فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اسرائیل کے تین قیدیوں کی آزادی، جو حماس اور اسرائیل کے درمیان چھٹے قیدیوں کے تبادلے کے تحت ہوئی، امریکی صدر کے دھمکیوں کے باوجود، فلسطینی مزاحمت کا ٹرمپ کو پہلا طمانچہ ثابت ہوئی۔
فارس پلس گروپ: غزہ میں 16 جنوری کو شروع ہونے والا جنگ بندی معاہدہ، جو کہ نیتن یاہو کی کوششوں کے باوجود، جس کے تحت انہوں نے معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کرنے اور خاص طور پر انسان دوستانہ پروٹوکولز کے تحت پہلے مرحلے کی تکمیل میں تاخیر کی، ایک نئی پیچیدگی کا شکار ہو گیا۔ فلسطینی مزاحمت نے 3 اسرائیلی قیدیوں (الکسانڈر ٹروبنوف، جو اسلامی جہاد کی تحریک کے قیدی ہیں، اور ساگی دیکل ہان اور یائر ہارن جو القسام کے قیدی ہیں) کی آزادی کے ذریعے، معاہدے کے پہلے مرحلے میں اپنے وعدوں کو پورا کیا، جس کے بدلے صہیونی رجیم نے 369 فلسطینی قیدیوں (جن میں 36 عمر قید کے حامل اور 333 غزہ کے وہ فلسطینی ہیں جو 7 اکتوبر 2023 کو “طوفان الاقصی” آپریشن کے بعد اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوئے تھے) کو آزاد کیا۔
حماس نے ٹرمپ کی دھمکی کو نظر انداز کیا
حماس نے ٹرمپ کی اس دھمکی کو نظرانداز کرتے ہوئے جسکے موجب کہا گیا تھا کہ اگر اسرائیلی قیدیوں کو آزاد نہ کیا گیا تو غزہ کو “جهنم” بنا دیا جائے گا، اعلان کیا کہ وہ صرف معاہدے کے شرائط پر قائم رہیں گے اور صرف اسی پر عمل کریں گے، جسے بہت سے لوگوں نے فلسطینی مزاحمت کے خلاف ٹرمپ کی طرف سے ایک براہ راست چیلنج قرار دیا۔ مزاحمت کا اصرار تھا کہ صرف 3 قیدیوں کی آزادی پر قائم رہے گی اور اس کے مطابق وہ جو کچھ پیشتر امریکی، مصری اور قطری ضمانت کے تحت معاہدے کے دائرے میں کیا گیا تھا، اس پر عمل کرے گی۔ اس فیصلے نے نیتن یاہو کی کابینہ اور سیکیورٹی کابینہ کی منصوبہ بندیوں کو چیلنج کیا اور انہیں مجبور کیا کہ وہ چھٹے گروہ کے قیدیوں کی رہائی کے بعد ایک ہنگامی اجلاس بلائیں تاکہ معاہدے کے مستقبل اور پہلے مرحلے کی باقی تفصیلات کے بارے میں امریکی حکومت کے ساتھ تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
انسانی امداد کے پروٹوکول پر عمل درآمد کی روک تھام
نیتن یاہو نے حماس کے معاہدے کے شرائط پر عمل کرنے اور ٹرمپ کی دھمکیوں کو نظر انداز کرنے کے بعد اپنے کابینہ کے اراکین کے ساتھ سیکیورٹی مشاورت کے بعد، غزہ میں گھروں کی تعمیر اور بھاری مشینری کی فراہمی میں روکاوٹ ڈالی، جیسا کہ معاہدے میں ذکر کیا گیا تھا۔ تاہم، نیتن یاہو نے انسانی امداد کے پروٹوکول کے حوالے سے تمام راستے بند نہیں کیے اور یہ کہا کہ اس موضوع پر آنے والے دنوں میں مزید تبادلہ خیال کیا جائے گا، اس کے ساتھ ہی انہوں نے کوشش کی کہ ان امدادی سامان کی ترسیل کو چند دنوں کے لیے ملتوی کر دیا جائے۔ کچھ اسرائیلی ذرائع کے مطابق، نیتن یاہو اس معاملے میں واشنگٹن کے ساتھ مفاہمت اور ہم آہنگی کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ ٹرمپ کی خواہشات کے مطابق عمل کیا جا سکے۔
