پرتقال( مالٹوں کا) معاہدہ: وہ دن جب روسیوں نے فلسطین کی کچھ اراضی پرتقال( مالٹوں) کے عوض فروخت کر دیں

تاریخ فلسطین کے سب سے ظالمانہ جب معاہدوں میں سے ایک کو "پرتقال معاہدہ"( مالٹوں کا یا نارنگی معاہدہ )کہا جاتا ہے، جس کے تحت روسیوں نے فلسطین کی کچھ اراضی کو چند کریٹ پرتقال( مالٹوں) کے بدلے میں فروخت کر دیا تھا ۔

فاران تجزیاتی خبرنامہ: تاریخ فلسطین کے سب سے ظالمانہ جب معاہدوں میں سے ایک کو “پرتقال معاہدہ”( مالٹوں کا یا نارنگی معاہدہ )کہا جاتا ہے، جس کے تحت روسیوں نے فلسطین کی کچھ اراضی کو چند کریٹ پرتقال( مالٹوں) کے بدلے میں فروخت کر دیا تھا ۔

“پرتقال معاہدہ”، جو “پرتقالی معاہدہ” ( مالٹوں کے معاہدہ)کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اسرائیل اور روس کے درمیان معاہدہ نمبر 593 کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس کے تحت سوویت یونین کے دور میں روسیوں نے اپنی فلسطینی جائیدادیں اور زمین اسرائیل کو فروخت کر دیں۔ حالانکہ یہ جائیدادیں 1917 کے “بالشویک انقلاب” سے پہلے روسی سلطنت اور “امپیریل آرتھوڈوکس فلسطین سوسائٹی” کی ملکیت تھیں۔

فلسطین کی زمینوں کو بیچنے اور اسرائیل کے حوالے کرنے کے مذاکرات 1948 میں اس وقت شروع ہوئے جب صیہونیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا۔ حتمی معاہدہ 1964 میں طے پایا۔ اسرائیلی ماہرین کے مطابق، روسیوں کے بیچے گئے اثاثوں کی مالیت 18 ملین پاؤنڈ اسٹرلنگ (1964 کے پاؤنڈ کی قدر کے مطابق) تھی، لیکن یہ زمینیں روس نے صرف 4.5 ملین ڈالر میں اسرائیل کو فروخت کر دیں۔

معاہدے کے مطابق، یہ رقم قسطوں میں اور اسرائیل سے یافا کے پرتقال( مالٹوں) اور دیگر اشیاء کی درآمد کی صورت میں ادا کی جانی تھی۔ اسی وجہ سے یہ معاہدہ “پرتقال معاہدہ”( مالٹوں) کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ معاہدہ 7 اکتوبر 1976 کو مقبوضہ بیت المقدس میں سوویت یونین کے حکمران نکیتا خروشچیف کے آخری ایام میں ہوا۔ اسرائیل کی جانب سے اُس وقت کی وزیر اعظم “گولڈا مائیر” اور روس کی جانب سے سوویت سفیر “میخائیل بودروف” نے اس معاہدے پر دستخط کیے۔

اس معاہدے کے تحت روسیوں نے 22 جائیدادیں اور 167,000 مربع میٹر زمین فروخت کی، جن میں روسی قونصل خانے، کئی اسپتال، کھیت، اور دیگر جائیدادیں شامل تھیں۔ یہ جائیدادیں مقبوضہ بیت المقدس، حیفہ، عفولہ، عین کارم اور کفر کنا میں واقع تھیں۔

فلسطین میں روسی جائیدادوں کی تاریخ

19ویں صدی کے وسط میں روس کے بادشاہ “زار نکولس اول” کے فرمان کے تحت یروشلم میں “روسی روحانی مشن” قائم کیا گیا۔ اس مشن کو فلسطین میں زمین خریدنے اور تعمیرات کا اختیار دیا گیا۔ 1856 سے 1864 کے دوران، روسی فلسطینی سوسائٹی کی مدد سے قدس میں گرجا گھروں، خانقاہوں، اور دیگر عمارتوں کی تعمیر کی گئی۔

یہ جائیدادیں بعد میں “امپیریل آرتھوڈوکس فلسطین سوسائٹی” کے زیر انتظام آئیں، جو فلسطین میں روس کی موجودگی کا ابتدائی مرکز بنیں۔ روسی بادشاہوں نے قدس میں موجودگی کو جیوپولیٹیکل حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا، کیونکہ اس وقت روس دنیا کی ایک بڑی طاقت تھی اور عالمی اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے فلسطین جیسے مقدس مقامات پر موجودگی کو اہم سمجھتا تھا۔

