پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مصالحانہ قرار دادیں
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت قوموں کے انکار اور انکے داخلی طور پر متزلزل ہونے پر استوار نہیں ہے بلکہ اسلام کے ایک جہانی دین ہونے کے باوجود، قبائل، اقوام اور دیگر ادیان کا وجود، ہمیشہ تسلیم کیا گیا ہے خواہ وہ اسلامی حدود میں ہو ںیا اسکے باہر۔
اس امر کے دلایل میں ایک وہ بہت سارے عہد نامے اور پیمان نامے ہیں جن پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حکومت کے دوران اور آپکی وفات کے بعد مختلف اقوام نے دستخط کیے ہیں ، تمام موارد میں جب تک غیر مسلم اقوام اپنے عہد پر وفادار رہی ہیں اسلامی حکومت نے بھی صلحنامہ کے عہد کو نہیں توڑا ہے
اس لئے کہ عہد و پیمان کو توڑنا اسلام کی نظر میں ایک بڑا اور نا قابل بخشش جرم ہے[1]
اسلام نے صلح آمیز زندگی اور مخلتف اقوام کے درمیان صلح و سلامتی برقرار کرنے اور نفرت آمیز روابط و خونین جھڑپوں سے بچنے کی خاطر نہ صر ف بین الاقوامی معاہدوں کو از حد محترم قانونی حیثیت بخشی ہے بلکہ دیگر قوموں اور گروہوں کو بھی صلح کے معاہدوں پر دستخط کی دعوت دی ہے اور اسلامی معاشرے کو ہمیشہ صلح کی راہ میں پیش قدم رہنے کی تلقین کی ہے ، اسلام کی نظر میں صلح کے معاہدوںکی اہمیت اور انہیں قبول کرنے کی تاکید اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب غیر مسلم حکومتوں اور گروہوںکی جانب سے صلح کی قرارداد کے سلسلہ میں رغبت نظر آئے ۔[2]
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صلح و باہمی تعاون کی قرار دادوں کے انعقاد کے سلسلہ میں بہت مایل وکوشاں رہتے تھے حتی بعثت سے قبل قبایل کے مابین عدل و انصاف پر مبتنی معاہدوں پر تاکید کرتے اور بارہا فرماتے تھے [3]
” دور جاہلیت میں عبدا للہ بن جدعان، کے گھر میں مظلومو ںکی حمایت کے سلسلہ میں قبایل عرب کے نمایندوں کے درمیان مشترکہ معاہدہ کا گواہ تھا اور قلبی طور پر اس معاہدہ سے اتنا جڑا ہوا تھا کہ اس بات کے لئے راضی نہ تھا کہ قیمتی اونٹوں کا مالک بنوں ، اگر آج اسلام کے دور میں مجھے اس طرح کے کسی معاہدہ کی دعوت دی جائے تو فورا اسے قبول کر لوں گا
اسی طرح آپ نے بعد کے دنوں میں مسلمانوں کے روم کے ساتھ کئے گئے معاہدہ کی پیشین گوئی کرتے ہوئے خبر دی تھی :
” رومی تم سے امن و سلامتی کے ساتھ صلح کریں گے [4] ”
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ میں اور بھی بہت سے دیگر معاہدے اور مصالحتی تعاون کے نمونے نظر آتے ہیں کہ جنکا جائزہ اور مکمل تجزیہ چند کتابوںکا متقاضی ہے . جن میں سب سے اہم معاہدوں کے طور پر” منشور مدینہ ” صلح حدیبیہ ، عیسائیوں کے ساتھ معاہدہ ایلا اور سرزمین سینا کے ساتھ عہد و پیمان کے ناموں کو ذکر کیا جا سکتا ہے ۔
منشور مدینہ خود اپنے آپ میںمسلمانوں ،یہودیوں اور مشرکین کے درمیان تمام مسائل میں منعقد ہونے والادفاعی معاہدہ ہے ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کفار قریش کے ساتھ صلح آمیز برتاؤ:
مکہ کی سرزمین ، شرک و و مشرکین کا مرکز تھی ، ایسے تاریک مرکز میں اسلام کا سورج طلوع ہوا لہذا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی سب سے پہلی دعوت کا آغاز مشرکین مکہ سے کیا ، یہ دعوت توحید اور معاد کے محور پر تھی جس میں منطقی دلایل اور تلاوت قرآن کریم کے ذریعہ مشرکین کی روح و جان کو مخالط قرار دیا گیا تھا اور ان سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ عقل و فکر کو بروئے کار لائیں اور خود کو جاہلی اوہام و خرافات کی زنجیروں سے آزاد کریں ۔
اسکے بالمقابل ، مشرکین نے حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیرو کاروں اور خود آپکی شان مبارک میں گستاخیاں کی اور انہیں اذیتیں دیں ؛ جناب عمار کی والدہ گرامی جناب سمیہ ابوجہل کے نیزہ سے درجہ شہادت پر فائز ہوئیں ، آپکے والد گرامی جناب یاسر بھی مکہ میں شہید ہوئے ، بلال حبشی امیہ بن خلف کے ذریعہ سخت گرمی اور کڑی دھوپ میں نشانہ ظلم بنے ، کچھ دن گزر جانے کے بعد کچھ مسلمان حبشہ کی جانب ہجرت کر گئے ؛ لیکن وہاں بھی مشرکین قریش کے ظلم و ستم سے امان میں نہ رہ سکے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی کچھ مدت تک شہر طائف میں مقیم رہے ، اقتصادی اور سیاسی محاصرہ اپنی شدت کی انتہا کو جاپہچا ،حتی چالیس لوگوں نے مل کرحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شہید کر دینے کی غرض سے آپ کے بیت الشرف پر حملہ کر دیالیکن انجام کار پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رات و رات اپنی سر زمین کو چھوڑ دیا اور یثرب کی طرف ہجرت کر گئے ؛ کعبہ اور اپنی جائے پیدائش سے آپکی دوری اگرچہ بہت ناگوار تھی لیکن خدا وند متعال نے آپ سے وعدہ کیا کہ دوبارہ آپ کو مکہ پلٹائے گا ۔
مشرکین قریش نے صرف اتنے پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ ان کی حرکتوں کا دوسرا رخ یہ تھا کہ انہوں نے اسلام کی نابودی کی غرض سے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مخلتف جنگیں لڑیں جن میں سب سے اہم ، بدر ، احد اور خندق کی جنگیں تھیں ، وہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہ جنکی منطق انسان دوستی اور دوسروں سے کئے گئے معاہدوںکے حترام اور رواداری پر مبتنی تھی ” صلح حدیبیہ” کے موقع پر اس بات کو بھی قبول کرنے کے لئے تیار ہو گئے کہ اپنے جائز حقوق کو نظر انداز کر دیں تاکہ ایام حج میں صلح و سلامتی کی سازگار فضاقائم ہو سکے ، لیکن آپکی جانب سے کیاگیا یہ معاہدہ بھی بعد میں مشرکین کی جانب سے توڑ دیا گیا ، کون اس بات کو بھول کسکتا ہے کہ جب مسلمانوں کے دس ہزار پر مشتمل لشکر نے بغیر کسی خون خرابہ کے شہر مکہ کو فتح کر لیا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ساتھی سعد نے یہ تشدد آمیز نعرہ بلند کیا:
الیوم یوم الملحمة! الیوم تستحل الحرمة !الیوم اذل اللہ قریشا !” آج خونین مڈبھیڑ کا دن ہے آج حرمتیں پارہ ہو جائیں گی ، آج خدا وند قریش کو ذلیل و رسوا کرے گا !
لیکن پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس انتقامی کاروائی کے نعرہ پر خط بطلان کھنچتے ہوئے فرمایا: ” الیوم یوم المرحمة، الیوم اعز اللہ قریشاً” یعنی آج کا دن رحمت اور محبت سے پیش آنے کا ہے آج وہ دن ہے کہ خدا نے جس دن قریش کو عزت بخشی ہے ۔
اسکے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کعبہ کے نزدیک آئے ، قریش اس انتظار میں تھے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اب کون سا نیا حکم انکے بارے میں صادر کرتے ہیں ؛ لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کہہ کر ” انتم الطلقاء ” تم سب آزاد ہو سبھی کو معاف کر دیا ، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی عمل نے مشرکین کے دلوںمیں ایک طوفان بپا کر دیا اور پھر جوق در جوق سب اسلام قبول کرنے لگے یوں قریش نے دل و جان سے آئین محمدی کو قبول کر لیا ۔[5]
۔ یہودیوں کے ساتھ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا صلح آمیز رویہ :
یہودیوں کے معروف قبائل ” بنی قریظہ ” ”بنی قینقاع” اور ”بنی نظیر” تھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ ہجرت کے بعد امن و سکون قائم ہونے کے لئے اوس و خزرج اور یہودی کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ دفاعی معاہدہ کیا ،اس معاہدہ کے بموجب یہودیوں کے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ مسلمانوں کے خلاف کوئی تخریبی کاروائی نہ کریں اور مدینہ کی سرحدوں کے دفاع میں شریک ہوں .یہود آزادی کے ساتھ اپنے معاملات کو انجام دیتے تھے اور اپنا مال مسلمانوں کے بازار میں فروخت کرتے تھے ، لوگوں کے درمیان اسلام کے پھیلائو نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بعض یہودی اور منافقین کے جذبات کو بھڑکا دیا اور وہ اس مسئلہ کو لیکر حساس ہو گئے ؛ علماء یہود میں عبد اللہ بن سلام جیسی شخصیت نے اسلام قبول کر لیا اور کچھ عرصہ کے بعد مخیریق نامی شخص بھی مسلمانوں کی صف میں آ گیا ۔
ان شخصیتوں کے اسلام لانے کی خبر نے یہودی قبائل میں غم و غصہ کی ایک لہر پیدا کر دی ؛ اور پھر آہستہ آہستہ یہودیوں کا مسلمانوں کے ساتھ تعاون ماند پڑتا گیا اور بات یہاں تک پہچی کہ انہوں نے مسلمانوں سے کیے گئے وعدہ کو توڑ دیا .
یہودی علاوہ از ایں کہ تجارت ، خرید و فروخت اور دیگر اجتماعی امور کی انجام دہی میں آزاد تھے ، اپنے مذہبی امور کو بھی بلا روک ٹوک انجام دیتے تھے . پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کا پیغام تمام لوگوںمن جملہ یہودیوں تک بھی پہچا یاتھا لیکن کبھی بھی انہیں اپنے دین اور عقائد کو ترک کرنے کے لئے مجبور نہ کیا ۔
مثال کے طور پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمروبن حزم کو یمن بھیجتے ہوئے اپنے ایک حکم میں نصیحت کرتے ہیں : ” ہر یہودی یا نصرانی جو مسلمان ہو جائے اور اسلام کا اظہار کرے ، وہ مومنین میں شامل ہے ، اس لئے جو حقوق مسلمانوں کے ہیں وہی نو مسلم کے بھی ہوں گے اور نفع و ضرر میں دیگر مسلمانوں کے ساتھ شریک ہے اور جو اپنی یہودیت یا نصرانیت پر باقی رہنا چاہے ،ہرگز اپنے دین کو چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا [6]
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہودیوں کی ایذا رسانیوں کے مقابل صبر سے کام لیتے تھے اور انکے نفاق کو نظر میں نہیں لاتے تھے انہیں مسلمانوں کے برابر سمجھتے تھے اور انکے مذہبی رسوم و آداب کو محترم سمجھتے تھے ،اگر کوئی یہودی معاہدے کے خلاف عمل کرتا تھا تو صرف اسی کو سزا دیتے تھے اسکا گناہ دوسروں کے سر نہیں ڈالتے تھے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقدس اہداف تک پہچنے کے لئے عملی زندگی میں ہمیشہ گفتگو اور جدال احسن سے کام لیتے تھے اور کبھی بھی دیگر ادیان کے ماننے والوں کو ملحد وکافر نہیں کہتے تھے اس کے برخلاف یہودی اشتعال انگیز جنگ بھڑکانے والے کام کرتے تھے تاکہ اسلام کی پیشرفت کو روک سکیں ۔
من جملہ مسلمانوں کے عقائد کو کمزور بنانے کے علاوہ انکے درمیان اختلاف پیدا کرتے تھے ، یہودیوں نے ہی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کی سازش رچی اور سی طرح دیگر نیرنگیں چالیں چلیں ، مجبور ہر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے ساتھ جنگ کی اور انہیں مدینہ کے اطراف سے باہر کھدیڑ دیا ۔
عیسائیوں کے ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا صلح آمیز رویہ :
قرآن کریم عیسائیوں کے موقف کو نرم اور لچک دار رویہ کے طور پر پیش کرتا ہے جبکہ مسلمانوں کے ساتھ مشرکین اور یہودیوں کا طرز سلوک تشدد آمیز تھا جسکی طرف ہم نے اس سے پیشتر اشارہ کیا ۔ اسلام کی اور حضورسرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی نرمی تھی جس کی بنیاد پر جزیرة العرب اور دیگر علاقوں کے عیسائی اسلام کے شیفتہ ہو گئے اور صمیم قلب سے اسلام کو قبول کر لیا باقی ماندہ عیسائی لوگوں کو کبھی اپنے عقیدہ کو چھوڑنے اور اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں مجبور نہیں کیا گیا یوں عیسائیوں او رمسلمانوں کے ساتھ صلح آمیز زندگی کا واضح نمونہ سامنے آیا ؛ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ اور اآپکی وفات کے بعد تک عیسائیوں کو مسلمانوں کی حمایت حاصل رہی اور عیسائیوں سے کیے گئے معاہدہ کی بنیاد پر مسلمانوں نے انکے حقوق و مفادات کا پاس و لحاظ رکھا ، صرف خلیفہ دوم کے زمانہ میں اسلامی سر زمینوں میں خواتین ، بچوں اور بوڑھوں کو چھوڑ کر پانچ لاکھ عیسائی زندگی گزارتے تھے اور مصر میں ایک کروڑ پچاس لاکھ عیسائی چین و سکون کے ساتھ مسلمانوں کی حکومت میں زندگی گزار رہے تھے ۔
نجران کے عیسائیوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساتھ صلح نامہ پر دستخط کیے صلح نامہ کے ایک حصہ میں یہ بات آئی ہے :
” نجران اور اسکے اطراف کے عیسائی لوگ خدا وند متعال کے زیرسایہ اور محمد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذمہ داری پر ہیں کہ انکا مال ، جان ،دین حاضر اور غایب افراد ، انکے گھر والے ، انکی تجارت ، اور وہ تمام چیزیں جو کم و زیادہ ان کے پاس ہیں سب کے سب محفوظ رہیں ، ان کا کوئی بھی پادری یا راہب و کاہن اپنے مقام سے عزل نہیں ہوگا اور نہ ہی انکی توہین کی جائے گی ”[7]