ٹرمپ کی دھمکیوں اور معاہدے پر عمل درآمد میں تاخیر نے ایتامار بن گویر کو دوبارہ نیتن یاہو پر حملہ کرنے پر مجبور کر دیا
ٹرمپ کی دھمکیوں اور معاہدے پر عمل درآمد میں تاخیر نے اسرائیل کے استعفیٰ دینے والے وزیر برائے قومی سلامتی، ایتامار بن گویر کو دوبارہ نیتن یاہو پر حملہ کرنے پر مجبور کر دیا اور اس مستعفی وزیر نے فائر بندی کے معاہدے کو “تاریخی غلطی” قرار دیا۔ اس نے کہا کہ نیتن یاہو کا طریقہ کار اسرائیل کی غزہ میں حاصل کردہ جنگی کامیابیوں کو ضائع کر دے گا اور اس نے زور دیا کہ “ایسا معاہدہ جو اسرائیل کی مکمل فتح کی نفی کرتا ہو، جاری نہیں رہنا چاہیے۔” بن گویر نے مزید کہا: “جتنا وقت گزرتا ہے، میرے اس خیال کی درستگی ثابت ہوتی جارہی ہے کہ حماس کے ساتھ معاہدہ غلط تھا۔” اس نے کہا: “یہ بے سبب نہیں ہے کہ میں کابینہ میں نہیں ہوں۔ میں حماس کے جنگجوؤں کو ان کی ٹویوٹا گاڑیوں پر سوار دیکھ رہا ہوں جو واپس طاقت کے ساتھ آ رہے ہیں، اور اسرائیل جو اس بات کی اجازت دے رہا ہے کہ اتنی زیادہ مدد حماس کے ہاتھوں میں پہنچے، اس صورتحال میں یہ بات واضح ہے کہ حماس ابھی تک غزہ پر حکومت کر رہا ہے اور اس کا کنٹرول برقرار ہے۔”
جنگ بندی کی خلاف ورزی کا تسلسل
نیتن یاہو نے جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ معاہدے کے نفاذ کے پہلے دن سے ہی صہیونی فوج نے مختلف خلاف ورزیاں کیں اور اگر مزاحمت کی حکمت عملی نہ ہوتی تو بحران کا شکار صہیونی وزیر اعظم کو ایک دن کے لیے بھی اپنی حرکتوں کو جاری رکھنے کی اجازت نہ ملتی۔ ایسی خلاف ورزیوں کی آخری مثال اسرائیلی ڈرون کا 16 فروری 2025 کو غزہ کے جنوب میں رفح کے علاقے میں ایک انسانی امدادی کاروان پر حملہ تھا جس کا تعلق غزہ میں انسانی امداد کی حفاظت سے تھا، جس کے نتیجے میں تین افراد شہید ہو گئے اور دیگر زخمی ہو گئے۔ غزہ حکومت کے میڈیا آفس نے بھی یہ نشاندہی کی کہ ابھی تک کوئی بھی وقتی تعمیر شدہ گھروں سے متعلق سازوسامان و بھاری لیکن جب کہ دوسرے مرحلے کی بات چیت اگلے ہفتے کے آخر میں شروع ہونے والی تھی، ابھی تک اس کے آغاز کے لیے کوئی مناسب اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ یہ چیز غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کو ایک نازک موڑ پر لے آئی ہے جہاں امریکہ اور اسرائیل کا موقف مزاحمت کی استقامت اور عزم کے سامنے بدل چکا ہے، اور یہ غزہ میں جنگ بندی کے مستقبل کے حوالے سے نئے امکانات کے دروازے کھول رہا ہے۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں