چینی اسٹارٹ اپ نے امریکی اسٹاک مارکیٹ کو ہلا کر رکھ دیا!
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: امریکہ اور چین کے درمیان جاری چپ وار کے دوران، ایک چینی اسٹارٹ اپ نے امریکی اسٹاک مارکیٹ کو ایسا زبردست دھچکا دیا کہ امریکی اسٹاک مارکیٹ کو 1 ٹریلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ خبر اس وقت دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت (AI) کے شعبے میں سب سے زیادہ توجہ حاصل کر رہی ہے۔
دیپسیک (DeepSeek) نامی چینی AI ماڈل نے صرف ایک دن میں امریکی اسٹاک مارکیٹ کو تاریخی نقصان پہنچایا، امریکہ کی چِپ انڈسٹری کو شدید مشکلات میں ڈال دیا اور میٹا (Meta) کو چار الگ الگ “وار رومز” بنانے پر مجبور کر دیا تاکہ وہ اس کے اثرات سے نمٹ سکے۔
یہ چینی AI ماڈل اتنا مقبول ہوا کہ آئی فون صارفین میں یہ سب سے زیادہ انسٹال کیا جانے والا ایپ بن گیا، اور اس نے ChatGPT کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ یہ سب ایسے وقت میں ہوا جب امریکہ نے چین کو AI چپس کی فراہمی پر سخت پابندیاں لگا رکھی تھیں، تاکہ خود کو اس ٹیکنالوجی میں برتری دلوا سکے۔

دیپسیک کی خاصیت کیا ہے اور یہ AI کی دنیا میں اتنی ہلچل کیوں مچا رہا ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات اس رپورٹ میں دیے گئے ہیں۔
دیپسیک: چینی AI اسٹارٹ اپ جو دنیا کو ہلا رہا ہے
دیپسیک (DeepSeek)، جس کا اصل نام “ہانگژو دیپسیک آرٹیفیشل انٹیلیجنس” ہے، ایک چینی اسٹارٹ اپ ہے جو مصنوعی ذہانت (AI) کے میدان میں سرگرم ہے۔ اسے لیانگ وینفینگ (Liang Wenfeng) نے 2023 میں قائم کیا۔
دیپسیک کی ابتدا
لیانگ وینفینگ، جو 40 سالہ ہیں اور الیکٹرانکس کے شعبے میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں، ابتدا میں AI کے اسٹاک مارکیٹ میں کام کر رہے تھے۔ 2015 میں، انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر “ہائی-فلائر” (High-Flyer) نامی ایک وینچر کیپیٹل فنڈ قائم کیا، جو AI الگورتھمز کے ذریعے مالیاتی لین دین میں غیرمعمولی کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
اس تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، لیانگ نے 2023 میں دیپسیک کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد AI تحقیق اور ترقی میں نئی بلندیوں کو چھونا تھا۔ یہ کمپنی چین کے شہر ہانگژو میں واقع ہے اور اسے مکمل طور پر ہائی-فلائر کی مالی معاونت حاصل ہے۔
انقلاب انگیز AI ماڈل: آر-وان (R1)
جنوری 2025 (دی ماہ 1403) میں، دیپسیک نے اپنے جدید ترین AI ماڈل “آر-وان” (R1) کو متعارف کرایا۔ یہ ماڈل اعلیٰ درجے کی استدلالی صلاحیتیں رکھنے کے ساتھ ساتھ انتہائی کم لاگت پر تیار ہونے کی اہلیت رکھتا ہے، جس کی وجہ سے AI کی دنیا میں زلزلہ برپا ہو گیا۔
دیپسیک AI ماڈل کو منفرد بنانے والے عوامل
دیپسیک کا جدید AI ماڈل “آر-وان” (R1) اپنی اعلیٰ استدلالی اور منطقی صلاحیتوں کی وجہ سے دیگر ماڈلز سے منفرد ہے۔
یہ ماڈل خاص طور پر ریاضی کے پیچیدہ مسائل حل کرنے، پروگرامنگ اور منطقی استدلال جیسے کاموں میں شاندار کارکردگی دکھاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، اس کی کارکردگی اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی جیسے ماڈلز کے برابر سمجھی جا رہی ہے۔

لیکن فرق کہاں ہے؟
اوپن اے آئی نے اپنے AI ماڈلز کو اس سطح تک پہنچانے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے۔
دیپسیک نے صرف 6 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ وہی صلاحیتیں حاصل کر لیں!
