پیغمبر اکرم (ص) کا روادارانہ انداز اور نرم رویہ
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: بعض لوگ رواداری کو Tolerance کے طور پر پیش کرتے ہیں جو ایک طرح سے ایسی لچک ہے جس میں حق پر ہوتے ہوئے بھی انسان سمجھوتہ کرتا ہے جبکہ رواداری دین کی نظر میں ایک لچک دار رویہ تو ہے لیکن حق کے معاملہ میں یہاں کوئی سمجھوتہ نہیں ہے اور اگر کہیں پر حق سے چشم پوشی کی جا رہی ہے تو اسلام اسے قبول نہیں کرتا ہے [1]، البتہ اسکا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اپنے علاوہ دوسروں کے عقیدے کی کوئی حیثیت نہ ہو یہاں پر دوسروں کا عقیدہ اس لئے محترم ہے کہ عقیدہ کا حامل فرد ایک انسان ہے اور ہمارے ساتھ اٹھ بیٹھ رہا ہے ورنہ اگر وہ مشرک ہے تو اس کے اس عقیدے سے ہم اظہار بیزاری کرتے ہیں اگر اسکے ساتھ لچک دار رویہ ہے تو یہ اسکے جذبات کی بنیاد پر ہے اسکے ذاتی وجود کی وجہ سے ہے شرک تو ہماری نظر میں کسی بھی اعتبار سے قابل قبول نہیں ہے اس لئے رواداری کا مطلب سماجی زندگی میں دوسروں کے نظریات کا ذاتی طور پر مقدس ہونا نہیں ہے بلکہ انسانیت کے ناطے رواداری کے ساتھ پیش آنا ہے[2] حضور ص خود بھی نرم رویہ رکھتے تھے اور آپ نے اپنی امت سے بھی یہی مطالبہ کیا یہی وجہ ہے کہ دشمنوں کے تمام منفی پروپیگنڈوں کے بر خلاف سچے مسلمان آج بھی نرم خود اور روادار ہوتے ہیں یہ وہ چیز ہے جسکا اعتراف دوسروں نے بھی کیا ہے۔
برٹرینڈ رَسَل [3]نے مسلمانوں کی رواداری کے سلسلہ سے باقاعدہ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرنے والے مسلمانوں کے درمیان جو راوادی پائی جاتی تھی اور جو نرم و لچکدار رویہ مسلمانوں کا تھا وہ دیگر ادیان والوں سے کہیں بہتر تھا جو کچھ برٹرینڈ رَسَل نے بیان کیا اسکا مفہوم یہ ہے :
“آج جن عادتوں کو ہم عیسائیوں کی بہترین عادتیں اور انکے بہترین اخلاق کے طور پر بیان کرتے ہیں جیسے رواداری و ایک دوسرے کے سلسلہ سے رعایت کرنا وغیرہ یہ وہ چیزیں ہیں جو مشرق میں مغرب سے زیادہ مستحسن سمجھی جاتی ہیں اور ان پر عمل مشرق میں مغرب سے زیادہ ہوا ہے خاص کر جب مدینہ میں اسلامی حکومت قائم ہوئی تو ان لوگوں کے ساتھ بھی مسلمانوں نے اچھا سلوک کیا جو کافر مانے جاتے تھے ،اور یہ طرز سلوک اس سے کہیں بہتر تھا جو بیزانس کے سلاطین نے عیسائیوں کے ساتھ روا رکھا اسلئے کہ محمد { ص} نے اپنے نظریے کے مخالف لوگوں کے لئے نہ تو عقائد کی تفتیش کا کوئی شعبہ قائم کیا تھا جہاں پتہ چل سکے کہ لوگوں کے نظریات کیا ہیں اور نہ ہی قرون وسطی کے کی ایسی کال کوٹھریاں انہوں نے بنوائی تھیں جن میں لوگوں کو مخالف عقیدہ رکھنے کی بنیا دپر ڈال دیا جائے “[4]
رسول نے جو کچھ لکھا ہے یقینا صد فیصد بجا ہے صرف رسول ہی نہیں اور بھی منصف دانشوروں اور مفکروں نے اسی سے ملتی جلتی باتیں بیان کی ہیں ۔
مثلا : گیسٹالیوبن کہتے ہیں : اگر عیسائی اقوام نے اپنے فاتحین یعنی عربوں کے دین کو قبول کر لیا حتی انکی زبان کو بھی اختیار کر لیا تو اسکی وجہ یہ ہے کہ عیسائیوں نے جدیدعرب حکام کو ان سلاطین سے زیاد ہ عادل پایا کہ جن کے ظلم و ستم کی چکی تلے یہ لوگ پس رہے تھے ”۔[5]
ایک اور جگہ کہتے ہیں : یہود و نصاری سے اسلام کی مذہبی رواداری کے رویہ کو دیگر مذاہب میں خال خال ہی دیکھا جا سکتا ہے [6]۔
بالکل صحیح طور پر ان لوگوں نے اپنا تجزیہ پیش کیا ہے اس لئے کہ حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیشہ اپنی زندگی میں لوگوں کے ساتھ نرمی و رواداری کے ساتھ ہی پیش آنے کی تاکید کی ہے [7] اور یہ اسلام کی وہ خاصیت ہے جسے دوسری جگہ مشکل سے تلاش کیا جا سکتا ہے اسلام دین عقل ہے اور دین کی نظر میں عقلمندی بھی یہی ہے کہ لوگوں سے ملنے جلنے میں اچھا و دلنشین انداز اختیار کیا جائے لوگوں کے دلوں میں گھر بنایا جائے انکی عزت کی جائے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں ۔
“سب سے زیادہ عقل مند انسان وہ ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ رواداری و درگزر سے کام لے اور ذلیل انسان وہ ہے جو لوگوں کی توہین کرے اور انہیں ذلیل کرے”[8].یہی وجہ ہے کہ سیرہ نویسوں نے اس بات کو بیان کیا ہے کہ حضور ص ایک نرم دل کے مالک اور تمام سب کے لئےمہربان تھے [9]آپ فرماتے تھے ،مہربانی و رحم دلی کسی چیز پر نہیں آئی مگر جہاں پہنچی اسکے لئے باعث زینت بنی [10] یا ایک مقام پر آپ نے فرمایا: مجھے شریعت سہلہ پر مبعوث کیا گیا ہے [11]
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طرز سلوک کو سمجھنے کے لئے اگر مجموعی طور پر ہم آپ کے مخالفوں کی تقسیم بندی کریں تو کہہ سکتے ہیں یہ تین طرح کے لوگ تھے [12]
۱۔ وہ لوگ جو خدا کے منکر تھے اورکفار و مشرکین میں شمار ہوتے پیغمبرص کا مذاق اڑاتے انکی توہین کرتے
۲۔ اهل کتاب (یهودی اور عیسائی ) جو کہ پیغمبر کے مخالف تھے اور دل میں دشمنی بھی رکھتے تھے اور شدید دشمن تھے جنکو قرآن نے بھی شدید دشمن کے طور پر پیش کیا ہے [13]۔
۳۔ ایسے منافق جو کہ بظاہر مسلمان تھے لیکن پیغمبر ص کے لئے فتنہ کرتے۔
پیغمبر ص کا طرز سلوک :
جہاں تک بت پرستوں و کفار کی بات ہے تو انکے ساتھ جتنا ہو سکا حضور نے رواداری و نرمی سے کام لیا اہل کتاب کے ساتھ بھی یہی رویہ رکھا کبھی ان سے گفتگو کی کبھی معاہدہ کیا تو کبھی پیمان توڑنے پر ان کے ساتھ سختی سے بھی پیش آئے لیکن زیادہ تر انکے ساتھ بھی کوشش کی بات نہ بگڑے اور معاملات آسانی سے نبٹ جائیں ـ [14]
حوالہ جات
[1] ۔۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : حسین عبدالمحمدی، تساهل و تسامح از دیدگاه قرآن و عترت، قم، ظفر، 1381، ص 15
[2] ۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : عبدالکریم سروش، مدارا و مدیریت، تهران، صراط، 1376، ص310
[3] ۔ برٹرینڈ رَسَل Bertrand Arthur William Russell) ایک معروف محقق، مورّخ، سائنسدان، ماہر ریاضیات، ماہر طبیعیات، مدرّس، فلسفی، مفکّر
[4] ۔ نوعی، مدارا با مخالفان در قرآن و سنّت، رشت، کتاب مبین، 1379، ص ۸۳
[5] ۔ گیسٹالی بان، تمدن اسلام و عرب ، ترجمہ ہاشم حسینی ، کتاب فروشی اسلامیہ ، تہران ، ١٣٤٧، ج٤، ص ١٤٨)
[6] ۔ ایضا
[7] ۔ غلامرضا نوعی، مدارا با مخالفان در قرآن و سنّت، رشت، کتاب مبین، 1379، ص98
[8] «اَعقلُ الناسِ اَشَدُّهم مداراهً لِلناسِ، وَ اَذلُّ الناسِ مَن اَهانَ النَّاسَ» شیخ عباس قمی، سفینهالبحار، ج 10، ص 441
[9] ۔ محمدباقر مجلسی، بحارالانوار، ج 74، ص 394 / دیلمی، ارشادالقلوب، ج 1، ص 115.
[10] ۔ محمد بن یعقوب کلینی، اصول کافی، چ چهارم، تهران، الاسلامیه، 1364، ج 2، ص119.
[11] ۔ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، مصر، مکتبهالخانجی، ج 7، ص209.
[12] ۔ مدارا با مخالفان در قرآن و سنّت، رشت، کتاب مبین، 1379 ص ۲۳۱
[13] ۔ لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَهً لِّلَّذِینَ آمَنُواْ الْیَهُودَ وَالَّذِینَ أَشْرَکُواْ.) مائده: 82
[14] ۔ ابن هشام، زندگانی محمد(ص) پیامبر اسلام، ترجمه سید هاشم رسولی، تهران، کتابچی، ج دوم، ص .198
تبصرہ کریں