پشاور و افغانستان کے دلخراش حادثے اور کربلا کی صدائے بازگشت

شیعوں پر اس طرح کے خودکش حملے نئے نہیں ہیں ، تاریخ شاہد ہے کہ ہم اسی طرح شہادت کے گلستان کی آبیاری اپنے لہو سے کرتے آئے ہیں ، افسوس حکومت کی نا اہلی اور انتظامیہ کی سستی پر ہے جس کی جانب سے اس حادثہ کی مذمت تو ضرور کی گئی لیکن اب تک ایسی چارہ جوئی نہیں کی گئی کہ اس حادثہ کے سہولت کاروں کو پکڑا جا سکے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ابھی چند دنوں قبل پشاور کی ایک شیعہ مسجد میں ہونے والے دھماکے نے ہر صاحب احساس کو ہلا کر دکھ دیا تھا اور لوگ اس غم سے ابھی ابھر نہیں پائے تھے کہ افغانستان میں پے درپے شیعہ مسجد و ایک اسکول میں ہونے والے دھماکوں نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ، پاکستان میں شیعوں کا قتل عام ہو یا افغانستان میں ہزارہ شیعوں کی نسل کشی۔ جب بھی اس طرح کے حوادث رونما ہوتے ہیں حیوانیت قہقہہ لگاتی ہے اور بے گناہوں کی فریادیں بلند ہوتی ہیں ایسے میں ہر صاحب احساس کو خود سے سوال کرنا چاہیے کہ و ہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لئے کیا کر سکتا ہے؟ کیا کوئی اپنوں سے بچھڑ جانے کے درد کو بیان کر سکتا ہے جس طرح ان دھماکوں کے بعد بوڑھے اور نوجوانوں کے ساتھ بچوں کی لاش کو اٹھایا گیا وہ ناقابل بیان ہیں ، کوئی اس ماں کے دل سے پوچھے جو اپنے لعل کا گھر میں انتظار کر رہی تھی لیکن گھر پہنچی اسکی لاش، کوئی ان بہنوں سے پوچھے جنہوں نے اپنے بھائیوں کو کھو دیا ایک ہی گھر سے کئی کئی میتیں اٹھیں گھر کے باقی ماندہ افراد کا جو حال ہے اسے کون بیان کر سکتا ہے؟ یقینا آپ نے خبروں میں دیکھا ہوگا کہ کچھ دن قبل کس طرح پڑوسی ملک میں پشاور کے معروف قصہ خوانی بازار کی گلی کوچہ رسالدار میں شیعوں کی مرکزی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران ایک انسان نما جانور نے پہلے تو نمازیوں کو گولیوں سے نشانہ بنایا اور پھر خود کو اڑا لیا جس کے نتیجہ میں ۶۰ سے زیادہ لوگ شہید ہو گئے اور اسکے بعد جیسا کہ پہلے سے ہی واضح تھا شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔
اس حملے کے بعد دولتِ اسلامیہ کے خبر رساں ونگ اعماق نے اپنی ویب سائٹ پر ایک پریس ریلیز اور مبینہ حملہ آور کی تصویر بھی جاری کی ہے۔ یہ اتنی ڈھٹائی کے ساتھ بے گناہوں کا قتل عام اور پھر قاتل کی تصویر کو جاری کرنا بتا رہا تھا کہ حیوانیت ان لوگوں کی نس نس میں اس قدر سرایت ہو چکی ہے کہ انہیں بچوں کے قتل پر بھی افسوس نہیں ہوتا یہ تو خود کو ختم کرکے سوچتے ہیں کہ ہم بہشت میں جا رہے ہیں ان کو نہیں پتہ کسی کو قتل کر کے کسی بہشت تک پہنچنا تو دور انسان بہشت کی بو بھی نہیں سونگھ سکتا ہے۔ پھر یہی چیز افغانستان میں تکرار ہوتی ہے چاہے وہ لڑکیوں کے اسکول پر حملہ ہو یا مزار شریف کی مسجد میں یا پاکستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے ہر جگہ تکفیریت کا ہی ہاتھ نظر آتا ہے ان لوگوں کا ہاتھ جو اپنے علاوہ ہر ایک کو غیر مسلم سمجھتے ہیں کتنے افسوس کی بات ہے وہ پیغمبر جنکا طرز سلوک دوسروں کے ساتھ مشفقانہ تھا دوسری فکر کے لوگوں کے ساتھ توحید کو نہ ماننے والوں کے ساتھ آپ مل جل کر رواداری کے ساتھ رہتے تھے آج اسی پیغمبر ص کے ماننے والے نبی رحمت کے تعلیمات کی دھجیاں اڑاتے نظر آ رہے ہیں ۔
آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیں کب پیغمبر ص نے اپنے مخالفین کا قلع قمع کرنے کو کہا ، کب حضورص نے فرمایا کہ کسی کو مار کر تم بہشت میں پہنچ جاوگے لیکن یہ سب کچھ آج وہ لوگ کر رہے ہیں جو سب سے زیادہ خود کو نبی کا سچا پیرو بتاتے ہیں ، اور عجیب بات ہے کہ جن لوگوں کو یہ لوگ قتل کرتے ہیں جن کا خون بہاتے ہیں یہ لوگ وہ ہیں جو ان حملہ آوروں کی نظر میں مسلمان ہی نہیں ؟ کتنی عجیب بات ہے کہ جو مسلمان نہیں کوئی خود سے نہیں پوچھتا جو مسلمان نہیں تو وہ مسجد میں کیا کر رہے ہیں ؟ جمعہ کے دن یہ لوگ جمع ہو کر نماز جمعہ میں کس کی عبادت کرتے ہیں؟ ظاہر ہے ان حملہ آوروں کو اتنا شعور کہاں کہ خود سے سوال کریں اپنے ضمیر کے چبھتے ہوئے سوالوں کا جواب دیں، انکا تو برین واش ہو چکا ہے ، لیکن دنیا کے سامنے تو سب کچھ ہے کہ کیا ہو رہا ہے؟ پھر واضح طور امت مسلمہ ان لوگوں سے بیزاری کا اظہار کیوں نہیں کرتی ،ایسا کیوں ہے کہ بعض لوگ ان سفاکانہ حملوں کے بعد بھی خاموش رہتے ہیں کہ چلو حملے شیعوں پر ہی تو ہوئے ہیں، یہ لوگ کیوں قرآن کے تعلیمات کو بھول جاتے ہیں کہ ایک انسان کا قاتل پوری انسانیت کا قاتل ہے قرآن نے انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل بتایا ہے مذہب و مسلک کی بات نہیں کی ہے، تو آخر یہ قرآن کی تلاوت کرنے والے قرآن کے اس پیغام کو کیوں بھول جاتے ہیں جہاں تک ہماری بات ہے اور ہم پر مسلسل یلغار کی بات ہے تو یاد رکھیں۔
شیعوں پر اس طرح کے خودکش حملے نئے نہیں ہیں ، تاریخ شاہد ہے کہ ہم اسی طرح شہادت کے گلستان کی آبیاری اپنے لہو سے کرتے آئے ہیں ، افسوس حکومت کی نا اہلی اور انتظامیہ کی سستی پر ہے جس کی جانب سے اس حادثہ کی مذمت تو ضرور کی گئی لیکن اب تک ایسی چارہ جوئی نہیں کی گئی کہ اس حادثہ کے سہولت کاروں کو پکڑا جا سکے ظاہر ہے اتنا بڑا حادثہ بغیر منصوبہ بندی کے اور بغیر دوسرے لوگوں کی ہمراہی کے ممکن نہیں ہے ،افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یوں تو پاکستان کی حکومت نام نہاد دولت اسلامیہ سے خود کو بیزار بتاتی ہے لیکن پاکستانی فوج میں کتنے ہی ایسے جنرل ہیں جو تکفیریت کی فکر سے متاثر ہیں انکے اوپر لگام کسنا تو دور ان کے شدت پسندانہ نظریات کو بسا اوقات دینی تعصب کا نام دیا جاتا ہے جو بہت خطرناک ہے ، چاہے داعش کا طرز فکر ہو یا طالبانی انداز کوئی بھی شدت پسندانہ تنظیم بغیر اپنے بازووں کے آگے نہیں بڑھ سکتی اس سنگین حادثہ کے بعد عمائدین شیعہ کو بیٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہماری حکمت عملی کیا ہونا چاہیے اور اس کے لئے متحد ہو کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
ایک قابل قدر نکتہ :
ان تمام حملوں کے بعد ایک زبردست چیز جو دیکھنے کو ملی وہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کے در پر سر جھکانے والوں کا حوصلہ ہے انکی ہمت ہے اپنے ثبات قدم میں لغزش کا نہ آنے دینا ہے ، بڑی خوشی ہو رہی ہے یہ بتانے میں کہ معلومات کے مطابق، ان حملوں میں شہید ہو جانے والوں پر لوگ روتے رہے، کوئی اپنے بھائیوں کو کھونے پر اداس رہا کوئی ماں اپنے بچے کو ڈھونڈتی رہی کہیں بہنیں اپنے بھائیوں کو تلاش کرتی رہیں یہ کہیں باپ اپنے لعل کو ڈھونڈتا رہا تو کہیں بیٹا باپ کے جنازے کو حسرت سے تکتا رہا یہ سب کچھ ہوا لیکن الحمد للہ جن مساجد میں دھماکے ہوئے وہ نہ تو بند ہوئیں اور نہ ہی ان مساجد سے ایک ہی وقت کے لئے سہی اذان کی آواز ہی آنا بند ہوئی ان مساجد سے اذان کی آواز کا آنا اس بات کی دلیل ہے کہ کربلا ہمارے وجود کا حصہ ہے کربلا سے ہی ہم نے یہ سبق لیا ہے سب کچھ چھن جانے کے بعد بھی ذکر رب ہوتا رہے گا ، دشمن یہ نہ سمجھے کہ ہمیں مار کر ہمیں ختم کر کے ہماری فکر کو ختم کر دیگا ہماری فکر کو مٹا دیگا فکر ولایت کو ختم کر دیگا ، نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوگا تاریخ شاہد ہے ہم نے جتنا خون دیا ہے اتنا ہی ہمارے عقیدے اور ہمارے عزم میں مضبوطی آئی ہے، مرحبا ان لوگوں پر جنہوں نے اپنے کاندھوں پر جنازے تو اٹھائے لیکن اپنی فکر کا سودا نہ کیا اپنے عقیدے سے دستبردار نہ ہوئے بلکہ واضح طورپر اسی مسجد میں اسی دن اذان و نمازکے ذریعہ دشمن کو پیغام دیا کہ تم ہمیں مار سکتے ہو لیکن ہماری فکر کو ہرگز نہیں مار سکتے ہمارے خیال کو ہرگز ختم نہیں کر سکتے اس لئے کہ ہماری فکر ہمارا خیال کا سرچشمہ کربلا ہے اور کربلا کی انفرادیت ہی یہ ہے کہ سب کچھ مٹ جانے کے بعد بھی یہ سب کچھ لٹ جانے کے بعد میں دین محمدی کو کربلا لٹنے نہیں دیتی ، کل کی تاریخ بھی گواہ ہے آج بھی ایسا ہی ہے ۔