یہی وہ چیز ہے جو چینی AI ماڈل کو منفرد بناتی ہے:
✔ کم لاگت میں اعلیٰ صلاحیت
✔ مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ایک نیا انقلاب
✔ بہترین استدلالی اور منطقی کارکردگی
یہ کم لاگت میں جدید ترین AI کی ترقی وہی پہلو ہے جس نے دیپسیک کو دنیا کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔
دیپسیک نے کم لاگت میں جدید AI ماڈل کیسے بنایا؟
دیپسیک نے کم قیمت میں جدید ترین AI ماڈل “آر-وان” تیار کرنے کے لیے روایتی طریقوں کے بجائے نئی حکمت عملیوں کو اپنایا۔
جدید ماڈلنگ تکنیک (MoE – Mixture of Experts)
دیپسیک نے “Mixture of Experts” (MoE) نامی ماڈلنگ تکنیک استعمال کی۔
اس میں صرف وہی حصے متحرک ہوتے ہیں جو کسی مخصوص ہدف کے لیے ضروری ہوں۔
اس سے کم توانائی اور کم کمپیوٹنگ پاور میں اعلیٰ کارکردگی ممکن ہوئی۔
مہنگے ہارڈویئر کے بجائے درمیانے درجے کی چپس
دیپسیک نے مہنگے ترین چپس کے بجائے H800 چپس استعمال کیے، جو نسبتاً پرانے اور سستے شمار ہوتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں اوپن اے آئی جیسے حریف A100 چپس اور DGX سسٹمز جیسے مہنگے ہارڈویئر استعمال کرتے ہیں۔
دیپسیک نے الگورتھم کی بہتر پروگرامنگ کے ذریعے کمزور ہارڈویئر سے بھی بہترین نتائج حاصل کیے۔

کم لاگت میں زیادہ طاقتور AI
زیادہ تر کمپنیاں اپنے ماڈلز کو ٹرین کرنے کے لیے مہنگے ترین سرورز اور GPUs پر انحصار کرتی ہیں۔
دیپسیک نے کم لاگت میں ماڈل کو ٹرین کرنے کے طریقے ڈھونڈے، جس سے امریکی چپ ساز کمپنیوں (جیسے NVIDIA) پر انحصار کم ہو گیا۔
امریکہ کی چپ پابندیاں اس وجہ سے بے اثر ہو گئیں، کیونکہ چینی ماڈلز سستے چپس پر بھی بہترین کام کر سکتے ہیں۔
امریکی اسٹاک مارکیٹ میں بھونچال
دیپسیک کی اس ٹیکنالوجی نے امریکی AI انڈسٹری میں ہلچل مچا دی۔
NVIDIA جیسے بڑے چپ سازوں کے شیئرز گر گئے، کیونکہ اب مہنگے چپس کی ضرورت کم ہو گئی ہے۔
دیپسیک نے ثابت کر دیا کہ AI ماڈلنگ کے لیے صرف مہنگے ہارڈویئر ہی نہیں بلکہ جدید حکمت عملی بھی ضروری ہے۔
انویدیا کی تاریخی گراوٹ؛ امریکی اسٹاک مارکیٹ میں بھاری تباہی:
دیپسیک کے R1 ماڈل کی لانچنگ نے عالمی ٹیکنالوجی مارکیٹ اور اسٹاک ایکسچینج پر زبردست اثر ڈالا۔

27 جنوری 2025 کو:
انویدیا کے شیئرز 17٪ گر گئے، جس سے اس کی مارکیٹ ویلیو میں 600 بلین ڈالر کی کمی واقع ہوئی۔
یہ اسٹاک مارکیٹ کی تاریخ میں سب سے بڑا ایک روزہ نقصان قرار دیا جا رہا ہے۔
امریکی اسٹاک مارکیٹ کو 1 ٹریلین ڈالر کا نقصان:
دیپسیک کے کم لاگت اور مؤثر AI ماڈل نے AI انڈسٹری میں نیا انقلاب برپا کر دیا۔
انویدیا، گوگل (الفابیٹ) اور مائیکروسافٹ جیسے بڑے ٹیکنالوجی ادارے اس گراوٹ سے متاثر ہوئے۔
کم لاگت میں AI ماڈلز بنانے کی ٹیکنالوجی نے سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کر دیا، جس کی وجہ سے AI سے متعلق کمپنیوں کے شیئرز گرنے لگے۔
سرمایہ کاروں کا ردعمل:
بڑے سرمایہ کار AI کمپنیوں کے شیئرز فروخت کر کے نئی سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔
اس پینک سیلنگ (panic selling) نے مزید اسٹاک کی قیمتوں میں کمی پیدا کر دی۔
نتیجہ:
دیپسیک کا R1 ماڈل نہ صرف AI انڈسٹری میں ایک بڑا بریک تھرو ثابت ہوا بلکہ امریکہ کی اسٹاک مارکیٹ میں بھی زلزلہ لے آیا۔
“میٹا” میں ریڈ الرٹ کا اعلان اور 4 وار رومز کا قیام
چینی AI ماڈل دیپسیک کی بے پناہ مقبولیت نے میٹا (Meta) – جو فیس بک، انسٹاگرام، اور واٹس ایپ کا مالک ہے – کو خطرے کا احساس دلایا، جس کے نتیجے میں کمپنی نے “ریڈ الرٹ” (Red Alert) جاری کرتے ہوئے 4 وار رومز (War Rooms) قائم کر دیے، تاکہ دیپسیک کے چیلنج کا تجزیہ اور مقابلہ کیا جا سکے۔
میٹا کی بڑھتی ہوئی تشویش
میٹا نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے اپنے AI ماڈل “LLaMA” کو تیار کیا۔
لیکن دیپسیک کی کم لاگت اور بہتر کارکردگی نے میٹا کی سرمایہ کاری کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
میتھیو اولڈھم (Matthew Oldham)، جو میٹا کے انفراسٹرکچر ڈائریکٹر ہیں، نے خدشہ ظاہر کیا کہ LLaMA کا اگلا ورژن، دیپسیک کے مقابلے میں کمزور پڑ سکتا ہے۔
اوپن سورس ماڈل: ڈویلپرز کے لیے سنہری موقع
دیپسیک کا AI چیٹ بوٹ مکمل طور پر فری ہے اور درج ذیل پلیٹ فارمز پر دستیاب ہے:
اینڈرائیڈ اور iOS ایپس
ڈیسک ٹاپ ویب سائٹس
تیسری پارٹی سروسز
صارفین جی میل اکاؤنٹ کے ذریعے جلدی رجسٹریشن کرکے اس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
دیپسیک نے اپنے AI ماڈلز کو “اوپن سورس” بنا دیا ہے، یعنی:
کوڈز عوامی سطح پر دستیاب ہیں۔
ڈویلپرز انہیں اپنی مرضی کے مطابق ترمیم اور بہتر بنا سکتے ہیں۔
تحقیق اور ترقی کے دروازے سب کے لیے کھل گئے ہیں۔
میٹا کے AI ڈائریکٹر “یان لی کان” نے کہا کہ اوپن سورس ماڈلز، نجی ماڈلز پر سبقت حاصل کر رہے ہیں۔
دیپسیک کی اوپن سورس پالیسی اور کم لاگت میں اعلیٰ معیار کی کارکردگی نے ٹیکنالوجی انڈسٹری میں بھونچال مچا دیا ہے اور میٹا جیسے ٹیک جائنٹس کو دفاعی پوزیشن میں ڈال دیا ہے!
چین اور امریکہ کی “چپ وار”
تبصرہ کریں