1917 کے بالشویک انقلاب کے بعد، کمیونسٹ حکومت نے مذہب اور سیاست کو الگ کرنے کا قانون نافذ کیا۔ اس کے تحت فلسطین میں روسی املاک قانونی طور پر “امپیریل آرتھوڈوکس فلسطین سوسائٹی” کی ملکیت رہیں۔ لیکن کمیونسٹ حکومت نے مذہبی اداروں کو نظر انداز کر دیا، اور یہ جائیدادیں وقت کے ساتھ فراموش ہو گئیں۔

1964 میں سوویت یونین نے اعلان کیا کہ یہ جائیدادیں حکومت کی ملکیت ہیں اور انہیں 4.5 ملین ڈالر کے بدلے میں اسرائیل کو بیچ دیا گیا۔ 1972 میں “روسی آرتھوڈوکس چرچ” اور “امپیریل آرتھوڈوکس فلسطین سوسائٹی” نے اس معاہدے کو غیر قانونی قرار دیا۔

1984 میں مقبوضہ قدس کی مرکزی عدالت نے اس اعتراض کو قبول کیا اور اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ 7 ملین ڈالر ادا کرے تاکہ چرچ اور دیگر شکایت کنندگان کو مطمئن کیا جا سکے۔ شرط یہ تھی کہ اس کے بعد کوئی مزید دعوے دائر نہیں کیے جائیں گے۔
28 دسمبر 2008 کو مجمع “سرگیوسکویے” کی ملکیت روسیوں کو واپس دی گئی، لیکن نئے رہائشیوں نے اسے خالی کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر اسرائیل کی سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ مجمع کے مالکان کو کرایہ ادا کیا جائے۔

2020 میں، اس مجمع کی ملکیت میں اچانک ایک نیا موڑ آیا، اور اس کی ملکیت روسی حکومت کے نام منتقل کر دی گئی۔ اس اقدام نے اسرائیل کے ارتھوڈوکس یہودیوں میں شدید اعتراضات کو جنم دیا۔ اسرائیلی میڈیا نے اس تبدیلی کو اسرائیل کے وزیر اعظم “بنیامین نیتن یاہو” اور روسی صدر “ولادیمیر پوتن” کے درمیان ایک معاہدے کا نتیجہ قرار دیا۔ روسی اخبارات نے دعویٰ کیا کہ یہ معاہدہ اسرائیلی سیاح “نعمہ سسخار” کی رہائی کے بدلے میں ہوا تھا، جو ماسکو ایئرپورٹ پر منشیات اسمگل کرنے کے جرم میں گرفتار ہوئی تھی۔

تاہم، یہ سب محض قیاس آرائیاں تھیں، کیونکہ مارچ 2022 میں اسرائیل کی مرکزی عدالت نے قدس میں واقع اس مجمع (جس میں “کلیسائے الیگزینڈر نیوسکی” بھی شامل ہے) کی ملکیت روسی حکومت کو منتقل کرنے سے انکار کر دیا اور اس کی ملکیت سرکاری طور پر اسرائیل کے نام کر دی۔

“سرگئی استیبچن”، جو “امپیریل آرتھوڈوکس فلسطین سوسائٹی” کے سربراہ ہیں اور ماضی میں روس کے وزیر داخلہ رہ چکے ہیں، نے اس عدالتی فیصلے کو یوکرین کے خلاف جنگ کے باعث ماسکو پر بڑھتے دباؤ سے جوڑا۔ “اولگ فومن”، جو امپیریل آرتھوڈوکس فلسطین سوسائٹی کی گورننگ باڈی کے رکن ہیں، نے اس فیصلے کو امریکہ کو خوش کرنے کی اسرائیلی کوشش قرار دیا، خاص طور پر اس لیے کہ یہ مجمع مشرقی قدس میں واقع ہے، جسے اسرائیل اپنے زیرِ قبضہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

وجہ کچھ بھی ہو، اہم بات یہ ہے کہ روسیوں نے فلسطین کی تاریخ کے سب سے ظالمانہ اور احمقانہ معاہدوں میں سے ایک میں اپنی 22 جائیدادیں اور 167,000 مربع میٹر زمین (مقبوضہ قدس، حیفا، عفولہ، عین کارم، اور کفر کنا میں واقع) چند میٹر کپڑے اور یافا کے چند کریٹ پرتقال ( مالٹوں یا نارنگیوں) کے بدلے میں صیہونیوں کو فروخت کر دیں۔