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں ہم نے صلح آمیز زندگی کے ان نمونوں کو نہیں پاتے بلکہ یہی رسول رحمت کی نرم خوئی اور یہی لچکدار رویہ انکے جانشینوں کے یہاں بھی دیکھنے کو ملتا ہے چنانچہ تاریخ میں وافر ایسے نمونے مل جائیں گے جہاں غیر مذہبی گروہ جیسے ملحدین ، مشرکین ، اور دہریہ اور دیگر اہل کتاب کے گروہ امام صادق ع و دیگر ائمہ طاہرین علیھم السلام سے آکر گفتگو کرتے تھے جبکہ ائمہ طاہرین علیھم السلام ان تمام ہی افراد سے حلم و بردباری کے ساتھ پیش آتے انکے دلایل اور انکی باتوں کو سنجیدگی سے صبر و تحمل کے ساتھ بغور سنتے اور انہیں کے دلایل کو انہیں کے دعووں کے بطلان کے لیے استعمال کرتے ہوئے اسلامی عقائد کو ثابت کرتے تھے ، اس طرح آخر انجام اپنے مخاطب کو تسلیم ہونے پر مجبور کر دیتے اور بات یہاں تک پہچتی کہ خود ان شخصیتوں سے سے گفتگو کرنے والے انکی تعریف وستایش کرتے ہوئے اٹھتے تھے خاص کر اس چیز کو امام صادق علیہ السلام کے دور میں کثرت کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے [8]
حاصل گفتگو:
ہم نے اب تک حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عملی زندگی سےآپ کے غیر مسلموں کے ساتھ طرز سلوک کے نمونوں کچھ نمونوں کو پیش کیا جن سے واضح ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ حضور سرورکائنا ت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا رویہ کیا تھا ، ہمیں کسی ایک مقام پر کوئی ایسا نمونہ نہ مل سکا جہاں حضور ص نے کسی غیر مسلم سے محض اس لئے کہ وہ توحید پر اعتقاد نہیں رکھتا روکھے انداز میں گفتگو کی ہو یا اسے جھڑکا ہو یا ذلیل کیا ہو ، یہی وجہ ہے کہ بعد کے آنے والے مفکرین و دانشور حضرات نے بھی اس بات کو بیان کیا کہ دیگر ادیان کے ساتھ جو نرم رویہ اسلام کا رہا ہے وہ کسی اور دین میں دیکھنے کو نہیں ملتا ہے ۔
اسکا مطلب ہے جو کچھ بھی اسلام و پیغام اسلام کو لانے والے پیغمبر ص کے سلسلہ سے بے ہنگم باتیں پھیلائی جا رہی ہیں وہ سب کے سب ایک خاص شیطانی حربے کے تحت ہو رہی ہیں ، مسلمانوں کو اس سلسلہ سے زیادہ زیادہ سیرت نبی رحمت ص کے اہم گوشوں کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جھوٹوں کا وہ تھوک انہیں کے چہرے پر آئے جو وہ سورج کی طرف اچھالنا چاہتے ہیں ۔
[1] ۔ آل عمران ١٥٩؛ انبیاء ١٠٧،شعرا٣ احزاب٢١.
[2] ۔ رک: علی الاحمدیالمیانجی، مکاتیب الرسول صل اللہ علیہ و آلہ وسلم ، چاپ بیروت ؛ محمد حمید اللہ حیدرآبادی، الوثائق السیاسیہ
[3] ۔ علی الاحمدی المیانجی، گزشتہ ،جلد ١، ص ١٠٠ ؛ جعفر سبحانی، فروغ ابدیت، ج٢، ص ٢١٤.
[4] ۔٥٤۔ ر.ک ارشاد الساری فی شرح صحیح البخاری ، جلد ٥ ، ص ٢٣٢؛ ” ان سیصالحکم الروم صلحا امنا”
[5] ۔ ، تاریخچہ سیاسی ۔ اقتصادی صدر اسلام ، ص ١٥٤۔١٥٢؛ ابن ہشام ، سیرة رسول اللہ ،(ص) جلد ٢، ص ٨١١ و ٩٧٤، عباس علی عمید زنجانی ، حقوق اقلیت ہا ، ص ٧٨۔٧٦.
[6] ۔ اسلام و ہمزیستی مسالمت آمیز، گزشتہ ، ص ٩٤۔٨٣.
[7] ۔ مجموعة الوثاق ، ص ١٧٢. نقل از سید محمد ثقفی ، ساختار اجتماعی و سیاسی نخستین حکومت اسلامی ، ص ٢٦٩.
[8] ۔ (شیخ عباس قمی ، منتہی الآمال ، ہجرت ، قم ، ج،٢ ص ٢٤٠؛ محمد رضاابویی مھریزی، سیرہ تبلیغی امام صادق علیہ السلام ، پایان نامہ کارشاناسی ارشد ( ایم ۔اے تھیسس) ص ١٦٩.)
تبصرہ کریں