ڈیوڈ مِیدان کون ہے/ موساد کا سابق اہلکار اور خطے میں اسرائیلی دراندازی پر مامور
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: موساد کا سابق سینئر اہلکار ڈیوڈ مِیدان جانتا ہے کہ کسی ملک میں کس طرح دراندازی کی جائے: امارات میں عوام کی جاسوسی کرکے، مصر میں جاسوسی اداروں سے تعاون کرکے اور ترکی میں اسلحہ فروخت کرکے۔
غاصب صہیونی ریاست کے ساتھ خطے کے بعض ممالک کے تعلقات کی تہیں بہت گہری ہیں، اور ان کی جڑیں اس وہم میں پیوست ہیں کہ اس ریاست اور مختلف ممالک میں اس کے خفیہ گماشتوں کے ساتھ ان کے مفادات مشترکہ ہیں۔
ہم یہاں موساد کے سابق اعلیٰ اہلکار ڈيوڈ مِیدان (David Meidan) کا تعارف کرنے جا رہے ہیں:

موساد کا سابق افسر ڈیویڈ مِیدان دوسرا اسرائیلی فرد ہے جس نے امارات سمیت مشرق وسطیٰ کے دوسرے ممالک میں جاسوسی اور معلومات کے حوالے سے اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔
ڈیوڈ مِیدان کون ہے؟
ڈیوڈ مِیدان (1) سنہ 1955ع میں مصر میں پیدا ہؤا اور 1957ع میں والدین کے ساتھ مقبوضہ فلسطین چلا گیا اور قابضین و غاصیبن کی صف میں شامل ہؤا۔ ابتداء میں یونٹ 8200 نامی عسکری انٹیلی جنس میں شامل ہؤا اور 1977ع میں موساد میں منتقل ہؤا۔ اور زومیٹ (Tzomet بمعنی چوراہا) نامی محکمے میں شامل ہو کر جاسوسوں کی بھرتی اور تربیت کا عہدہ دار ہؤا۔ اس نے موساد میں اپنی خدمات کے دوران کئی غیر ملکی کاروائیوں میں شریک ٹیموں کی کمان سنبھالی۔
مِیدان سنہ 2006ع میں ٹیویل (Tevel) کا سربراہ مقرر ہؤا۔ یہ پوری دنیا میں جاسوسی اداروں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لئے موساد کا بیرونی تعلقات کا شعبہ ہے۔ ڈیوڈ مِیدان نے اس شعبے میں مشرق وسطیٰ کے ان ممالک کے ساتھ غیر رسمی تعلقات قائم کئے، جن کے غاصب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں تھے۔ اس شخص کا نام اسی عہدے پر، سنہ 2011ع میں حماس کے ہاں قید اسرائیلی سپاہی گیلاد شالیت (2) کی آزادی کے ساتھ منظر عام پر آیا۔ گیلاد شالیت کو حماس کے مجاہدین نے سنہ 2006ع میں پکڑ لیا اور کئی سال قید میں رہا۔ 2011ع میں حماس اور غاصب اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے دوران رہا ہؤا۔ مِیدان نے اس تبادلے میں کردار ادا کیا اور سنہ 2011ع میں ہی [بظاہر] موساد سے سبکدوش ہؤا۔

غاصب ریاست کے سابق وزير اعظم بنیامین نیتن یاہو نے قیدیوں کے تبادلے کے بعد گیلاد شالیت کا استقبال کیا۔ شالیت نے یاہو کو سیلوٹ کیا۔ تصویر میں شالیت کے پیچھے مسکراتا ہؤا شخص ڈیوڈ مِیدان ہے جس نے اس کی رہائی میں بنیادی کردار ادا کیا تھا: مصر میں تعیناتی کے دوران۔

اسرائیلی “ماتی کوچاوی” اسرائیل کے جاسوسی اور معلوماتی شعبوں کا اہم مہرہ ہے جس کو علاقے کے ممالک بالخصوص خلیج فارس کی عرب ریاستوں کے ساتھ قریبی تعلق برقرار کرنے کا مشن سونپ دیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ کوچاوی امارات میں غاصب اسرائیلی ریاست کے جاسوسی آلات اور اوزاروں کا گاڈفادر ہے۔
اپریل سنہ 2011 میں غاصب ریاست کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس کو موساد کے رکن اور گیلاد شالیت کی رہائی کے لئے اسرائیل کے خصوصی نمائندے ہاگان ہاداس کی جگہ مقرر کیا تھا۔ (3) اور اس نے اس سلسلے میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کی۔ وہ اسرائیلی وفد کا کلیدی رکن تھا اور اس کے مصری حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور اسی نے شالیت کی رہائی کے لئے ماحول فراہم کیا۔ اس منصب پر اس نے مختلف افراد کے ساتھ بات چیت کی اور مختلف ممالک کے بااثر لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم کئے۔ آخرکار اکتوبر 2011 میں حماس اور صہیونیوں کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے اور شالیت کو 1027 فلسطینی اسیروں کی رہائی کے عوض رہا کیا گیا۔ اسی سال نیتن یاہو نے مِیدان کو جنگی قیدیوں اور گمشدگان کے ادارے کا سربراہ مقرر کیا۔
نبتن یاہو کے چلے جانے کے بعد مِیدان بھی سرکاری امور سے الگ ہؤا لیکن ایک طرف سے اس اسرائیلی خفیہ اہلکاروں کے ساتھ وسیع تعلقات تھے اور دوسری طرف سے خطے کے ممالک میں بھی اس کا کافی اثر و رسوخ تھا چنانچہ صہیونی سرمایہ داراس شخص کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کر سکتے تھے، وہ جو مشرق وسطیٰ میں منافع بخش مواقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے تھے۔ چنانچہ ڈیوڈ مِیدان کو تمام جدید ٹیکنالوجیز کے مِیدان میں ایک تجارتی عامل اور ایک مشہور بروکر کے طور پر جانا جاتا ہے اور ان تمام ٹیکنالوجیز میں غاصب ریاست حصص بھی رکھتی ہے اور مہارت بھی: سائبر اسپیس، ہتھیاروں اور جاسوسی اور معلومات نیز پانی صاف کرنے کی فنی سہولیات وغیرہ۔ مِیدان ان تمام شعبوں میں سرکاری اور غیر سرکاری تاجروں اور اہلکاروں کے ساتھ تعاون کرتا ہے تا کہ مشرق وسطیٰ کے خطے کے ممالک میں نفوذ کر سکے۔
مِیدان نے خطے کے ممالک میں اسرائیل اثر و رسوخ کو استحکام بخشا ہے۔ اور وہ یوں کہ اس سے قبل کے کہنہ مشق لوگ – جو صہیونی ایجنسیوں سیکورٹی اداروں کے ملازم تھے – اسرائیلی کمپنیوں کے لئے ضروری پلیٹ فارم فراہم کر چکے ہیں اور اب یہ کام ڈيوڈ مِیدان سمیت دوسروں کے سپرد کیا گیا ہے جنہوں و سابقہ ایجنٹوں کی فراہم کردہ پوزیشن کو استحکام اور فروغ دیا ہے۔ امارات میں سائبر اسپیس اور ہتھیاروں کے حوالے سے ماتی کوچاوی (Mati Kochavi) کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے جس کو امارات کی سائبر ٹیکنالوجی کا گاڈ فادر کہا جا سکتا ہے۔ جو کچھ عرصہ بعد [بظاہر] آل نہیان کے ساتھ کسی اختلاف میں الجھ گیا اور اسے مِیدان سے نکال باہر کیا گیا اور ڈیوڈ مِیدان نے اس کی جگہ لے لی۔ کوچاوی نے سیکورٹی اور سائبر کے مِیدان میں امارات کے ساتھ بڑے بڑے معاہدے منعقد کئے لیکن مِیدان ہی وہ شخص تھا جس نے اس مِیدان میں امارات کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو دوام اور فروغ دیا۔
ڈیوڈ مِیدان بھی مشرق مشرق وسطیٰ کے بااثر حکام اور شخصیات کے ساتھ اپنے وسیع ذاتی تعلقات کی بنا پر، ہمیشہ ایک مذاکرات کار ایجنٹ کے طور پر، خطے کے ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی غرض سے اسرائیل کے لئے راستہ ہموار کرتا رہا ہے اور اس حوالے سے اس نے غاصب ریاست کے ہاں مثبت کارکردگی دکھائی ہے۔ ڈیوذ مِیدان نے – اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ مغربی ایشیا میں کسی ملک کے ساتھ تعلقات سے صہیونی ریاست کے کیا مقاصد ہوتے ہوتے ہیں؟ ایک پیش رو سپاہی کے طور پر عمل کیا ہے اور رابطے کے تمام راستوں کو فعال کر دیا ہے۔
ڈیوڈ مِیدان – سیکورٹی اور جاسوسی کے شعبوں میں طویل تجربے، وسیع اور متنوع مواصلاتی نیٹ ورک سے متصل ہونے، اور اسرائیل کی غاصب ریاست کے اندر کے سرمایہ کاری کے ذرائع اور صاحب ثروت افراد جڑے رہنے کے بدولت – اسرائیل کے مؤثرترین مذاکراتی کردار میں تبدیل ہؤا ہے۔ مصر میں انفارمیشن ایکسچینچ کے مشن کی انجام دہی، ترکی کو قریبی تعلقات کی بحالی پر آمادہ کرنا اور اسرائیل میں فنی اثر و رسوخ کی بنیادیں مستحکم کرنا، اس کثیر مشنوں میں شامل ہیں جو اس نے صہیونی ریاست کے لئے سرانجام دیئے ہیں اور اگر ان کا صحیح جائزہ لیا جائے تو اس شخص کی صحیح شناخت ممکن ہو جائے گی۔

خطے کے ممالک میں اسرائیل کے نفوذ اور اثر و رسوخ میں ڈیوڈ مِیدان کا کردار اس قدر نمایاں تھا کہ بہت سے لوگ اسے نیتن یاہو کا اصل وزیر خارجہ کا عنوان دیتے تھے۔ بعض ذرائع نے اس کو خطے میں مصروف کار دہشت گردوں کے دادا کا لقب بھی دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[…] تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے […]