پانچ لاکھ امریکی قابض صہیونی ریاست میں کیا کر رہے ہیں؟

سرکاری اندازوں کے مطابق، پانچ لاکھ سے زائد امریکی مختلف مقاصد کے لیے مقبوضہ علاقوں (اسرائیل) میں موجود ہیں، جن میں فوجی خدمات بھی شامل ہیں۔

فاران: سرکاری اندازوں کے مطابق، پانچ لاکھ سے زائد امریکی مختلف مقاصد کے لیے مقبوضہ علاقوں (اسرائیل) میں موجود ہیں، جن میں فوجی خدمات بھی شامل ہیں۔
فارس پلس گروپ: گزشتہ 22 مارچ کو مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے نے اسرائیل (مقبوضہ علاقوں) اور مغربی کنارے کی بستیوں میں دوبارہ شروع ہونے والے وسیع احتجاجی مظاہروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہاں مقیم امریکی شہریوں کو سیکیورٹی کی صورتحال کے بگڑنے پر خبردار کیا۔ مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے نے اسرائیل میں مقیم امریکیوں کو متنبہ کیا کہ وہ اپنی ذاتی سیکیورٹی کے حوالے سے مزید احتیاطی تدابیر اختیار کریں، جیسے کہ بڑے اجتماعات اور مظاہروں سے دور رہنا، اور راکٹ، میزائل یا ڈرون حملے کی صورت میں خطرے کے سائرن بجنے پر قریبی پناہ گاہ کے مقام سے باخبر ہونا۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکی سفارت خانے نے اسرائیل میں مقیم امریکیوں کو خبردار کیا ہو، بلکہ ایسی وارننگز معمول بن چکی ہیں۔ تاہم اس بار کی وارننگ کی اہمیت اس لیے زیادہ تھی کہ یہ ایک ایسی صورتحال میں دی گئی جب مقبوضہ علاقوں کی سیکیورٹی صورتحال نہایت پیچیدہ اور تیزی سے بدلتی ہوئی ہے، خاص طور پر جب کہ پانچ لاکھ سے زائد امریکی شہری مستقل طور پر مقبوضہ علاقوں میں مقیم ہیں۔
اعداد و شمار:
یہودی ایجنسی کے تازہ ترین اندازوں کے مطابق، دنیا بھر میں یہودیوں کی آبادی تقریباً 15.7 ملین (ایک کروڑ ستاون لاکھ) ہے، جن میں سے 7.2 ملین افراد مقبوضہ علاقوں (اسرائیل) میں اور تقریباً 8.5 ملین افراد ان علاقوں کے باہر رہائش پذیر ہیں۔ ان میں سے بھاری اکثریت (تقریباً 6.3 ملین یعنی 74 فیصد) امریکہ میں مقیم ہے۔
جبکہ امریکی تخمینے بتاتے ہیں کہ پانچ لاکھ سے زائد امریکی-یہودی اسرائیل (مقبوضہ علاقوں) میں رہائش پذیر ہیں، جو کہ اسرائیل میں موجود یہودی آبادی کا 7.6 فیصد بنتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 60 ہزار افراد مغربی کنارے کی صیہونی بستیوں میں رہتے ہیں اور “قانون ہجرت” کے تحت، جو دنیا بھر کے یہودیوں کو اسرائیلی شہریت حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے، اسرائیلی شہریت رکھتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والے “طوفان الاقصی” آپریشن کے دوران 40 سے زائد امریکی شہری مارے گئے اور 12 کو اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) نے قید کر لیا، جو کہ مقبوضہ علاقوں میں امریکیوں کی نمایاں بلکہ بڑی تعداد کی عکاسی کرتا ہے۔
اسرائیل، کینیڈا، میکسیکو اور برطانیہ کے بعد وہ چوتھا سیاسی خطہ ہے جہاں سب سے زیادہ امریکی تارکین وطن مقیم ہیں۔ “واشنگٹن پوسٹ” نے آپریشن طوفان الاقصی کے آغاز کے بعد، مقبوضہ علاقوں میں مقیم امریکیوں کی تعداد 6 لاکھ کے قریب بتائی۔ اسی دوران، فیڈرل ووٹنگ اسسٹنس پروگرام کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2022 میں 159,134 امریکی شہری ایسے تھے جو مقبوضہ علاقوں میں رہائش پذیر اور ووٹ دینے کے اہل تھے۔
باہمی مفادات:
“بزنس انسائیڈر” کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل میں مقیم امریکی ووٹرز نے حالیہ انتخابات میں ریپبلکن امیدواروں کی حمایت کی۔ سال 2016، 2020 اور 2024 میں، ریپبلکن پارٹی کے امیدوار اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کے تقریباً 75 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
الجزیرہ چینل نے ایک یہودی-امریکی خاندان سے گفتگو کی جو مقبوضہ علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔ “رونی سوادسکی”، جو واشنگٹن میں مالیاتی امور سے وابستہ تھے، کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں دوہری شہریت رکھنے والے امریکی-اسرائیلی شہریوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں: “بہت سے امریکی یہودی اپنی مذہبی تعلیمات کی بنیاد پر اسرائیل میں رہائش کو ترجیح دیتے ہیں۔ اکثر اوقات، اگرچہ وہ اسرائیلی شہریت حاصل نہیں کرتے، لیکن ان کی اسرائیل ہجرت ایک مستقل سکونت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔”
سوادسکی اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ “امریکہ میں کئی صیہونی تنظیمیں موجود ہیں جو امریکی یہودیوں، خصوصاً نیویارک اور نیوجرسی کی غریب آبادی، کو اسرائیل اور مغربی کنارے کی بستیوں میں سکونت اختیار کرنے کے لیے مالی اور تنظیمی مدد فراہم کرتی ہیں، اور ان کی ہجرت کو آسان بناتی ہیں۔”
وہ (سوادسکی) اسرائیل میں یہودی آبادی میں اضافے اور فلسطینی عربوں کے ساتھ آبادی کے توازن کو برقرار رکھنے کو امریکی صیہونی تنظیموں کے سب سے اہم اہداف میں سے ایک قرار دیتے ہیں، جن کے لیے یہ تنظیمیں مسلسل کوششیں کر رہی ہیں اور ہر ممکن طریقے سے امریکی یہودیوں کی اسرائیل ہجرت کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق، جیسے ہی امریکی یہودی اسرائیل (مقبوضہ علاقوں) میں ہجرت کرتے ہیں، وہ ایسے علاقوں میں سکونت کو ترجیح دیتے ہیں جہاں مذہبی ماحول، قدامت پسند سماجی ڈھانچہ ہو، اور بڑی خاندانوں کی کثرت ہو، جن میں سے بعض افراد اسرائیلی فوج میں خدمات سرانجام دے رہے ہوں یا ریزرو فورسز میں شامل ہوں۔
اسرائیلی قوانین کے مطابق، 18 سال یا اس سے زیادہ عمر کے مردوں اور عورتوں پر فوجی اور مسلح افواج میں خدمات انجام دینا لازمی ہے۔ دوہری شہریت رکھنے والوں کے لیے لازمی فوجی سروس کا دورانیہ تقریباً 18 ماہ مقرر ہے۔ اس کے بعد بھی وہ کئی سالوں تک – جیسے کہ حالیہ غزہ جنگ کے دوران – ریزرو فورسز کا حصہ رہتے ہیں، یعنی جب بھی اسرائیلی فوج کو ان کی ضرورت ہو، انہیں دوبارہ خدمت کے لیے بلایا جا سکتا ہے۔
صہیونی ریاست کی خدمت:
“واشنگٹن پوسٹ” کے اندازوں کے مطابق، آپریشن “طوفان الاقصی” کے بعد تقریباً 23,380 امریکی شہری اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں، جبکہ 10,000 سے زائد افراد اسرائیلی فوج کی جانب سے ریزرو فورسز کو متحرک کرنے کے اعلان پر امریکہ چھوڑ کر دوبارہ مقبوضہ علاقوں (اسرائیل) واپس گئے تاکہ لڑاکا یونٹس میں شامل ہو سکیں۔
اگرچہ امریکی حکومت اپنے شہریوں کو غیر ملکی جنگوں میں شرکت کی ترغیب نہیں دیتی، لیکن امریکی یہودیوں کی اسرائیلی فوج میں خدمات کی ایک طویل تاریخ ہے جو 1948 میں فلسطین پر قبضے کے وقت سے چلی آ رہی ہے۔ علاوہ ازیں، امریکی قوانین اپنے شہریوں کو اتحادی اور دوست ممالک کی افواج، خصوصاً اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دینے سے منع نہیں کرتے۔
امریکی یہودیوں اور اسرائیل کے درمیان گہرے تعلقات کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اسرائیلی سوچ اور نقطہ نظر کو امریکی پالیسی سازی کے مراکز اور سیاسی ذہنیت میں منتقل کیا جاتا ہے، خاص طور پر اسرائیل کی جنگوں کے حوالے سے۔ اس نقطہ نظر کی سب سے نمایاں مثال اسرائیل کی غزہ میں جاری نسل کشی کی جنگ کے دوران امریکی حکومت کی جانب سے تل ابیب کو دی جانے والی عسکری، مالی اور سفارتی حمایت ہے، جو اب بھی جاری ہے۔
دوسری جانب، اسرائیل بخوبی اس بات سے آگاہ ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں امریکیوں کی موجودگی کس قدر قیمتی ہے۔ یہ موجودگی تل ابیب کو امریکہ کے مختلف حلقوں میں مزید نفوذ کا موقع فراہم کرتی ہے، اور اسرائیل کی حمایت میں کمی یا کسی قسم کی پابندی کے نفاذ کے منظرنامے کو محض ایک خام خیالی، بلکہ ایک مضحکہ خیز تصور بنا دیتی ہے۔
یہ امریکی یہودیوں کی موجودگی، امریکہ میں صیہونی لابی کی سرگرمیوں کو بھی مزید تقویت دیتی ہے۔ مثلاً، اگرچہ امریکہ نے “دو ریاستی حل” کو قبول کیا ہے — جو کہ سابق صدر بل کلنٹن کے دور (1990 کی دہائی کے وسط) سے لے کر موجودہ صدر جو بائیڈن تک تسلیم شدہ پالیسی ہے — لیکن یہ منصوبہ نہ صرف اب تک نافذ نہیں ہو سکا، بلکہ اس کے قریب تر بھی نہیں پہنچ سکا۔ اس میں صیہونی لابی کو اس منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
اگرچہ امریکی آئین صدر کو وسیع اختیارات دیتا ہے، لیکن اب تک کسی بھی امریکی صدر نے اسرائیل پر فلسطینیوں کے معاملے میں معمولی سا دباؤ ڈالنے تک کی جرات نہیں کی، چہ جائیکہ “دو ریاستی حل” کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ وہ یہاں تک بھی تیار نہیں ہوئے کہ اسرائیل میں بستیوں کی تعمیر کو روکنے کے لیے امریکی سفارتی حمایت کو مشروط کر دیں۔