ٹرمپ کی غزہ کے بارے میں ہرزہ سرائیاں

بہت سے لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ٹرمپ کا غزہ کے حوالے سے منصوبہ ناقابلِ عمل ہے اور اسے صرف ٹرمپ کی اشتعال انگیز ہرزہ سرائیاں سمجھتے ہیں، جن کا مقصد امریکی داخلی معاملات سے توجہ ہٹانا ہے۔

فاران: بہت سے لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ٹرمپ کا غزہ کے حوالے سے منصوبہ ناقابلِ عمل ہے اور اسے صرف ٹرمپ کی اشتعال انگیز ہرزہ سرائیاں سمجھتے ہیں، جن کا مقصد امریکی داخلی معاملات سے توجہ ہٹانا ہے۔
فارس پلس گروپ: تقریباً 20 دن ہو چکے ہیں کہ ٹرمپ نے دوبارہ بطور امریکی صدر وائٹ ہاؤس میں قدم رکھا ہے، اور ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب ان صاحب نے دنیا کو کسی نئے متنازعہ منصوبے سے حیران نہ کیا ہو۔ ایک دن یہ جناب کینیڈا کو امریکہ کی 53ویں ریاست بنانے کی بات کرتے ہیں تو اس کے اگلے دن پاناما کینل کو امریکی علاقہ قرار دیتے ہیں، کبھی ڈینمارک کے جزیرہ گرین لینڈ کو خریدنے کا خواب دیکھتےہیں تو کبھی شام سے انخلاء کا اعلان کرتے ہیں اور اگلے ہی دن اس سے انکار بھی ہو جاتا ہے پھر ایک دن دوبارہ امریکی فوجیوں کے انخلاء پر زور دیا جاتا ہے۔
ٹرمپ کے جنون اور دیوانگی کے تازہ ترین دور میں، ان صاحب نے غزہ کی پٹی کو خالی کرنے، اس پر صہیونیوں کے قبضے اور اس کی تعمیرِ نو کے منصوبے کا اعلان کیا، جس نے دنیا کو ایک اور بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔
غزہ کو خالی کرنے کا منصوبہ، جو ٹرمپ کی جنونی سوچ کا تازہ مظہر ہے، ایسے وقت میں پیش کیا جا رہا ہے جب بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ خود ٹرمپ کو اس منصوبے کے ناقابلِ عمل ہونے کا بخوبی علم ہے۔ جو کچھ وہ کہتے ہیں، وہ مکمل طور پر سوچا سمجھا اور امریکی داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا گیا اقدام ہے۔
سب کچھ اسٹیو بینن کے منصوبے کے مطابق چل رہا ہے –
“آریل ڈسکل”، ایک اسرائیلی مصنف اور تجزیہ کار، تبصرہ نگار ہیں جو اپنی ایک تحریر میں عبرانی ویب سائٹ “واللا” پر لکھتے ہیں:
“آج سب لوگ ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کی پٹی پر قبضے اور اس پر تسلط قائم کرنے اور 2.2 ملین فلسطینیوں کو دیگر ممالک میں منتقل کرنے کے منصوبے کے بارے میں بات کر رہے ہیں، بغیر اس بات پر غور کیے کہ یہ دعوے کس حد تک حقیقت پر مبنی ہیں۔ اور یہی وہ چیز ہے جو ٹرمپ کا مقصد ہے: یعنی واشنگٹن میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے توجہ ہٹانا۔”
سب کچھ “اسٹیو بینن” کے منصوبے کے مطابق چل رہا ہے، جو کہ ٹرمپ کے سابق مشیر تھے۔ اسٹیو بینن نے اپنی میڈیا حکمتِ عملی کو اس طرح بیان کیا تھا:
“تیزی سے حملہ کرو”۔
