پیدائش سے پہلے ہی عرب نیٹو کی موت
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: صہیونی ذرائع ابلاغ ان وجوہات کی بنا پر جن کا تعلق اس غاصب اسرائیلی ریاست کے وجود سے ہے، جوبائڈن کے دورہ مشرق وسطی سے توقعات بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان توقعات میں سر فہرست امریکی سرکردگی میں عربی-اسرائیلی نیٹو کا قیام ہے۔
ناکام صہیونی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ سے لے کر وزیر جنگ بینی گانٹس اور وزیر خارجہ ئاییر لاپیڈ تک، جہاں تک ممکن ہو امریکہ کی قیادت میں عربی- اسرائیلی اتحاد کے قیام کے بارے میں بولتے رہتے ہیں؛ ایسا اتحاد جس کو سعودی دورے کے وقت صدر جوبائڈن کی آخری تائید کی ضرورت ہے۔
صہیونی ریاست کے عمائدین سعودی عرب، امارات، قطر، بحرین، کویت، سلطنت عمان، مراکش، اردن اور عراق کا نام لے کر دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ممالک اسرائیل کے ساتھ اتحاد میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور اس طرح سے دکھاوا کرتے ہیں کہ “صہیونی ریاست ان عرب ممالک کی خاطر ایران کے خلاف لڑنے کے لئے تیار ہیں”۔
جعلی اسرائیلی ریاست عرصے سے اس کھوکھلے تصور کو فروغ دے رہی ہے کہ ایران خلیج فارس کے عربوں اور اسرائیل کے لئے مشترکہ خطرہ ہے اور یہی مشترکہ خطرہ ہے جو اسرائیل اور عرب ممالک کو ایران کے خلاف متحدہ کرتا ہے!
صہیونی دعوے تو کرتے ہیں لیکن ایک حقیقت کو چھپا رہے ہیں؛ اور وہ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ایران کا ایک پڑوسی ملک یا دو پڑوسی ممالک کے ساتھ اختلاف ایک فطری امر ہے لیکن یہ اختلاف اس اختلاف کی طرح بنیادی، ضروری، جوہری اور ذاتی نہیں ہے جو ایران اور دہشت گرد، غاصب اور نسل پرست، جعلی اور بےبنیاد اسرائیلی ریاست کے درمیان پایا جاتا ہے؛ ایسی ریاست جس نے مسلمانوں کے قبلۂ اول اور فلسطینیوں کے وطن کو غصب کرلیا ہے اور وہاں کے مسلم عوام کو بے گھر کرکے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا ہے اور شب و روز قدس شریف کو یہودیانے اور مسجد الاقصیٰ کو شہید کرکے اپنے موہوم اور خیالی ہیکل کی تعمیر کے لئے کوشاں ہے اور اس نے خطے کی سلامتی اور امن و امان کو خطرے میں ڈالا ہؤا ہے اور مسلم اقوام کو ایک دوسرے کے خلاف لڑانے کی سازشوں میں مصروف ہے اور اپنی بقاء کی خاطر خطے کی اقوام کو نیست و نابود کرنا چاہتی ہے۔ اور یہ ساری سازشیں صرف ایران کے خلاف نہیں بلکہ امت مسلمہ کے خلاف ہیں جبکہ خطے کی عرب اقوام بھی مسلم امہ کا حصہ ہیں اور فلسطین ان کے لئے بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ ایران کے لئے۔ اور پھر ایران اور ان عرب ممالک و اقوام کے مقدرات بھی ایک جیسے ہیں اور اختلاف بھی ان حکومتوں کی طرف سے ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کے دھوکے میں آکر ایران قبلہ اول کے غاصب کو اپنا دوست اور ایران کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں جبکہ ایران نے آج تک انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے۔
اور ہاں تو عربی نیٹو کے بارے میں صہیونی حکمرانوں کا شور و غل سن کر ٹرمپ کے زمانے میں صدی کے سودے (the deal of the century) (یا صائب عریقات کے بقول the fraud of the century) کے بارے میں بھی سنائی دیتا رہا تھا، ایسا سودا جس نے مردہ جنم لیا تھا اور یقینا عربی-اسرائیلی نیٹو کا انجام بھی اس سے بہت نہیں ہو سکتا۔
مبصرین کے مطابق عرب-اسرائیلی نیٹو کا تصور تک بھی ہر اس شخص کے لئے ممکن ہی نہیں ہے جو خطے کی اقوام اور ان کی ثقافت اور ان کے باہمی رشتوں سے واقفیت رکھتا ہو اور ساتھ ساتھ اسرائیل اور فلسطینی قوم کے بارے میں اس خطے کی اقوام کی رائے و نظر کو بھی جانتا ہو۔ خطے کی ان اقوام نے بالواسطہ طور یمن کے خلاف سعودی اتحاد سے جا ملنے کے اپنی حکومتوں کے فیصلے کی مخالفت کی ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے پڑوسی مسلم ملک ایران کے خلاف عربوں، مسلمانوں اور انسانیت کے صہیونی دشمن کے ساتھ اتحاد کو قبول کریں؟
علاوہ ازیں یہ تمام عرب ممالک ایران کے ساتھ سماجی دینی، تہذيبی و ثقافتی اور معاشی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں اور ان میں سے اکثر ممالک کے ایران کے ساتھ فوجی اور سیکورٹی شعبوں میں گہرے روابط ہیں؛ اور پھر ان ممالک میں بعض کے باہمی اختلافات ایران کے ساتھ اختلافات سے کہیں زیادہ شدید اور مخاصمانہ ہیں! عرصہ ہؤا کہ ایران اور سعودیہ کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ چل رہا ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ یہ مذاکرات اچھے نتائج پر پہنچیں گے۔
متحدہ عرب امارات نے بھی ایران کے ساتھ کئی اقتصادی معاہدوں پر دستخط کئے ہیں اور حال ہی میں دو طرفہ تجارتی تبادلوں میں اضافہ ہؤا ہے۔ یہاں تک کہ گذشتہ سال ایران اور امارات کے درمیان تجارت کا حجم 20 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔
ادھر جب سعودی عرب، امارات اور بحرین نے قطر کو تین اطراف سے گھیر لیا اور اپنی فضائی حدود میں قطر کے طیاروں کی پرواز تک پر پابندی لگائی تو ایران نے اس کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کیں اور آج ایران اور قطر کے درمیان کے درمیان برادرانہ سیاسی اور معاشی روابط قائم ہیں اور یہی نہیں بلکہ ایران اور قطر خلیج فارس میں “جنوبی پارس گیس فیلڈ” میں شراکت دار ہیں اور ایک ہی فیلڈ سے گیس نکال رہے ہیں۔
سلطنت عمان خلیج فارس میں ایران کا سب سے زیادہ قریبی دوست ملک ہے اور بہت سے مسائل میں ایران اور مغرب کے درمیان ثالثی کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔
کویت اصولی طور پر صہیونی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا اور اس کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کی بحالی کا سخت مخالف ہے اور اس کی پارلیمان نے اسرائیلی ریاست کے ساتھ دوستی کے بارے میں بات تک کرنے کو جرم قرار دیا ہے، اور دوسری طرف سے اس کے ایران کے ساتھ تمام شعبوں میں وسیع تعلقات قائم ہیں۔
عراق کے ساتھ ایران کی دوستی تشریح و بیان کی محتاج نہیں ہے، اور اسرائیلی ریاست کے بارے میں اس ملک کا موقف بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ عراقی قوم، حکومت، سیاسی جماعتیں، فوج اور تحریک مقاومت کی رکن سیاسی جماعتیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے خلاف ہیں، اس ملک کی پارلیمان نے اسرائیل کے لئے نرم گوشہ رکھنے اور اسرائیل موافق موقف اختیار کرنے کو جرم قرار دیا ہے اور جو اس قانون کی خلاف ورزی کرے اس کے لئے پھانسی کی سزا قرار دی ہے۔ علاوہ ازیں یہ دو برادر مسلم ممالک ہیں اور تاریخ بھی اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ دو ملکوں کے درمیان بھائی کی بہت پرانی تاریخ ہے اور ایران نے ہی امریکہ اور اسرائیل اور نیٹو کی حمایت یافتہ دہشت گرد تکفیری ٹولوں کے خلاف کامیاب جہاد میں عراق کا ساتھ دیا ہے۔
تین ممالک اردن، مصر اور مراکش ہیں جن کے ساتھ ایران کے دیرینہ تعلقات رہے ہیں اور اس بات کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ ممالک – جو جغرافیائی لحاظ سے ایران کے پڑوسی نہیں ہیں – ایران کے خلاف بننے والے کسی اتحاد کا حصہ بننا چاہیں۔ چنانچہ حالات و واقعات، تاریخی حقائق، مذہبی اور دینی تقاضے اور عقل و منطق کی رو سے اس طرح کا کوئی اتحاد بننا ممکن نہیں اور آخر کار اس اتحاد میں اسرائیل ہی باقی رہے گا جو پہلے ہی امریکہ کے طیارہ بردار جہاز کا لقب جیت چکا ہے چنانچہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ایک مضحکے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اسرائیل البتہ پھر اپنی دائمی یہودی روایت کے مطابق ڈھیٹ پن کا ثبوت دیتے ہوئے – صدی ڈیل کی طرح – دوسرے ممالک کے اپنی صفوں میں آنے پر مجبور کرنے کی کوشش جاری رکھے گا!
