہو کا تختہ الٹنے کے لیے خانہ جنگی کے مطالبے پر شدید رد عمل کا اظہار کیا۔

مغربی کنارے میں العالم نیوز نیٹ ورک کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایہود باراک نے اس بات پر زور دیا ہے کہ فلسطینی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس اگلے 50 سال تک اسرائیل کے ساتھ بات چیت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اس سے قبل ایہود باراک نے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ ‘اگر وہ کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے تو وہ براہ راست مذاکرات کریں گے، چاہے اس کی قیمت غزہ میں جنگ کا خاتمہ ہی کیوں نہ ہو۔’

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صیہونی حکومت کی کابینہ نے غزہ میں فوجی کارروائیوں میں توسیع کے ارادے کا اعلان کیا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ میں فوجی کارروائیوں میں توسیع کا مقصد حماس پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ بغیر کسی شرط کے مذاکرات کی شرائط قبول کرے۔

دریں اثنا نیتن یاہو غزہ میں نئی فوج بھیج کر، فوج کے ذخائر کو بلا کر اور حماس کے زیر کنٹرول علاقوں پر حملے کرکے اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تاہم غزہ کی پٹی کے خلاف 18 ماہ سے جاری تباہ کن جنگ اسرائیل کے “صیہونی قیدیوں کی واپسی اور حماس کو تباہ کرنے” کے بنیادی مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

دوسری جانب اسرائیلی امور سے واقف تجزیہ کار عصمت منصور کا کہنا ہے کہ ‘اسرائیل اب بھی اس غلط فہمی میں ہے کہ وہ اپنی افواج میں اضافے اور غزہ میں بڑے پیمانے پر اور مرتکز فوجی کارروائیاں کرکے وہ حاصل کر لے گا جو وہ گزشتہ 18 ماہ میں حاصل نہیں کر سکا، جو نہ صرف غزہ کی موجودہ جنگ سے منفرد ہے بلکہ حکومت کے رہنماؤں کے درمیان ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔’

ایک اور اسرائیلی تجزیہ کار یاسر منا نے بھی زور دے کر کہا کہ اس جنگ کے آغاز سے ہی صیہونیوں میں بحران کی گہرائی کے کئی اشارے ملے ہیں، مثال کے طور پر غزہ میں فوجی کارروائیوں کی توسیع کی مخالفت یا اس سے پہلے شین بیت سیکیورٹی سروس کے سربراہ کی برطرفی کا معاملہ، یہ سب صیہونی معاشرے اور اس حکومت کے سیاسی اور فوجی حلقوں میں گہری اور پرانی دراڑوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

نیتن یاہو اقتدار برقرار رکھنے کے لیے اسرائیلیوں کی قسمت سے کھیل رہے ہیں

واضح رہے کہ نیتن یاہو صہیونیوں کی قسمت سے کھیل کر اقتدار برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور اس عقیدے کی جڑیں زیادہ تر اسرائیلیوں میں بہت گہری ہیں۔

یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ نیتن یاہو اب کسی ایسے شخص کی طرح ہیں جو سمندر کے بیچ میں گر گیا ہے: اگر وہ جاری رہا تو وہ ڈوب جائے گا، اور اگر وہ واپس آنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو وہ اسی ساحل پر واپس نہیں آ سکے گا جہاں سے وہ تیرتا تھا.

العالم کے نامہ نگار کے مطابق یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں صیہونی قابض فوج کی فوجی کارروائیوں کے علاوہ بھاری شہری ہلاکتوں کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر مزید شدید تنقید بھی ہوئی ہے۔

اس کے برعکس اسرائیلی حکام، فوج اور رائے عامہ میں داخلی تقسیم نیتن یاہو کی خام پالیسیوں پر گہری عدم اطمینان کی علامت ہے۔

رپورٹ کے مطابق ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ سفارتی حل کے بغیر یہ بحران اسرائیل کے اندر اور باہر بدامنی میں اضافہ کریں گے۔