پہلے امریکہ یا پہلے اسرائیل ؟۔۔۔

ڈونالڈ ٹرنپ کی جانب سے دیا گیا نعرہ " پہلے امریکہ" کے اثرات مختلف اداروں اور ملکوں کو امریکی تعاون کے بند ہو نے اور نئی پالیسی کے نفاذ سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔

فاران: ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے دیا گیا نعرہ ” پہلے امریکہ” کے اثرات مختلف اداروں اور ملکوں کو امریکی تعاون کے بند ہو نے اور نئی پالیسی کے نفاذ سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔
علاوہ از ایں گزشتہ چند دنوں عالمی منظر نامے پر بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن میں ایک مسلسل 16 میہنوں کی ایک صہیونی جارحیت کے بعد غزہ میں جنگ بندی اور دوسرے وائٹ ہاووس میں امریکہ کے نئے صدر کی حلف برداری اور انکی جانب سے ایک پھر پر امریکہ کے صدر کی حیثیت سے وہائٹ ہاوس میں براجمان ہونا جسکے بین الاقوامی اثرات آہستہ آہستہ سامنے آئیں گے جن میں کچھ مندرجہ ذیل ہیں :

غزہ کی جنگ بندی ایک امن و انصاف کی راہ میں اہم پیشرفت:

غزہ میں ہونے والی جنگ بندی یقینا پوری دنیا کے لئے ایک بڑی خوشی کی خبر ہے ۔
غزہ میں تقریباً سولہ ماہ کی بمباری، صہیونیوں کے جرائم اور قتل عام کے بعد، ایک طرف، اور غزہ کے لوگوں کی ناقابل بیان اور قابل ستائش مزاحمت کے بعد، اب یہ بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ فلسطین اور مزاحمت کا مستقبل کیا ہوگا؟ جو مختصر جواب دیا جا سکتا ہے، وہ نہ تو خواہشات پر مبنی ہے اور نہ ہی آرزوؤں پر، بلکہ الہیٰ سنت، تاریخی تجربے اور موجودہ ناقابل تردید رجحانات کی بنیاد پر ہے کہ فلسطین اور مزاحمت کا مستقبل پہلے سے کہیں زیادہ روشن ہے۔جنگ بندی کا معاہدہ، مندرجہ شرائط کے پیش نظر، غزہ کی جنگ کے پہلے چند مہینوں میں ہی طے پا سکتا تھا؛ لیکن ہر بار مذاکرات میں، یہ صہیونی تھے جو نئے شرائط پیش کرکے اور مزاحمت کے شرائط کو قبول نہ کرکے مذاکرات کو ناکام بنا دیتے تھے۔

جنگ بندی اور صہیونی ریاست کی مجبوری :
صہیونیوں نے جنگ بندی اور معاہدے کی مختلف وجوہات کی بنا پر مخالفت کی تھے جن میں سے ایک یہ تھی کہ جنگ بندی کے لئے شرائط کو قبول کرنے کو، ایک بھاری، غلطی اور ناقابل مرمت شکست کو تسلیم کرنے اور حماس اور مزاحمت کے خطرے کو اعلیٰ سطح پر باقی رکھنے کے طور پر دیکھا گیا، ایسی غلطی جو کسی بھی وقت پھر سے عملی ہو سکتی ہے اور اسرائیل پر طوفان الاقصیٰ جیسے شدید حملے کر سکتی ہے۔جی ہاں، صہیونیوں نے اسی منطق کی بنیاد پر جنگ بندی کو قبول نہیں کیا اور غزہ کی جنگ طول پکڑ گئی۔ تقریباً سولہ ماہ کی جنگ کے دوران، صہیونی حکومت نے مغرب کی مکمل حمایت سے ہر ممکن جرم کا ارتکاب کیا تاکہ اپنی سوچ میں، حماس پر غلبہ پا کر، اپنی شکست کو فتح میں بدل دے اور حماس اور مزاحمت کو ختم کرکے مستقبل کے خطرات کو ختم کر دے؛ لیکن صہیونی حکومت کی توقعات اور اندازوں کے برعکس، مغرب اور خاص طور پر امریکہ کی طرف سے دیے گئے مختلف ہتھیاروں کے ساتھ جنگ کے دوران کیے گئے جرائم اور قتل عام کے ذریعہ نہ تو جنگ کے اعلانیہ مقاصد جیسے قیدیوں کی آزادی، حماس کی تباہی، فلسطینی گروپوں اور حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنا، اور غزہ کو خالی کرنا نہ یہ مقاصد پورے ہو سکے نہ صہیونی ریاست کے ہاتھ کچھ لگ سکا بلکہ ایک طرف صہیونیوں کے مادی اور معنوی نقصانات کو بڑھا دیا اور دوسری طرف مزاحمت کو مزید فعال اور اس کے نظریے کو عالمی بنا دیا۔
صہیونی حکومت نے اب مجبوری میں حماس کی تمام شرائط کو قبول کرتے ہوئے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔

جارحیت کی شکست مزاحمت کی کامیابی:
غزہ کی جنگ میں مزاحمت کی کامیابیوں اور صہیونیوں کی شکستوں اور نقصانات کا تجزیہ کرتے ہوئے، فلسطین اور مزاحمت کے مستقبل کو سمجھا جا سکتا ہے۔ یہاں پرغزہ کی جنگ میں صہیونی حکومت کے جرائم، جو امریکہ اور کچھ دیگر مغربی ممالک کی مکمل حمایت کے ساتھ انجام پائے، ان جرائم نے عالمی رائے عامہ کے لیے صہیونیوں اور ان کے حمایتیوں کے ظالمانہ چہرے کو بے نقاب کر دیا۔ اب عوامی رائے، خاص طور پر مغرب میں، فلسطینیوں کو نہ صرف دہشت گرد نہیں سمجھتی بلکہ ایک مظلوم قوم کے طور پر جانتی ہے جس کی سرزمین پر قبضہ کیا گیا ہے اور انہیں اپنے وطن کی آزادی کے لیے لڑنے کا حق حاصل ہے۔ یہ فلسطینی مزاحمت اور اس کے حمایتیوں کے لیے ایک بے نظیر اور انتہائی قیمتی کامیابی ہے۔
غزہ کے عوام کی استقامت اور مزاحمت کی قوت معجزاتی طور پر دنیا کے سامنے آئی۔ اس جنگ میں فلسطینی عوام نے دنیا کو دکھا دیا کہ وہ اپنی مقبوضہ سرزمین کی آزادی کے لیے کسی بھی قسم کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مزاحمت کے حامیوں جیسے ایران، حزب اللہ لبنان، انصار اللہ یمن اور عراقی مسلح گروپوں نے جنگ کے دوران اس طرح عمل کیا کہ فلسطینیوں میں یہ یقین پیدا ہوا کہ قدس شریف کی آزادی اور صہیونی حکومت کے خاتمے کے لیے وہ اکیلے نہیں ہیں۔ اس جنگ میں نہ صرف مزاحمت کی شکست نہ ہونے کا نظریہ ثابت ہوا بلکہ مزاحمت کا نظریہ علاقے سے آگے بڑھ کر عالمی سطح پر پھیل گیا۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد صہیونی حکومت کی شکستوں کا سلسلہ مزید بڑھ گیا، اور جنگ کے جاری رہنے سے یہہ سلسلہ گہرا، وسیع تر اور ناقابلِ تلافی ہوتا گیا عالمی عدالت میں جنگی جرائم کے مقدمے کا کھلنا اور نیتن یاہو اور گالانٹ کے لیے گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونا، صہیونی مجرم اور بچوں کے قاتل کے خاتمے کے لیے ایک نیا باب کھولتا ہے، اور یہ فلسطینیوں اور مزاحمت کے لیے ایک سنہرا موقع فراہم کرتا ہے تاکہ صہیونیوں اور ان کے حامیوں پر ہر پہلے سے دباؤ بڑھایا جائے۔