بعید از قیاس ہے کہ قبلۂ اول کی غاصب ریاست اس حقیقت سے واقفیت نہ رکھتی ہو، چنانچہ اس نے اپنی توقعات کو کسی حد تک گھٹا لیا ہے؛ جیسا کہ بینی گانٹس نے عربی نیٹو کی آرزو سے پسپا ہو کر کہا ہے کہ “ہمارا مقصد امریکہ کی سرکردگی میں مشرق وسطیٰ میں فضائی دفاعی اتحاد قائم کرنا ہے اور ہماری خواہش ہے کہ یہ اتحاد بائڈن کے علاقائی دورے سے مضبوط ہوجائے”۔
واضح رہے کہ صہیونی ریاست کا وجود امریکی امداد اور توجہ سے وابستہ ہے جبکہ امریکہ اب اس خطے سے منہ موڑ کر اپنے تزویراتی وسائل چین کا مقابلہ کرنے کے لئے مشرقی ایشیا منتقل کر رہا ہے چنانچہ صہیونی حکام کی مسلسل کوشش ہے کہ امریکہ اس کے کسی بھی منصوبے سے باہر نہ ہو اور عربی-اسرائیلی نیٹو کا نعرہ بھی اسی صہیونی خدشے کا تسلسل ہے لیکن امریکی ترجیحات بدل چکی ہیں اور جو کچھ ہونا ہے، اسے ہو کر رہنا ہے۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ گانٹس نے فضائی دفاعی اتحاد کے سپنے کا ذکر کرتے ہوئے اپنے شریک کار کے طور پر کسی بھی عرب ملک کا نام نہیں لیا ہے۔ اور دوسری طرف سے بعض عرب ممالک نے گانٹس کے ان خیالات پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
جوبائڈن عرب ریاستوں کو کچھ ہتھیار بیچ کر اور انہیں تیل کی پیداوار بڑھانے پر آمادہ کرکے، واپس واشنگٹن کی طرف پرواز کر جائیں گے اور اس میں شک نہیں ہے کہ غاصب یہودی ریاست کے زعماء بائڈن کے دورے کے بعد عرب ممالک کے ساتھ طویل المدتی اتحاد کی حسرت دل میں لیے رہیں گے، انہیں ایک بار پھر مایوسی کے سوا کچھ نہ ملے گا اور انہیں اپنی تباہ کاریوں سے بھری تاریخ کی آٹھویں دہائی کے آخر میں اپنا زوال پہلے سے زیادہ واضح نظر آئے گا۔ کیونکہ اس طرح کا کوئی بھی اتحاد عقل و منطق کے تقاضوں سے متصادم ہے۔
یہ قبول کرنا بہت مشکل ہے کہ ایک عرب ریاست – خواہ وہ امریکہ کے حلقہ بگوش اور جی حضوری ہی کیوں نہ ہوں – بدنامی کے اس بدنما دھبے کو اپنے ماتھے پر قبول کرے کہ پلید ترین ریاست یعنی قدس شریف اور مسلمین کے قبلہ اول کی غاصب اسرائیلی دشمن کا ساتھ دے کر ایک مسلم پڑوسی ملک کے خلاف اس کے ساتھ کسی اتحاد کا حصہ بنے، تاہم فرض کرتے ہیں کہ اگر ایسا ہؤا اور کوئی عرب ملک عقل و منطق کے تقاضوں کو نظرانداز اور اسلام اور قرآن کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرے، تو یقینا عقل و منطق کے تقاضوں کے عین مطابق اسے طاقت کی منطق کا سامنا کرنا پڑے گا، چنانچہ منطق کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ عرب ممالک اس طرح کی صورت حال سے بچنے کے لئے بھی اس طرح کے کسی ذلت آمیز اتحاد کا حصہ نہ بنیں؛ کیونکہ یہ ایسا سنجیدہ مسئلہ ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران طاقت کی منطق کو دو خونخوار درندوں – امریکہ اور اسرائیل – پر مسلط کر چکا ہے اور انہیں مایوسی سے دوچار کرکے خطے میں بے شمار معاندانہ اقدامات سے پسپائی پر مجبور کر چکا ہے؛ اور ہاں! اس میں بھی شک نہیں ہے کہ عرب ممالک کے ساتھ اتحاد کے قیام کے سلسلے میں امریکی اور صہیونی حکام کا شور و غل بھی اسی مایوسی اور ناامیدی کی بڑی علامت ہے؛ اور یقینا وہ جو کچھ مستقبل میں دیکھیں گے، وہ اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: ڈاکٹر سعد اللہ زارعی، علامہ طباطبائی یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر اور بین الاقوامی امور کے تجزیہ نگار
تبصرہ کریں