اسٹیوبینن نے اپنی حکمتِ عملی کی وضاحت یوں کی ہے:
“چونکہ میڈیا عمومی طور پر سنسنی خیز خبروں کے پیچھے بھاگتا ہے اور انجام کار کسی ایک موضوع پر توجہ مرکوز کر لیتا ہے، لہٰذا ہمیں انہیں سنسنی خیز خبروں کے سیلاب میں ڈبونا چاہیے۔ جب ایسا ہو جائے گا، تو وہ اس چیز پر توجہ نہیں دیں گے جو واقعی اہم ہے۔ اس لیے تیزی سے سنسنی خیز خبریں پھیلاؤ، جیسے گولی ایک سیکنڈ میں بندوق سے نکلتی ہے — تڑ ! تڑ! تڑ! — اس طرح انہیں یہ جانچنے کا موقع ہی نہیں ملے گا کہ اصل میں کیا ہو رہا ہے۔”
اسی حکمتِ عملی کے تحت، ٹرمپ کو غیر حقیقی منصوبوں کی بھرمار کرنا ہے، جیسے گرین لینڈ خریدنے، پاناما پر قبضہ کرنے، اور فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی سے باہر منتقل کرنے کے منصوبے۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ زیادہ تر میڈیا ان موضوعات میں مصروف ہو جائے گا اور وہ امریکہ کی وفاقی حکومت کے اندر جاری گہرے اور بنیادی تبدیلیوں پر توجہ نہیں دے گا۔
واشنگٹن میں کیا ہو رہا ہے –
جبکہ آج کل دنیا کے تمام میڈیا ادارے ٹرمپ کے غزہ منصوبے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، واشنگٹن میں وفاقی حکومت اور امریکہ کے انٹیلی جنس و سیکیورٹی اداروں کی منظم اور تیز رفتار تقسیم اور انکاانہدام جاری ہے۔
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران، ایلان مسک اور ان کی ٹیم نے امریکہ کے مالیاتی ڈیٹا سسٹمز پر کنٹرول حاصل کر لیا، حساس سیکیورٹی پروٹوکولز کو منسوخ کیا، بڑی تعداد میں اعلیٰ عہدیداروں کو برطرف کیا، اور ایک سرکاری ادارے کو—جس کا بجٹ ایلان ماسک کی ذاتی دولت کے محض 0.25 فیصد کے برابر تھا—مکمل طور پر بند کر دیا۔
ان اقدامات کے نتیجے میں چھ سرکاری اداروں نے عدالتوں میں ایلان ماسک اور ٹرمپ کے خلاف مقدمات دائر کیے، اور کچھ عدالتوں نے ان کے گرفتاری وارنٹ بھی جاری کیے۔ یہ سب واقعات میڈیا کی نظروں سے اوجھل اور خبروں کی کوریج سے دور پیش آئے۔
اس کے باوجود، ان اقدامات میں سے کوئی بھی اس اونچی اڑان اڑنے والے ارب پتی کے منصوبوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ وہ اب بھی اپنی نئی طاقت ور سوچ کے مطابق وفاقی اداروں اور تنظیموں کی تقسیم اور خاتمے کے لیے پرعزم ہے اور بے مثال انداز میں اپنی طاقت اور دولت میں اضافے کے لیے کوشاں ہے۔
امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ٹرمپ کی واپسی سے خوف –
“پیٹر شرودر”، جو کہ سی آئی اے کے اعلیٰ تجزیاتی بورڈ کے سابق رکن اور امریکی نیشنل انٹیلی جنس کونسل کے رکن رہ چکے ہیں، نے “فارن افیئرز” میں شائع ایک مضمون میں ٹرمپ کی دوبارہ اقتدار میں واپسی پر امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کی گہری تشویش کا پردہ چاک کیا ہے۔