عالمی سیاست کا بدلتا چہرہ :
ادھر امریکہ کے روس کے ساتھ تعلقات متنازع رہے، لیکن شام میں روس کے اثر و رسوخ کے باعث مشرق وسطیٰ میں اس کا بڑا کردار رہا جو بشار الاسد کےبعد اب تقریبا ختم ہو چکا ہے اور ہئیت تحریر الشام تقریبا امریکہ اور صہیونی اشاروں پر کام کر رہی ہے۔

بطور نتیجہ ہم کہہ سکتے ہیں
ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے پچھلےدور میں بھی دنیا اور مشرق وسطیٰ پر وسیع اثرات مرتب ہوئے، جنہوں نے عالمی سیاست کے متعدد پہلوؤں کو تبدیل کیا اور کئی معاملات میں نئی پیچیدگیاں پیدا کیں۔ ان کی “پہلے امریکہ” کی پالیسی نے امریکہ کو کئی بین الاقوامی معاہدوں سے باہر نکال دیا، جس سے عالمی سطح پر قیادت کے خلا کو محسوس کیا گیا۔ مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ کی پالیسیز نے خطے میں کشیدگی بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کیا ۔آگے بھی حالات کس کروٹ بیٹھیں کہا نہیں جا سکتا ہے۔
بس ہم مالک کے حضور دعاء کر سکتے ہیں کہ پروردگار دنیا میں امن و امان قائم رہے اور ہم نے گزشتہ سولہ مہینوں سے جو کچھ غزہ و فلسطین میں دیکھا اب وہ دنیا میں نہ دیکھنا پڑے
خاص کر مومنین پاراچنار کے لئے دعاء ہے کہ مالک ان مظلوموں کی حمایت فرمائے اور ظالموں کو انکے کیفر کردار تک پہنچائے ۔

صہیونی اقتدار کی تدریجی موت:

سرزمینوں سے سرمایہ کا فرار، اور آئندہ سرمایہ کاروں کی بے رغبتی انہیں آسانی سے نہیں چھوڑے گی۔ مروجہ ہجرت کی صورت حال میں اب نہ صرف اس سرزمین میں آباد ہونے یا ہجرت کرنے کا کسی کو کوئی شوق نہیں، بلکہ مقبوضہ فلسطین میں آباد بہت سے یہودی اپنے ملک واپس جانے یا دوسری جگہوں پر ہجرت کرنے پر غور کریں گے۔ صہیونی حکومت کی داخلی سلامتی کبھی بھی طوفان الاقصیٰ آپریشن سے پہلے والی حالت میں واپس نہیں آئے گی، اور یہ ان کے لیے ایک تباہ کن مسئلہ ثابت ہو گا، یعنی ایک تدریجی موت جس سے بچا نہیں جا سکتا۔
غزہ کی جنگ میں اتنی بڑی مقدار میں جرائم اور تقریبا پچاس ہزار افراد کی ش ہادت نے حماس کے نظریہ کو فلسطینی عوام کے دلوں اور دماغوں میں راسخ کر دیا کہ صہیونی ریاست کا خاتمہ ہی ان کا مقصد ہے۔ ہاں، اس طرح کے رجحانات اور واقعات کے ساتھ، فلسطین اور مزاحمت کا مستقبل بہت روشن ہے، اور جیسا کہ اسلامی انقلاب کے حکیم رہنما نے بار بار کہا، صہیونی حکومت کا خاتمہ یقینی اور حتمی ہے ان شاء اللہ۔

امریکہ کے نئے صدر کی حلف برداری :

ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کے بعد ان کی صدارت کے دوران دنیا اور مشرق وسطیٰ پر کئی اہم اثرات مرتب ہوں گے جو مختلف پالیسیوں، اقدامات اور بیانات کے نتیجے میں سامنے آسکتے ہیں۔ ان اثرات کا تجزیہ اگر کیا جائے تو یہ چند اہم نکات سامنے آتے ہیں

امریکہ کا بین الاقوامی کردار:

“پہلے امریکہ” کی پالیسی: اس سے قبل ٹرمپ نے اپنی صدارت کے دوران “پہلے امریکہ” (America First) کی پالیسی اپنائی، جس کا مقصد عالمی معاہدوں اور تنظیموں میں امریکی مفادات کو ترجیح دینا تھا۔ اس سے امریکہ نے کئی بین الاقوامی معاہدوں سے خود کو الگ کر لیا، جیسے پیرس ماحولیاتی معاہدہ اور ایران جوہری معاہدہ۔
ان سب کے اثرات دنیا نے دیکے البتہ جوہری معاہدے سے نکل جانے کے باوجود اسلامی جمہوریہ کو مجبور نہیں کیا جا سکا اور اسکی اپنی مستقل سیاست رہی جو اب بھی جاری رہے گی ۔
نیٹو اتحادیوں پر دباؤ: ٹرمپ نے نیٹو اتحادیوں پر زور دیا کہ وہ اپنی دفاعی اخراجات میں اضافہ کریں، جس سے امریکہ اور یورپی ممالک کے تعلقات پر اثر پڑا۔
یہ اور بات ہے کہ یورپی ممالک مل جل کر امریکہ کے خلاف کوئی رد عمل دکھانے میں ناکام رہے ۔ آگے بھی کچھ ایسا ہی سلسلہ چلتے رہنے کی امید ہے ۔

مشرق وسطی میں تناو :
مشرق وسطی کی جب بات آتی ہے تو خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اثر و رسوخ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ایران کے ساتھ تعلقات: ایران جوہری معاہدے سے علیحدگی اور ایران پر سخت پابندیاں عائد کرنا ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ پالیسی کا ایک بڑا حصہ تھا، جس سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوا اور ایک بار پھر اگر یہی سیاست رہی تو خطہ مزید کشیدگی سے دوچار ہوگا ۔

صہیونی ریاست کی کھلم کھلاحمایت: ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارتخانہ وہاں منتقل کر دیا، جس نے فلسطین-اسرائیل تنازع کو مزید پیچیدہ بنا دیا اور اسکے اثرات کو ہم اب دیکھ رہے ہیں اگر یہ حمایت مزید جاری رہی تو مزید تباہ کن اثرات سامنے آئیں گے۔

عرب ممالک کے ساتھ تعلقات: ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ نے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے، خاص طور پر ایران کے خلاف اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے اس بار اگرچہ یہی پالیسی رہے گی لیکن اس کے نتائج مختلف ہو سکتے ہیں کیونکہ چین کی وساطت سے ایران اور سعودی عرب دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو چکے ہیں اور استحکام کی طرف گامزن ہیں۔

اقتصادی اثرات :
تجارت اور پابندیاں: ٹرمپ کی تجارتی پالیسیز، جن میں چین اور دیگر ممالک پر اضافی ٹیکس شامل ہیں، عالمی معیشت پر اثر انداز ہوئیں۔ مشرق وسطیٰ میں بھی ان پابندیوں کے اثرات محسوس کیے گئے، خاص طور پر ایران پر عائد پابندیوں سے خطے کی معیشت متاثر ہوئی جو آگے اور بھیانک صورت حال اختیار کر سکتی ہے۔

تیل کی منڈی پر اثرات: ٹرمپ کی توانائی کی پالیسی اور اوپیک ممالک کے ساتھ مذاکرات نے عالمی تیل کی منڈی پر بھی اثرات مرتب کیے اس بار بھی اس ہجومی سیاست کے نتائج کو ہم تیل کی بڑھتی قیمتوں کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔

فوجی حکمت عملی:

عسکری موجودگی میں کمی: ٹرمپ نے شام اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کم کرنے کا اعلان کیا، جس نے خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر کیا اور بعض اوقات اتحادیوں کو کمزور کیا افغانستان میں طالبان کی حکومت اسکی ایک دلیل ہے۔
عالمی تعلقات:ٹرمپ نے چین کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کی، جس کا اثر عالمی معیشت پر پڑا اور مشرق وسطیٰ میں بھی چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی کو متاثر کیا۔
کل ملا کر پہلے امریکہ کی پالیسی کا سیدھا اثر دنیا پر پڑے گا اور اس بات کا خوف بھی برقرار رہے گا کہ پہلے امریکہ کے نعرے کے پس پردہ کہیں” پہلے اسرائیل “تو نہیں۔