شرودر لکھتے ہیں کہ یہ ایجنسیاں امریکہ کی سیکیورٹی بیوروکریسی کا دل اور اس ملک کی “گہری ریاست” (Deep State) کا اہم حصہ ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں:
“ٹرمپ ان ایجنسیوں کو اپنے منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں اور انہیں ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔”
یہ اقدام صدر اور امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کے درمیان شدید تصادم کو جنم دے سکتا ہے۔
ٹرمپ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں میں نئی تقرریوں نے ان خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے:

“جان ریٹکلف” کو سی آئی اے میں

“کَش پٹیل” کو ایف بی آئی میں

اور “تُلسی گابارڈ” کو نیشنل انٹیلی جنس میں تعینات کیا گیا ہے۔
یہ تینوں افراد امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کے ناقدین ہیں اور ٹرمپ کے “ڈیپ اسٹیٹ” کے بارے میں خیالات سے ہم آہنگ نظریات رکھتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ:

ٹرمپ امریکی انٹیلی جنس بیوروکریسی کو کیسے ختم کریں گے؟

اس کے اثرات ان ایجنسیوں اور امریکہ کی قومی سلامتی پر کیا ہوں گے؟

انٹیلی جنس کمیونٹی میں ٹیکنالوجی ماہرین ٹرمپ کے ساتھ کیسے تعاون کریں گے؟

یہ تمام سوالات انٹیلی جنس کمیونٹی میں شدید تشویش پیدا کر رہے ہیں۔
تاہم جو چیز بالکل واضح ہے، وہ یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے پہلے قدم کے طور پر ایف بی آئی اور سی آئی اے کے تمام ملازمین کو ای میلز بھیجی ہیں، جن میں انہیں مالی معاوضے کے بدلے استعفیٰ دینے کی پیشکش کی گئی ہے۔ اس اقدام کا پہلا مقصد سیکیورٹی اداروں کو کمزور کرنا ہے۔
اس کے علاوہ، ٹرمپ نے 6 جنوری 2021 کو کیپیٹل ہل پر حملے کی تفتیش کرنے والے تفتیش کاروں اور ان کے خاندانوں کی شناخت ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف ان تفتیش کاروں بلکہ ان کے خاندانوں کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ پیدا کرتا ہے۔ اسی وجہ سے ایک وفاقی عدالت نے اس حکم پر عمل درآمد سے روک دیا ہے۔
ماسک کا معمہ –
ان تمام واقعات کے علاوہ، اب وائٹ ہاؤس ایک بڑے معمہ، یعنی “ایلان ماسک” کے ساتھ بھی نمٹ رہا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے حکام نہیں جانتے کہ ایلان ماسک حقیقت میں کیا کر رہے ہیں اور مستقبل میں ان کے کیا ارادے ہیں۔
اخبار “نیویارک ٹائمز” نے وائٹ ہاؤس کے باخبر ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ ماسک کو ایسی عملی خودمختاری حاصل ہے کہ کوئی بھی نہ تو ان کا راستہ روک سکتا ہے اور نہ ہی ان کے اقدامات کو محدود کر سکتا ہے۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ امریکہ کے موجودہ صدر دراصل ایلان ماسک ہیں، اور ٹرمپ ان کے لیے محض ایک سیاسی کور یا تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔
داسکل لکھتے ہیں:
“آج واشنگٹن میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف ایک سیاسی مقابلہ نہیں ہے بلکہ امریکی حکومتی ڈھانچے میں ایک بنیادی نظرثانی ہے، جو نہ صرف امریکہ کے مستقبل پر اثر انداز ہوگی بلکہ عالمی سلامتی اور اسرائیل کو بھی متاثر کرے گی۔”
وہ مزید کہتےہیں کہ ٹرمپ اور ماسک بے خوف ہو کر اپنے انتہا پسند منصوبوں اور پالیسیوں پر عملدرآمد کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں:
“دنیا ایک نئے سیاسی انتشار کے دور کا سامنا کرنے والی ہے، جہاں معاشی مفادات اور بڑی کارپوریشنز ہر چیز پر حکمرانی کریں گی—یہاں تک کہ حکومتوں اور ممالک پر بھی۔”
اسی نظریے کی حمایت “اسٹیو فلپس” بھی کرتے ہیں، جو امریکی ویب سائٹ “The Nation” میں شائع اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
“اگرچہ امریکہ کئی سالوں سے ایک ساختیاتی خلیج (structural divide) کا سامنا کر رہا ہے، لیکن ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے یہ خلیج بلاشبہ شدید تر ہو جائے گی۔ یہ خلیج امریکہ کو دیگر داخلی بحرانوں، خصوصاً معاشی بحران، کے ساتھ مزید گہرائیوں میں دھکیل دے گی۔”
امریکہ کا اقتصادی بحران –
ٹرمپ نے ایک ایسی معیشت کی باگ ڈور سنبھالی ہے جس کا بحران صرف “قومی قرضے” تک محدود نہیں ہے، جو اب 34 ٹریلین ڈالر کی حد کو بھی عبور کر چکا ہے۔ یہ بحران اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے اور اس میں حسب ذیل چیزیں شامل ہیں:

BRICS معیشتوں کی ترقی جو اب امریکی ڈالر کے دائرہ کار سے باہر بڑھ رہی ہیں،

اور BRICS اتحاد کے مجموعی گھریلو پیداوار (GDP) کی نمو کے اشاریے، جو G7 گروپ کے مقابلے میں تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔

یہ تمام عوامل ظاہر کرتے ہیں کہ عالمی معیشت کی فضا آہستہ آہستہ اس “روایتی اقتصادی نظام” سے باہر نکل رہی ہے جسے امریکہ نے اپنے مفادات کے مطابق کنٹرول کیا ہوا تھا۔
یہ سب کچھ اس بحران زدہ امریکہ میں رونما ہو رہا ہے جہاں ٹرمپ ایک طرف اپنی جارحانہ بیانات اور سنسنی خیزیوں کے ذریعے دنیا کی توجہ ان مسائل سے ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں، اور دوسری طرف ان بحرانوں کے حل سے بچنے کے لیے فرار کی حکمتِ عملی اختیار کرتا ہے۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ ان تمام انتشار اور افراتفری کی جڑ میں خود ٹرمپ ہی ہیں، جن کو ان مسائل کی اصل وجہ اور ذمہ دار سمجھا جا رہا ہے۔